تحریر میاں نصیراحمد والدین در حقیقت انسان کے دنیا میں آنے کا ذریعہ ہوتے ہیں انسان کا وجود والدین کے رہین منت ہوتا ہے اسی لیے اللہ تعالی نے بھی کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیاجب تمہارے ماں باپ میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک مت کہو سور بنی اسرائیل کی آیت مبارکہ میں والدین کے ساتھ خصوصی اس وقت حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں کیوں کہ اس عمر میں انسان عموما چڑچڑا ہوجاتا ہے اور اس کی طبیعت میں بے قراری و بے چینی پیدا ہوجاتی ہے لہٰذا والدین کو اس کیفیت میں اولاد کی طرف سے اچھے رویے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے والدین کا ایک ایسا رشتہ ہے اس جیسا رشتہ شاید دنیا میں نہ ہوجب بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو والدین اپنی نیند کی پرواہ کیے بغیر اپنے لخت جگر کی نیند کی پرواہ کرتے ہیں۔
اپنی بیماری کی پرواہ کیے بغیر رات کے اندھیرے میں بھی اپنے لخت جگر کو اٹھا کر اسے سلانے کی کوشش کرتے ہیں جو بھی ہو اپنے لخت جگر کو ہر طرح کا آرام دیتے ہیں اللہ رب العزت نے بھی ماں کے قدموں تلے جنت کو رکھ دیا اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایااگر جنت کمانی ہوتو اپنے والدین کی خدمت کرو والدین جو حکم دیں ان کو بجالاؤ ان کے آگے اف تک نہ کرو جب وہ باہر سے آئیں تو ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جاؤ جس طرح کئی مقام پر والدین کے ساتھ ادب سے پیش آنے اور ان کے سامنے عاجزی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اوردوران حیات باپ کا ادب واحترام کرنا ان سے محبت کرنا اولا پر لازم ہے ا سی طرح جب والدین دنیا سے رخصت ہوجائیں تو ان کے لیے سرمایہ آخرت نیک اولاد ہی ہوتی ہے جو ان کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کرتی ہے۔
Father
اللہ تعالی نے اولاد کو اپنے والدین کے حق میں رحمت و مغفرت کی دعا بھی سکھائی ترجمہ اے میرے رب میرے والدین پر رحمت کاملہ نازل فرما جس طرح کہ انہوں نے مجھے پالا یعنی میرے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا والدین ا للہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہیںاس نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی قدر کی جائے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا جائے یہاں پر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ ماں کے بعد وہ باپ ہی کی شخصیت ہے جو اولاد کی حفاظت اور پرورش وپرداخت میں اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کو تعلیم وتربیت دینے میں اور اس کو ہر طرح سے نکھارنے میں باپ کا بڑاہاتھ ہوتاہے اس کی پائی پائی کی کمائی کا بیشتر حصہ اولاد کے لیے صرف ہوتا ہے اسی طرح اولاد کے غم اور ان کی خوشی سے خوشی کو حقیقی معنی میں محسوس باپ ہی کرتا ہے یہاں پربڑی غور طلب بات ہے کہ ماں کے بعد باپ بھی اپنی زندگی کاانمول حصہ اولاد کی نذر کر دیتا ہے اے میرے پروردگار! تو مجھے اور میرے ماں باپ اور جو بھی ایمان کی حالت میں میرے گھر میں آئے اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دے ماں اور پھر باپ یہ دونوں اس دنیا میں نہایت قیمتی جوہر ہیں اور جنت میں داخل ہونے کے اسباب بھی ہیںانسان کی بد نصیبی اس سے بڑھ کے اور کیا ہوکہ اسے اپنے باپ کی محبت میں ڈرامہ نظر آنے لگے اور اپنے ہی بچے اپنے باپ کی برائیاں کرنے لگیں تو قیامت کو برپا ہونے کے لئے اس سے بہتر وقت کیا مل سکتا ہے۔
