تحریر: حضرت پیر سید محمد جملے شاہ، کندھانوالہ شریف
ابو عبدالرحمان عبداللہ بن مسعود بن غافل بن حبیب بنشَمَخْ بن فار بن مخزوم بن صَاھِلَةْ بن کَاھِلْبن حارث بن تمیم بن سعد بن ہذیل بن مُدْرِکَةْ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان،چھٹے مسلمان، صاحب ِہجرتین (حُبْشَةْ ومَدِیْنَةْ) ،نمازیٔ قِبْلَتَیْن (بیت ُ اللہ وبیت ِمقدس)اور کلام ِمجید (سورة رحمان کی پہلی چھ آیات ِمقدسہ)کوصنادید ِقریش کے سامنے حرم ِکعبہ میں باآوازِبلند تلاوت کرنے والے جلیل الْمَنْزِلَةْصحابی ہیں ۔آپ کے والد قبل ِاسلام وفات پاگئے اوروالدہ نے پرورش کی جوبعد میں مشرف بہ اسلام ہوئیں ۔والدہ کی کنیت سے آپ بْنِ أمِّ عَبْد اور فرزند کی مناسبت سے أبُوْعَبْدُالْرَّحْمٰنْ کہلاتے ہیں۔ ہجرت کے سینتیس سال قبل مکہ مکرمہ میں متولد ہوئے اور عَقْبَةْ بن أبِْمُعَیْط (مقتول ِبدر ومذکور درسورة فرقان آیت ٢٧،والد ِولیدبن عَقْبَةگورنرکوفہ) بن أبِْعَمروْبن أُمَیَّةْ بن عبد ِ شمس ( عَقْبَةْ بن أبِْمُعَیْطکی زوجہ عروة بنت ِقریض بن ربیعہ وعفان بن ابوالعاص سے عثمان بن عفان کی ولادت ہوئی ۔)کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک روز حضور کی بارگاہ میں لسی پیش کی تو آپ نے میرے سر پہ ہاتھ پھیر کر فرمایا ،”یَرْحَمُکَ اللّٰہْ نَّکَ غُلاَم مُعَلِّم ” جس کے بعد میری ذود فہمی کایہ عالم تھاکہ میں نے حضور ۖسے ستر سورةہائے قرآنی مع تفسیرحفظ کیں۔امیر المومنین سیدنا علی ابن ِابی طالب آپ کو فَقِیْہْ فِْ الْدِّیْن، عَالِم بِالْسُّنّةْ قرا ردیتے تھے۔
سرکار ِدوعالم ۖسے آپ کی ارادت یہ عالم تھا کہ ابو موسیٰ أشْعَرِْ کہتے ہیں کہ میں سرکار ِدوعالم کی زیارت سے کبھی شرفیاب نہیں ہوااِلاّیہ کہ عبداللہ ابن ِمسعود آپ کے ساتھ نہ ہوں۔عبداللہ ابن ِعباس فرماتے ہیں کہ غزوئہ اُحد میں آپ حضور کے ساتھ رہ جانے والے چار جانثاروں میں سے تھے ۔ آپ کو صاحب ِنعلین ِنبوی کہا جاتا ہے کہ آپ حضور کی نعلین بردار ی کرتے اور عصا تھام کر حضور کے آگے محافظت فرماتے ۔ قَالَ قَاسِمْ بَنْ عَبْدُالْرَّحْمَانْ: کَانَ بْنُ مَسْعُوْدٍ یَلْبَسَ رَسُوْلِ اللّٰہِ نَعْلَیْہ ثُمَّ یَمْشِْ أمَامَہُ بِالْعَصَا حَتّٰی ذَا أتیٰ مَجْلِسِہ نَزَعَ نَعْلَیْہ فَادْخِلْھَا فِْ ذِرَاعَیْہ وَاعْطَاہُ الْعَصا، فَذا أرَادَ رَسُوْلِ اللّٰہ أنْ یَقُوْمَ لیٰ نَعْلَیْہ ثُمَّ مَشَِ بِالْعَصا أمَامَہُ حَتّٰی یُدْخِلُ الْحُجْرَةَ قَبْلَ رَسُوْلِ اللّٰہْ ۔ ایک دفعہ حضور ۖکے لیے خرمے اتارنے کی غرض سے کھجور کے درخت پہ چڑھے تو رفقا نے نازک اندام پنڈلیوں کااستہزاکیاجس پہ آنحضرت ۖنے فرمایا ؛ نَّھُمُ الْأثْقَلَ فِْ الْمِیْزَانِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِمِنْ أُحُدٍ فِْ شَارَةٍ لیٰ أنَّ ھٰذَا الْرَّجُلَ الَّذِْ ھُوَ ضَعِیْفُ الْبَنِیَّةْ دَقِیْقُ الْسّاقِیْنَ یَزِنْ عِنْدَ اللّٰہِ وَزْناً عَظِیْماً مِنْ خَلاَلِ الیْمانِ الَّذِْ شَعْشَعُ فِْ صَدَرِہْ وَالْیَقِیْنَ الْذِْ امْتَلأ فِْ قَلْبِہ۔یہ قیامت کے دن میزان پہ احد پہاڑ سے زیادہ وزنی ہیں ۔نحیف بدن وضعیف پنڈلیاں رکھنے والااپنے سینے میں دمکتے ایمان اور دِل میں موجزن یقین کے باعث اللہ کے نزدیک عظیم مرتبت کا حامل ہے ۔
Quran
