مادر ملت فاطمہ جناح وطن عزیز کی سیاسی تاریخ میں ایک بہادرنڈر خاتون کے طور پر جانی جاتی ہیں جنھوں نے اپنے بھائی قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ ملکر ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک الگ نظریاتی مملکت کے قیام میں اہم کردار ادا کیا، پاکستان کی تحریک کے دوران اور قیام پاکستان کے بعد آپ نے جس سیاسی بصیرت وقیادت کا مظاہرہ کیا وہ ہماری تاریخ کا روشن باب ہے،انیس سوپینسٹھ سے پہلے آپ کو قائداعظم محمد علی جناح کے گھر کی دیکھ بھال اور اُن کے ساتھ سیاسی اجلاس میں شریک ہوتے ہی دیکھا جاتا تھا قائد اعظم محمد علی جناح خود بھی اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ اہم سیاسی امور پر گفتگو کرتے تھے یہ ہی وجہ تھی کہ انیس سوپینسٹھ کے صدارتی انتخاب کے موقع پر ایوب خاںکے بارے محترمہ فاطمہ جناح نے کہا تھا کہ ایوب فوجی معاملات کا ماہر تو ہو سکتا ہے لیکن سیاسی فہم و فراست میں نے قائد اعظم سے براہ راست حاصل کی ہے اور یہ ایسا شعبہ ہے جس میں آمر مطلق نا بلد ہے۔
یہ ہی وجہ تھی کہ مادر ملت کو صدارتی انتخابات میں شکست دینے کے لیئے وہ تمام تر اقدامات ایوب خان نے کیے جو وہ اور اُسکے حواری کر سکتے تھے مختصر آپ کو صدارتی انتخابات میں تو شکست ہوئی لیکن آپ کی ہار نے عوام کے دلوں میں آپکی قدرو منزلت میں مزید اضافہ کیا محترمہ فاطمہ جناح کے بعد ہماری سیاسی تاریخ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک الگ مقام حاصل ہے بے نظیر بھٹو (اپنے والد کی پنکی)21جون 1953کو کراچی میں سابقہ وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور بیگم نصرت بھٹوکے گھر پیدا ہوئیں بے نظیر بھٹو تمام بہن بھائیوں مرتضی بھٹو،شاہنواز بھٹو اور صنم بھٹو سے بڑی اور بے حد لاڈلی تھیں بچپن سے ہی اپنے والد کے ساتھ رہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے لگیں سیاست ،ہمدردی،بھائی چارہ اور عوام کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنا انہوں نے اپنے والد سے سیکھا ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی چہیتی بیٹی کو انگریزی زبان سیکھنے کے ساتھ ساتھ اردو زبان بولنے کو ترجیح دی بے نظیر بھٹو نے ابتدائی تعلیم لیڈی جیننگز نرسری سکول اور کونونٹ آف جیسزاینڈ میری سکول اس کے بعد دو سال راولپنڈی پریز نٹیشن کونونٹ میں بھی تعلیم حاصل کی جبکہ بعد میں انہیں مری کے جیس اینڈ میری میں داخل کروا دیا گیا۔
انہوں نے 15سال کی عمر میں اولیول کا امتحان پاس کیا1969میں ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور1973میں پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن مکمل کیا تعلیم کا سفر جاری رکھتے ہوئے انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں سے انہوں نے فلسفہ،معاشیات اور سیاسیاست میں ماسٹر کیابے نظیر بھٹو اپنی تعلیم مکمل کر کے 1977میں اس ارادے کے ساتھ وطن واپس لوٹیں کے خارجہ امور نبھائیں گی لیکن ان کی آمد کے دو ہفتے بعد ہی حالات کی خرابی کابہانہ بنا کر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اس وقت کے جنرل ضیاء الحق نے الٹ دیا اور ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیاذوالفقار علی بھٹو کو جیل جبکہ بے نظیر بھٹو کو گھر میں نظر بند کر دیا 1979میں ذوالفقار علی بھٹو کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک متنازع کیس میں پھانسی کی سزا سنا دی 1984میں بے نظیر بھٹو کو جیل سے رہائی ملی تو انہوں نے دوسال تک برطانیہ میں جلا وطنی گزاری اسی دوران پارٹی رہنماؤں اور نمائندگان نے انہیں پارٹی سربراہ بنانے کافیصلہ کیا 1986میں مارشل لاء اٹھائے جانے کے بعد بے نظیر بھٹو لاہور ایئر پورٹ پہنچیں جہاں ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔
اگست 1987میں نواب شاہ کی اہم شخصیت حاکم علی زرداری کے صاحبزادے آصف علی زرداری کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں لیکن اپنے سیاسی مشن کو جاری رکھا 17اگست1988کو جنرل ضیاء الحق طیارہ حادثے کے بعد ملک میں نئے سیاسی دروازے کھلنے لگے16نومبر1988میں ملک عام انتخابات منعقد ہوئے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں یوں بے نظیر بھٹو نے 2دسمبر1988 کومسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم کاحلف اٹھایا لیکن اس وقت کے صدر مملکت غلام اسحاق خان نے پیپلز پارٹی کی حکومت پر بے پناہ کرپشن اور بدعنوانی کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی حکومت کواگست 1990میں برطرف کر دیا اور 2اکتوبر 1990میں ایک بار پھر عام انتخابات ہوئے جس میں مسلم لیگ نواز اور بے نظیر کی مخالف جماعتوں نے الائنس بنایا جس کا نام اسلامی جمہوری اتحاد رکھا اور انتخابات میں اکثریت بھی حاصل کی۔