باپ کا احترام کرو تاکہ تمہاری اولاد تمہارا احترام کرئے باپ کی باتیں غور سے سنو تاکہ دوسروں کی نا سننی پڑیںباپ کے سامنے اونچا نا بولو ورنہ اللہ تعالٰی تمہیں نیچا کر دے گاباپ کے سامنے نظر جھکا کے رکھو تا کہ اللہ تعالٰی تمہیں دنیا میں بلند کرے باپ کی سختی برداشت کرو تاکہ باکمال ہو سکو باپ کے آنسو تمہارے دکھ سے نا گریں ورنہ اللہ تعالٰی تمہیں جنت سے گرا دیں گے باپ جو صبح سے شام تک اولاد کی پرورش ان کی تربیت کے سلسلہ میں بے چین رہتا ہے وہ اس خیال میں محو رہتا ہے کہ اخراجات کی تکمیل کیسے ہو باپ کا مقام بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ اعلیہ وآلہ وسلم نے فرمایاباپ جنت کے دروازوں میں بیچ کا دروازہ ہے اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کر یا اس کو ضائع کردے ایک موقعہ پر ایک صحابی رسول آکر آپ صلی اللہ اعلیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں شکایت کرنے لگے کہ میرے والد میرے مال سے خرچ کرنا چاہتے ہیں ایسے موقع پر میں کیا کروں آپ صلی اللہ اعلیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا تو او رتیرا مال تیرے والد ہی کے لیے ہے کہ باپ کے سامنے اونچا نہ بولو ورنہ اللہ تعالی تم کو نیچا کردے گا یہاں پر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ والدین کی ناقدری وبائی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔
Disobedience to Parents
والدین کی نافرمانی عام سی بات ہوگئی والدین کے ساتھ بد سلوکی اس حد تک عام ہوگئی کہ والدین کو گھر سے باہر نکالا جارہا ہے جس کے اثر سے اولڈ ہاؤس کی کثرت ہورہی ہے آپ صلی اللہ اعلیہ وآلہ وسلم نے جو علامات قیامت بیان کی تھیں کہ قرب قیامت میں والدین کی نافرمانی عام ہوگی خدا نے کسی کو تین چیزیں چھوڑنے کی اجازت نہیں دی ہے امانت ادا کرنے کی خواہ نیک آدمی کی ہو یا بدکاری کی عہد پورا کرنے کی خواہ نیک سے کیا ہو یا بد سے اور باپ کے ساتھ احسان و نیکی کرنے کی خواہ وہ نیک ہوں یا بداور باپ کے ساتھ نیکی کرو باپ کے ساتھ ر ہنے اور زندگی گزارنے میں جہاں تک ہوسکے نیکی کرو اور انہیں اس چیز کے مانگنے کی زحمت نہ دو کہ جس کی ان کو ضرورت ہے خواہ وہ مستغنی اور بے نیاز ہی ہوں اور قرآن مجید کی ایت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب تک تم اپنی محبوب چیزوں کو خرچ نہیں کروگے نیکی تک نہیں پہنچ سکو گے۔
تمہارے اوپر تمہارے باپ کا حق یہ ہے کہ تمہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ تمہاری اصل وبنیاد ہے اور تم اس کی شاخ ہو اگر وہ نہ ہوتے تو تمہارا وجود نہ ہوتا پس جب تم اپنے اندر کوئی ایسی چیز دیکھو کہ جو تمہیں خود پسندی میں مبتلا کردے تو اس وقت تم یہ خیال کروکہ اس نعمت کا سبب تمہارا باپ ہے اور اس پر خدا کا شکرادا کرو اور خدا کی طاقت کے علاوہ کوئی طاقت نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کی عمردراز کی جائے اور اس کے رزق کو بڑھادیا جائے اس کو چاہئے کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کیا اس کے لئے خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر میں اضافہ فرمائیں گے اور اپنے ماں باپ کی بہت خدمت کرے ان کے مرنے سے پہلے اگر اولاد گھر وغیرہ کے اخراجات کے لئے باپ کو رقم دیتی ہے تو اس کا صحیح استعمال ہونا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے والدین کی فرمانبردای کرنے والا بنائے اور ہماری اولاد کو بھی ان حقوق کی ادائیگی کرنے والا بنائے والدین کے ساتھ حسن سلوک ایک نہایت ہی بنیادی حق اور اہم ترین فریضہ ہے اسی طرح ان کی خدمت وفرماں برداری بھی ایک بہترین اطاعت ہے یہی وجہ ہے کہ رب العالمین نے والدین کے حقوق کو اپنے حقوق کے ساتھ بیان فرمایا ہے اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح معنوں میں والدین کی خدمت کی توفیق نصیب فرمائے اور ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھے اور جن کے والدین اس دنیا سے چلے گئے ان کی اولاد کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے اللہ تعالیٰ ہم سب کو والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین