باپ دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جو کہ اپنے بچوں کی پرورش کے لئے اپنی جان تک لڑا دیتا ہے۔ ہر باپ کا یہی خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو اعلیٰ سے اعلیٰ میعار زندگی فراہم کرے تاکہ وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسر کرسکے اور معاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے۔والدین دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں، اگر کسی کویہ نعمت حاصل ہے اوروہ اْن کی خدمت واطاعت کررہاہے تو وہ بڑاسعادت مند اوراللہ کا محبوب بندہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں ماں کا مقام ومرتبہ تو ہرلحاظ سے اجاگر کیا جاتا ہے لیکن باپ کا مقام کسی حدتک نظرانداز کردیا جاتا ہے، یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ قرآن پاک کے احکامات اور فرامین رسول ۖ میں والدین کی خدمت واطاعت کا حکم دیاگیا ہے اور ظاہر ہے کہ والدین میں باپ درجہ اوّل کا حامل ہے۔ والد انسان کو عدم سے وجود میں لانے والی ذات ہے ،یعنی اس کی پیدائش کا سبب ہے،یہاںپر بڑی غور ظلب بات ہے کہ والدین در حقیقت انسان کے دنیا میں آنے کا ذریعہ ہوتے ہیں انسان کا وجود والدین کے رہین منت ہوتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بھی کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیاجب تمہارے ماں باپ میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک مت کہوسور بنی اسرائیل کی آیت مبارکہ میں والدین کے ساتھ خصو صی اس وقت حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں۔
کیوں کہ اس عمر میں انسان عموما چڑچڑا ہوجاتا ہے اور اس کی طبیعت میں بے قراری و بے چینی پیدا ہوجاتی ہے ،لہٰذا والدین کو اس کیفیت میں اولاد کی طرف سے اچھے رویے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے والدین کا ایک ایسا رشتہ ہے اس جیسا رشتہ شاید دنیا میں نہ ہوجب بچہ اس دنیا میں آتا ہے یہاںبڑی غورطلب بات ہے کہ والد کی باتیں غور سے سنو تاکہ دوسروں کی نہ سننی پڑیں،تو والدین اپنی نیند کی پرواہ کیے بغیر اپنے لخت جگر کی نیند کی پرواہ کرتے ہیں اپنی بیماری کی پرواہ کیے بغیر رات کے اندھیرے میں بھی اپنے لخت جگر کو اٹھا کر اسے سلانے کی کوشش کرتے ہیں جو بھی ہو اپنے لخت جگر کو ہر طرح کا آرام دیتے ہیں اللہ رب العزت نے بھی ماں کے قدموں تلے جنت کو رکھ دیا اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایااگر جنت کمانی ہوتو اپنے والدین کی خدمت کرو والدین جو حکم دیں ان کو بجالاؤ ان کے آگے اف تک نہ کرو جب وہ باہر سے آئیں تو ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاؤ جس طرح کئی مقام پر والدین کے ساتھ ادب سے پیش آنے اور ان کے سامنے عاجزی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے،۔غورطلب بات یہ ہے کہ والد ایک ذمہ دار انسان ہے جو اپنی خون پسینے کی محنت سے گھر چلاتا ہے و الد ایک مقدس محافظ ہے جو ساری زندگی خاندان کی نگرانی کرتا ہے۔