یوں میاں محمد نواز شریف ملک کے وزیر اعظم اور بے نظیر قائد حزب اختلاف منتخب ہوئے لیکن غلام اسحاق خان نے ایک بار پھر نواز شریف پر بد عنوانی اور کرپشن کو الزام لگایا اور پھر اسمبلیاں توڑ دیں جس کے بعد اکتوبر 1993میں ملک میں ایک بار پھرعام انتخابات ہوئے جس میں پیپلز پارٹی معمولی اکثریت حاصل کر کے کامیاب ہوئی اور بے نظیر بھٹو ایک بار پھر ملک کی وزیر اعظم اور فاروق احمد لغاری صدر مملکت منتخب ہوئے لیکن پیپلز پارٹی کے اپنے ہی صدر نے 1996میں بدامنی، بدعنوانی ،کرپشن اور ماروائے عدالت قتل کے اقدامات کے باعث بے نظیر حکومت کا تختہ ایک بارپھر الٹ دیا بے نظیر نے اپنے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل اور حکومت کے خاتمے کے کچھ عرصہ بعد خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات میں دبئی میں قیام کیا اسی عرصہ کے دوران بے نظیر بھٹو نے کئی سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں 14مئی 2006میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جسے میثاق جمہوریت کا نام دیا اور اس عزم کا ارادہ کیا کہ جمہوریت کو بحال کرنے اور کسی کو اپنے لیے استعما ل نہیں ہونے دیں گے۔
دوسری پیش رفت تب ہوئی جب 28جولائی 2007کو جنرل پرویز مشرف نے ابو ظبہی میں بے نظیر سے ملاقات کی جس کے بعد بے نظیر بھٹو تقریباً ساڑھے آٹھ سالہ جلاوطنی گزارنے کے بعد وطن واپسی کا ارادہ کیا 18اکتوبر کو کراچی ائیر پورٹ پہنچنے پر تاریخی استقبال کیا گیا بے نظیر بھٹو کا قافلہ مزار قائد کی جانب گامزن تھا جس میں زور دار دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں 100سے زائدافراد شہید جبکہ سینکڑوں افراد زخمی ہوئے قیامت صغریٰ کے اس منظر کے دوران بے نظیر بھٹو کو بحفاظت بلاول ہاؤس منتقل کیا گیا بے نظیر بھٹو اپنے بچوں سے ملاقات کرنے دبئی گئیں لیکن 3نومبر کو ایمرجنسی کے نفاذ کا سنتے ہی وطن وپسی لوٹیں اور ٹی وی چینلز ،ریڈیو اسٹیشن اور ہر فورم پر سپریم کورٹ کے ججز کی بحالی کا مطالبہ کیا اور فوجی حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کیا اسی عرصے کے دوران نگران حکومت بن چکی تھی جس کے نتیجے میں مختلف پارٹی اپنے اپنے امیدوار لا رہی تھی۔
اس صورت حال میں پیپلز پارٹی نے میدان میں اپنے امیدوار بھی ہر حلقے سے کھڑے کر دیے 27دسمبر 2007کو بے نظیر بھٹو انتخابی عمل کے دوران لیاقت باغ میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کر کے اپنی اگلی منزل کی جانب رواں دواں ہوئیں تو کارکنان بے نظیر سے اپنی محبت کا اظہار نعرے لگا کر کر رہے تھے جس کو سنتے ہی بے نظیر نے اپنے کارکنان کو داد دینے کا ارادہ کیا اور گاڑی کی چھت سے ہاتھ ہلا کر جواب دینا شروع کیا لیکن ابھی زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ ایک نامعلوم شخص نے بے نظیر پر فائرنگ کر دی اور کچھ ہی فاصلہ پر موجود خودکش بمبار نے اپنے آپ کو اْڑا لیا گاڑی کے ڈرائیور نے کسی اور خطرے کو دیکھے بغیر گاڑی کو راولپنڈی جنرل ہسپتال کی جانب بھگا دیا لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم اور دختر پاکستان کا لقب پانے والی بے نظیر بھٹو زخموں کے تاب نہ لاتی ہوئی دنیا فانی سے کوچ کر گئیں ان کی وصیت کے مطابق پیپلز پارٹی کا سربراہ ان کے صاحبزادے بلاول زرداری کو بنا دیا گیا۔
پیپلز پارٹی نے حکومت بننے کے بعد بے نظیر قتل کیس کی تحقیقات اپنے پرانے مطالبے کے مطابق اقوام متحدہ سے کروانے کا مطالبہ کیا جس کو قبول بھی کر لیا گیا آصف علی زرداری نے اپنے ایک بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ “ہم جانتے ہیں کہ بی بی شہید کا قاتل کون ہے”لیکن دوسری برسی کے موقع پر ایسا بیان پھر نہیں آیا مرزا اسلم بیگ کے مطابق بے نظیر کو بلیک واٹر نامی تنظیم نے قتل کروایا کچھ مبصرین اور حلقوں میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ بے نظیر کو ڈاک چینی( سابق نائب صدر امریکہ )نے قتل کروایا لیکن کچھ کا خیال ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کیونکہ بے نظیر کے قتل سے امریکہ کو شدید نقصان پہنچا ہے تاہم جو کچھ بھی تھا یہ تو اللہ تعالی کی ذات بہتر جانتی ہے کہ اس قتل میں کون ملوث تھا ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ وطن عزیز ہی نہیں اسلامی دنیا کی ایک اہم خاتون رہنما ہم سے جدا ہو گئی اللہ تعالی انکے درجات کو بلند کرے آمین۔