مفسر قرآن یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
عبداللہ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖنے فرمایا میرے سامنے قرآن ِ پاک کی تلاوت کرو۔ میں نے عرض کی کہ حضور قرآن آپ پر نازل ہوتا ہے میں آپ کے سامنے کیسے تلاوت کروں؟فرمایا میں چاہتا ہوں۔وہب اپنی حدیث میں بیان کرتے ہیں کہ حضورۖ نے فرمایامیں اپنے علاوہ کسی اور سے سننے کی خواہش رکھتا ہوں۔(عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ )میں نے حضو ر کی بارگاہ میں سورة مبارکہ نسا ء کی تلاوت کی یہاں تک کہ آیت ِمقدسہ ”پس کیا نوعیت ہو گی کہ جس وقت ہر امت میں سے ہم ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے۔ ”تو مجھے فرمایا کہ یہ آپ کے بارے میںہے ۔میں نے حضور کودیکھا کہ آپ کی آنکھیں نمناک تھیں اور فرما رہے تھے کہ جو قرآن کو نزول کے مطابق تلاوت کرنا چاہے تووہ ابن ِام عبدکی قرأت کے مطابق تلاوت کرے ۔پھر دست ِدعا بلند فرمائے اور مجھے کہا مانگو کہ عطا کیا جائے اور میرے حق میں دعا فرمائی۔اس دوران میںنے التجاکی کہ اے اللہ! میںتجھ سے غیر متزلزل ایمان ،لازوال نعمتیںاور خلد ِبریں کے بلند مدارج میں تیرے نبی محمد مصطفٰی کی رفاقت کا متمنی ہوں۔
سیدناعبداللہ بن مسعود قرآن ِمجید کی تدوین وتفسیر میں انہماک رکھتے فرماتے تھے ؛ مَنْ کَانَ یُحِبُّ أنْ یَّعْلَمُ أنَّہُ یُحِبُّ اللّٰہ فَلْیُعْرِضْ نَفْسَہُ عَلَی الْقُرْآنِ فَمَنْ أحَبَّ الْقُرْآنِ فَھُوَ یُحِبُّ اللّٰہ فَنَّمَا الْقُرآنُ کَلاَمُ اللّٰہ، جو یہ چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے اپنی قربت کااندازہ کرے تو اسے قرآن کی طرف رغبت کودیکھنا چاہئے پس جو قرآن سے محبت کرتا ہے وہ اللہ سے محبت کرتا ہے کیونکہ قرآن اللہ کا کلام ہے ۔حضور ۖنے فرمایا ؛ سْتَقْرِؤا الْقُرْآنَ مِنْ أرْبَعَةْ، بْنِ مَسْعُوْد وَسَالِمْ مَوْلیٰ أبِْ حُذَیْفَةْ وَأُبَْ بِنْ کَعَبْ وَمَعَاذْ بِنْ جَبَلْ ، فَتْحُ الْبَارِْ/کِتابْ فَضَائِلِ الْقُرْآنْ رَوَاہُ أحْمَدْ وَالْتِّرْمِذِ۔ آپ اس خوش الحانی سے کلام ِپاک کی تلاوت کرتے کہ سننے والے نمناک ہوجایاکرتے اور اُن کے قلب وروح پہ رقت طاری ہوجاتی۔قرآن ِمجیدسورة مبارکہ اَلأنْعَامْ کی آیت ِمبارکہ ٥٢ میں آپ کی تکریم کاحکم دیتے ” صبح و شام پروردگار کی رضامندی کاقصدکیے عبادت کرنے والوں” کے طور پہ کیا گیا ہے ، وَلاَ تَطْرُدِ اْلَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَوٰةِ وَالْعَشِِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہُصلے ٥٢:٦۔آپ کو سیدنا عمار بن یاسر کے ہمراہ کوفے کا گورنر مقرر کرتے سرکاری مراسلے میں کہا گیا ؛” نِّْ قَدْ بُعِثْتُ عَمّارِ بْنِ یاسِرْ أمِیْراً، وَعَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْد مُعَلِّماً وَ وَزِیْراً، وَھُمَا مِنْ الْنُّجَبَائِ مِنْ أصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ، مِنْ أھْلِ بَدَرٍ، فَاقْتدُوْا بِھِمَا، وَأطِیْعُوا وَاسْمَعُوْا قَوْلِھِمَا، وَقَدْآثَرْتُکُمْ بِعَبْدِاللّٰہ عَلیٰ نَفْسِْ۔ ” ٣٢ھ میںمدینہ منورہ میں وفات پائی اور بقیعِ غرقد میں مدفون ہیں ۔آپ کے وصال ِپرملا ل پہ اصحاب ِرسول کا کہنا تھا مَا تَرَکَ بَعْدَ مِثْلِہْ ۔
Jumlay Shah
تحریر: حضرت پیر سید محمد جملے شاہ، کندھانوالہ شریف