والد کے آنسو تمہارے دکھ سے نہ گریں ورنہ اللہ تم کو جنت سے گرادے گا۔اوردوران حیات باپ کا ادب واحترام کرنا ان سے محبت کرنا اولاد پر لازم ہے ا سی طرح جب والدین دنیا سے رخصت ہوجائیں تو ان کے لیے سرمایہ آخرت نیک اولاد ہی ہوتی ہے جو ان کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرتی ہے اللہ تعالیٰ نے اولاد کو اپنے والدین کے حق میں رحمت و مغفرت کی دعا بھی سکھائی ترجمہ اے میرے رب میرے والدین پر رحمت کاملہ نازل فرما جس طرح کہ انہوں نے میرے ساتھ رحمت کا معاملہ کیااوروالد کی خدمت و ا حترام سے د نیا اورآخرت میں کامیابی ملتی ہے۔والد اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اورباپ سچے جذبے اور صادق رشتے کا نام ہے،جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ باپ کی عظمت سے کوئی بھی انسان، دین، مذہب، قوم اور فرقہ انکار نہیں کر سکتا۔باپ کا رشتہ ہر غرض بناوٹ اور ہر طرح کے تقاضے سے پاک ہوتاہے،اولاد کیلئے والد کی حیثیت ایک سائبان کی طرح ہوتی ہے۔
والدین ا للہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیںاس نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی قدر کی جائے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا جائے یہاں پر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ ماں کے بعد وہ باپ ہی کی شخصیت ہے جو اولاد کی حفاظت اور پرورش وپرداخت میں اثر انداز ہوتی ہے اس کو تعلیم وتربیت دینے میں اور اس کو ہر طرح سے نکھارنے میں باپ کا بڑاہاتھ ہوتاہے اس کی پائی پائی کی کمائی کا بیشتر حصہ اولاد کے لیے صرف ہوتا ہے اسی طرح اولاد کے غم اور ان کی خوشی سے خوشی کو حقیقی معنی میں محسوس باپ ہی کرتا ہے یہاں پربڑی غور طلب بات ہے کہ ماں کے بعد باپ بھی اپنی زندگی کاانمول حصہ اولاد کی نذر کردیتاہے اے میرے پروردگار! تو مجھے اور میرے ماں باپ اور جو بھی ایمان کی حالت میں میرے گھر میں آئے اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دے ماں اور پھر باپ یہ دونوں اس دنیا میں نہایت قیمتی جوہر ہیںاور جنت میں داخل ہونے کے اسباب بھی ہیںانسان کی بد نصیبی اس سے بڑھ کے اور کیا ہوکہ اسے اپنے باپ کی محبت میں ڈرامہ نظر آنے لگے اور اپنے ہی بچے اپنے باپ کی برائیاں کرنے لگیں تو قیامت کو برپا ہونے کے لئے اس سے بہتر وقت کیا مل سکتا ہے۔
باپ کا احترام کرو تاکہ تمہاری اولاد تمہارا احترام کرئے باپ کی باتیں غور سے سنو تاکہ دوسروں کی نا سننی پڑیںباپ کے سامنے اونچا نا بولو ورنہ اللہ تعالٰی تمہیں نیچا کر دے گاباپ کے سامنے نظر جھکا کے رکھو تا کہ اللہ تعالٰی تمہیں دنیا میں بلند کرے باپ کی سختی برداشت کرو تاکہ باکمال ہو سکو باپ کے آنسو تمہارے دکھ سے نا گریں ورنہ اللہ تعالٰی تمہیں جنت سے گرا دیں گے باپ جو صبح سے شام تک اولاد کی پرورش ان کی تربیت کے سلسلہ میں بے چین رہتا ہے وہ اس خیال میں محو رہتا ہے کہ اخراجات کی تکمیل کیسے ہو باپ کا مقام بیان کرتے ہوئے آپ ۖ نے فرمایاباپ جنت کے دروازوں میں بیچ کا دروازہ ہے اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کر یا اس کو ضائع کردے ایک موقعہ پر ایک صحابی رسول آکر آپ ۖ کی خدمت میں شکایت کرنے لگے کہ میرے والد میرے مال سے خرچ کرنا چاہتے ہیں ایسے موقع پر میں کیا کروں آپۖ نے جواب دیاتو او رتیرا مال تیرے والد ہی کے لیے ہے یہاں پر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ والدین کی ناقدری وبائی شکل اختیار کرتی جارہی ہے والدین کی نافرمانی عام سی بات ہو گئی ہے۔
