تحریر : واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم سال دو سال بعد کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ پاکستانی اقلیتوں کے حوالے سے رونما ہو جاتا ہے جس سے کہ اقلیتیں اپنے آپ کو پاکستان میں پھر غیرمحفوظ سمجھنے لگتی ہیں۔ میں نے جملے میں “پھر” کا لفظ اس لئے استمال کیا ہے کہ ابھی پرانے کسی واقعہ کے زخم بھرتے نہی ہیں کہ نئے زخم لگانے کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔۔ پولیس گردی ویسے تو پورے ملک کا المیہ ہے۔ مگر اقلیتوں کے حوالے سے ان کا کردار ہمیشہ مشکوک رہا ہے میڈیا کا کردار بھی اس واقعہ کے حوالے سے سمجھ سے باہرہے ۔ کیونکہ اتنے بڑے واقعہ پر سوائے ایک دو غیرمعروف چینلز کے کہیں کوئ خبر نظر نہی آئ۔ جنرل مشرف کے دور میں پولیس کی اصلاح کے حوالے سے کچھ تبدیلیاں کی گئ تھی مگر پھر جمہوریت کے جھوٹے علم برداروں نے عوام کو پولیس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔
واقعہ یہ ہے کہ گجرات میں کھاریاں میں واقع فادر کالونی میں مسیحیوں کی بڑی تعداد رہتی ہے۔ یہ مسیحی امن پسند ہیں اور محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ زرایع کے مطابق گزشتہ ہفتے تھانہ گلیانہ کی پولیس نے اس مسیحی بستی کے مکینوں کے ساتھ ایسا شرمناک سلوک کیا کہ شاید ملک کے دشمنوں کے ساتھ بھی کوئ نہی کرتا۔ عورتوں اور بچوں تک مارا تو گیا مگر اس سے بھی زیادہ حد اس وقت گُزر گئ جب یہ پولیس والے شوہروں اور بھائیوں کی موجودگی میں خواتین کو غلظ گالیاں دے رہے تھے ان خواتین کا قصور یہ تھا کہ وہ پولیس کو ان کے مردوں کو بے تحاشہ مارنے پر روک رہیں تھیں۔
تفصیل یہ ہے کہ ن لیگ کے ایک مسیحی کارکن نے اپنے چند ساتھیوں سمیت ن لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئ جوئین کر لی جس پر پڑوس کے علاقے کے ن لیگ کے ورکر احسان ڈار اور ملک اکرم کو غصہ تھا۔ انہوں نے تھانہ گلیانہ کے ایس ایچ او تنویر عباس بھٹی کے ساتھ مل کر فادر کالونی کے مسیحیوں کو سبق سیکھانے کا پلان بنایا اور ان کو گرفتار کرنے کے لئے سادہ کپڑوں میں اے ایس آئ محمد عظیم، اے ایس آئ غلام حسین کو چند سپاہیوں کے ساتھ روانہ کیا۔ سادہ لباس میں پولیس جب علاقے میں آئ تو مسیحی نوجوان آپس میں کرکٹ کا میچ کھیل رہے تھے۔ پولیس نے لڑکوں کو مارنا شروع کر دیا ۔اور الزام یہ تھا کہ یہ لڑکے میچ فکس کر کے کھیل رہے ہیں۔ چونکہ پولیس سادہ کپڑوں میں تھی اس لئے علاقے کے مسیحی بھی مشتعل ہو گئے۔ اور سمجھے کے کسی گروپ نے حملہ کر دیا ہے۔ وہ بھی لڑ پڑے۔
اس پر اے ایس آئ محمد عظیم ان کو سنگین نتائیج کی دھمکیاں دیتا ہوا چلا گیا۔8 جون کی شام کو تھانہ گلیانہ کے ایس ایچ او تنویر عباس بھٹی نے علاقے کے دیگر تھانوں سے پولیس کی بھاری نفری طلب کر کے فادر کالونی پر حملہ کر دیا۔ اور بچوں، عورتوں بزرگوں سمیت کسی کو نہی چھوڑا۔ ایک شخص جو نہایت بزرگ اور فالج زدہ تھا اس نے پولیس سے وجہ پوچھی تو اسے بھی بے دردی سے مارا۔ پولیس اتنے غصے میں تھی کہ نہتے مسیحیوں پر گولی چلا دی جس سے چند لوگ زخمی بھی ہوئے۔ پولیس سے لڑائ کی خبر پر گجرات میں موجود میجر عزیز بھٹی شہید ہسپتال کا عملہ بھی مسیحی زخمیوں سے آنکھیں چراتا رہا۔ پولیس نے یہ موقف اختیار کیا کہ ہمیں یہ خبر ملی تھی کہ فادر کالونی میں چند لوگ جوا کھیل رہے ہیں کہ سب انسپیکٹر محمد افضل، اے ایس آئ محمد عظیم،اے ایس آئ افتخار حسین،اے ایس آئ غلام حسین سمیت پولیس کی بھاری نفری نے چھاپہ مارا توعیسائ قوم کے 25 سے 30 لوگ جو آتشی اسلحہ سے لیس تھے پولیس پر حملہ کر دیا اور پولیس نے زمین پر لیٹ کر جان بچائ۔ یعنی جن کے پاس آتشی اسلحہ تھا گولیوں سے زخمی بھی وہی ہوئے اور کسی ایک بھی پولیس والے کو کسی بھی آتشی اسلحے کی گولی نہی لگی۔
شاید پولیس واٹر پسٹل کو آتشی اسلحہ سمجھتی ہے۔ مقامی سماجی کارکن اور ساتھ کے ڈائیرکٹر نواب کاشف نے فادر کالونی کا دورہ کیا اور بتایا کہ لوگ بہت زیادہ خوفزدہ ہیں کیونکہ ان ہی کے محافظ ان کے دشمن بن چکے ہیں۔ ان مسیحیوں کے خلاف 324/353/148/149 کی دفعات کے تحت ایف آئ آر کٹ چکی ہے۔ محبوب مسیح کو گولی لگی ہے اور ایف آئ آر بھی اسی کے خلاف کاٹی گئ ہے اس کے علاوہ ایک بزرگ سمیت چار مسیحیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور باقی مسیحیوں کی گرفتاری کے لئے پولیس چھاپے مار رہی ہے۔ ڈی پی او گجرات سہیل ظفر چھٹہ نے ایس ایچ او تنویر عباس اور اے ایس آئ محمد عظیم کو معطل کر دیا اور واقعہ کی تفتیش ایس پی معاز ظفر کے حوالے کر دی مگر ایس پی صاحب کی تفتیش بھی مسیحیوں کے خلاف شروع ہو چکی ہے۔
انسانی حقوق کی سرگرم نمایندہ خاتون اورکرسچن ٹرو سپرٹ کی چئیرپرسن سپنا کرامت اپنی ٹیم کے ساتھ ہنگامی طور پر فادر کالونی پہنچی۔ انہوں نے بھی اس واقعہ کی شدید مزمت کی اور حکام اعلی سے درخواست کی کہ وہ اس واقعہ کے سخت نوٹس لیں۔ ان کے ہمرا وکلا کی ایک ٹیم شہباز فضل سرویا اور ایڈوکیٹ ندیم حسن کی سرپرستی میں موجود تھی۔جو ان مسیحیوں کو قانونی مدد فراہم کرے گی۔ اس شرمناک واقعے کا سب سے بھیانک پہلو یہ ہے کہ ان غریب مسیحیوں کی دشمنی ان ہی کے محافظوں سے ہو چکی ہے۔ اب انہوں نے رہنا بھی اسی کالونی میں ہے اور ان کے خلاف مقدمہ بھی گلیانہ پولیس اسٹیشن میں درج ہوا ہے جو ان کا علاقہ ہے اور مقدمہ درج کرنے والے خود ہی منصف بھی ہیں اور جلاد بھی خود۔ یہ کل دوبارہ اسی تھانے میں افسر ہونگے تو کیسے کوئ ان کے خلاف گواہی دے گا۔ رہی بات ہمارے مسیحی نمایندے جن کا تعلق ن لیگ سے ہے وہ ایک بار پھر زبانی جمح خرچ کے لئے کمیونٹی میں آئے گے اور پھر غائب ہو جائے گے۔