والدین کے ساتھ بد سلوکی اس حد تک عام ہوگئی کہ والدین کو گھر سے باہر نکالا جارہا ہے جس کے اثر سے اولڈ ہاؤس کی کثرت ہورہی ہے آپ ۖنے جو علامات قیامت کی بیان کی تھیں کہ قرب قیامت میں والدین کی نافرمانی عام ہوگی خدا نے کسی کو تین چیزیں چھوڑنے کی اجازت نہیں دی ہے امانت ادا کرنے کی خواہ نیک آدمی کی ہو یا بدکاری کی عہد پورا کرنے کی خواہ نیک سے کیا ہو یا بد سے اور باپ کے ساتھ احسان و نیکی کرنے کی خواہ وہ نیک ہوں یا بداور باپ کے ساتھ نیکی کرو باپ کے ساتھ ر ہنے اور زندگی گزارنے میں جہاں تک ہوسکے نیکی کرو اور انہیں اس چیز کے مانگنے کی زحمت نہ دو کہ جس کی ان کو ضرورت ہے خواہ وہ مستغنی اور بے نیاز ہی ہوں اور قرآن مجید کی ایت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب تک تم اپنی محبوب چیزوں کو خرچ نہیں کروگے نیکی تک نہیں پہنچ سکو گے، تمہارے اوپر تمہارے باپ کا حق یہ ہے کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ تمہاری اصل وبنیاد ہے ،اور تم اس کی شاخ ہو اگر وہ نہ ہوتے تو تمہارا وجود نہ ہوتا پس جب تم اپنے اندر کوئی ایسی چیز دیکھو کہ جو تمہیں خود پسندی میں مبتلا کردے تو اس وقت تم یہ خیال کروکہ اس نعمت کا سبب تمہارا باپ ہے، اور اس پر خدا کا شکرادا کرو اور خدا کی طاقت کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمردراز کی جائے اور اس کے رزق کو بڑھادیا جائے اس کو چاہئے کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کیا اس کے لئے خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر میں اضافہ فرمائیں گے،یہاں پربڑی غور ظلب بات ہے کہباپ اک چھت کی مانند ہوتا ہے جس طرح اک چھت گھر کے مکین کو موسم کے سرد گرم موحول سے محفوظ رکھتی ہے اسی طرح باپ موسم کے نارواں سلوک سے ہمیں تحفظ دیتا ہے آندھی طوفان اور گرج چمک اور گنگھور گھٹا سے بچا کے رکھتا ہے ،اورباپ دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جو کہ اپنے بچوں کی پرورش کے لئے اپنی جان تک لڑا دیتا ہے۔ ہر باپ کا یہی خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو اعلیٰ سے اعلیٰ میعار زندگی فراہم کرے تاکہ وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسر کرسکے اور معاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے، اوریہاںپر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہہمارے بوڑھے باپ نے ہمارے لیے کیا کیا۔
اولاد جوان ہونے کے بعد باپ کی محنت و مشقت اور مہربانیاں بھول جاتی ہے۔ جوان بیٹا ہاتھ ائی دولت پر اپنا حق یوں جتلاتا ہے، جیسے صرف اسی کے خون پسینے کی کمائی ہے غورطلب بات ہے کہ والد کا احترام کرو تاکہ تمہاری اولاد تمہارا احترام کرے والد کی عزت کرو تاکہ اس سے فیض یاب ہوسکو،والد کا حکم مانو تاکہ خوشحال ہوسکواوروالد کے سامنے اْونچا نہ بولو ورنہ اللہ تم کو نیچا کردے گا۔ ماں باپ کی بہت خدمت کرے اْن کے مرنے سے پہلے اگر اولاد گھر وغیرہ کے اخراجات کے لئے باپ کو رقم دیتی ہے تو اس کا صحیح استعمال ہونا چاہئے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کی فرمانبردای کرنے والا بنائے اور ہماری اولاد کو بھی ان حقوق کی ادائیگی کرنے والا بنائے والدین کے ساتھ حسن سلوک ایک نہایت ہی بنیادی حق اور اہم ترین فریضہ ہے اسی طرح ان کی خدمت وفرماں برداری بھی ایک بہترین اطاعت ہے یہی وجہ ہے کہ ربّْ العالمین نے والدین کے حقوق کو اپنے حقوق کے ساتھ بیان فرمایا ہے اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح معنوں میں والدین کی خدمت کی توفیق نصیب فرمائے اور ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے اور جن کے والدین اس دنیا سے چلے گئے ان کی اولاد کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین