آخر میرا قصور کیا

Imran Khan

Imran Khan

ہم نے تو پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ کپتان صاحب اور مولانا قادری کی ”اندر کھاتے” دوملاقاتیں ہو چکی ہیں اور 14 اگست کو سونامی مارچ اور انقلابی مارچ اکٹھے ہو جائیں گے۔دونوں اکٹھے تو ہو گئے لیکن یہ ابھی تک طے نہیں ہو سکا کہ ”قیادت” کِس کے پاس ہو گی۔اصولاَ تو قیادت کے حقدار شیخ الاسلام ہی ٹھہرتے ہیں کیونکہ ایک تو انہوں نے نہ صرف اپنے عقیدت مندوں سے”مارو یا مرجاؤ” کا بار بار حلف لیا بلکہ انقلابی مارچ سے بھاگنے والوں کو شہید کرنے کا بھی حکم دیا۔ دوسرے خاں صاحب کے پاس صرف 10 لاکھ لوگ ہیں جبکہ علامہ صاحب کے پاس ایک کروڑ جاں نثار۔

ہمیں خطرہ ہے تو صرف ایک کہ کہیں ”دوملاؤںمیںمرغی حرام” نہ ہوجائے کیونکہ خاںصاحب کہہ سکتے ہیں”مولانا! ہمارے پاس تو خیبر پختونخوا کی حکومت بھی ہے اور پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف بھی جبکہ آپ کے پاس تو”کَکھ” بھی نہیں سوائے منہاج القرآن کے”۔ خاںصاحب شیخ الاسلام کویہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب پرویز مشرف دونوں کوالگ الگ وزارت ِعظمیٰ کا لالچ دے کر مکر گیا، تب مولانا صاحب تو کینیڈا کھسک گئے لیکن انہوں نے تو پاکستان میںرہ کر جدوجہد کی اِس لیے”کرسی” پر ان کاحق ہے۔ ادھرعلامہ صاحب بھی خاںصاحب کویہ کہہ سکتے ہیںکہ اُنہیں تو متعدد بار”بشارت” ہو چکی ہے اوران کے پاس”بشارتوں” کامکمل ریکارڈبھی موجود ہے اسلیے ”کرسی” پرآئینی، قانونی، سیاسی، سماجی،معاشی، معاشرتی اور مذہبی حق اُنہی کا ہے۔

میاںنوازشریف صاحب نے وژن 2025ء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ وہ لانگ مارچ کرنے اوردھرنے دینے والوںسے پوچھتے ہیںکہ آخرحکومت کاقصورکیاہے؟۔جانتے میاںنوازشریف صاحب بھی ہیںلیکن اگروہ اپنی زبان سے نہیںکہناچاہتے توچلیںہم کہے دیتے ہیںکہ اُنہوںنے حضرت علی کایہ قول یاد نہیںرکھاکہ”جِس پراحسان کرو،اُس کے شَرسے ڈرو”۔جس جگہ علامہ کارکنوںکویہ حکم دے رہے تھے کہ اگروہ قتل کردیئے جائیںتوعدالتوںپہ انحصارنہیںکرنابلکہ میاںنوازشریف،اُنکے خاندان کے تمام مردوںاور”کچن کابینہ”کوقتل کردینا،یہ وہی جگہ ہے جو میاںصاحب نے بطورچیف منسٹرپنجاب ایک حکم کے ذریعے مولانا طاہر القادری کے سپردکی تھی۔اُن کا دوسراقصوریہ ہے کہ اُن کے میڈیاسیل کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے جس کی بنا پر تقریباََ تمام معروف نیوزچینلز ہروقت اُن کی حکومت میںکیڑے نکالتے رہتے ہیںجبکہ مولاناطاہرالقادری کواگرچھینک بھی آئے تونیوزچینلزاُن کی”متبرک چھینک”کے مختلف پہلوؤںکاجائزہ لیتے ہوئے سارادِن گزاردیتے ہیں۔مولانانے فرمایاکہ 8اگست کواُن کے 7 کارکن قتل کردیئے گئے۔

Tahir-ul-Qadri

Tahir-ul-Qadri

حکومتی حلقوں کی جانب سے اِس کی تردیدآئی نہ بال کی کھال اتارنے اور”اندرکی خبریں”لانے والے الیکٹرانک میڈیا کوسچ بولنے کی توفیق ہوئی۔اسی الیکٹرانک میڈیا پرایک کارکن کی موت کی خبرنشرہوئی لیکن جونہی مولاناصاحب نے 7کارکنوںکی موت کاذکرکیا،سارے میڈیاکوسانپ سونگھ گیا۔مولانانے فرمایاکہ حکومت جھوٹ بولتی ہے کہ تصادم میںپولیس کے 3جوان شہیدہوئے۔الیکٹرانک میڈیاتصادم میںشہیدہونے والے پولیس کے جوانوںکی باربارنمازِجنازہ دکھاتارہالیکن مولانا کے اعلان کے بعدیہ خبربھی ”ہواہوگئی”۔نیوزچینلزکی”طنابیں”کھینچنے والاپیمراعالمِ مستی میںخراٹے لے رہاہے اورالیکٹرانک میڈیااعلانِ بغاوت کرنے والوںکی گھنٹوںبلکہ پہروں”لائیوکوریج”۔ اِس شتربے مہارمیڈیاکو حب الوطنی کے تقاضے کون سمجھائے؟۔لاہورہائی کورٹ کے جسٹس خالدمحمودنے بھی مولاناقادری کی اشتعال انگیزتقریرکی میڈیاپر”لائیوکوریج”پردُکھ اورحیرت کااظہارکردیالیکن پیمراخراٹے ہی لیتارہا۔

میاںصاحب کاسب سے بڑاقصوریہ ہے کہ اُنہیںجب بھی اقتدارملتاہے وہ ملک کی تقدیربدلنے کے لیے نئے نئے منصوبے شروع کردیتے ہیںاوراب کی بارتواُنہوںنے حدہی کردی کہ بیرونی ممالک کی مددسے پورے ملک میںاربوںڈالرکے منصوبوںکابیک وقت آغازکردیاجوخاںصاحب کوہضم ہورہاہے نہ علامہ کو،کیونکہ اگراُن کے دَورِحکومت میںایک تہائی منصوبے بھی مکمل ہوگئے توپھرنوازلیگ کی اگلی تین چار”باریاں”توپکی۔میاںصاحب کوخودہی سوچناچاہیے کہ کپتان صاحب یامولاناقادری کواگراسّی،پچاسی سال کی عمرمیںوزارتِ عظمیٰ ملے تواُنہیںکیاخاک مزہ آئے گا۔

Election Commission

Election Commission

محترم عمران خاں نے قوم سے وعدہ کیاتھاکہ وہ 11اگست کو پریس کانفرنس میں پورے ثبوتوں کے ساتھ 2013ء کے انتخابات میںہونے والی دھاندلی کے بارے میںبتلائیںگے۔لیکن بتلایا”کَکھ”بھی نہیںسوائے بغیرثبوت دھاندلی میںتین چارنئے نام شامل کرنے کے۔اُنہوںنے ایک دفعہ پھر35پنکچروںکاذکرکیااورچارحلقوںکابھی۔اُنہیںیہ بھی گلہ ہے کہ اِس دفعہ سب سے زیادہ 15لاکھ ووٹ مسترد ہوئے۔ نواز لیگ کہتی ہے کہ فافن(فری اینڈ فیئرالیکشن نیٹ ورک)جِس کاخاںصاحب اپنی تقریروںمیںباربارذکرکرتے ہیں،اُسی کے مطابق الیکشن2013ء میںہزارمیںسے 32ووٹ مستردہوئے جبکہ 2008ء میںہزارمیںسے 28اور2002ء میں25ووٹ مستردہوئے اوریہ مارجن اتنانہیںکہ اسے دھاندلی کہاجاسکے۔ 35 پنکچروںکے بارے میںخاں صاحب کا مؤقف یہ ہے کہ اِن میں فتح کامارجَن مستردشُدہ ووٹوںسے کم تھااوراگرمستردشُدہ ووٹ”رَنراَپ”کودے دیئے جائیںتووہ جیت جاتاہے۔

خاںصاحب کافرمان بجالیکن اِن35حلقوںمیںسے صرف6حلقوںمیںتحریکِ انصاف کے امیدواررَنراپ تھے باقی تمام حلقوں میں تیسرے اور چوتھے نمبر پر۔ دوسری بات یہ کہ اِن 35 حلقوںمیںنوازلیگ کے12اُمیدوارکامیاب ہوئے،باقی سیٹوںمیںسے4پیپلزپارٹی،6آزاداور13قاف لیگ،اے این پی،جماعتِ اسلامی، جے یوپی اوراین پی پی کے حصّے میں آئیں۔اِس لیے خاں صاحب کو تمام سیاسی جماعتوںکوموردِالزام ٹھہراناچاہیے صرف نوازلیگ کونہیںاورسب سے پہلے تواپنی اتحادی جماعتِ اسلامی سے پوچھناچاہیے کہ اُس نے پنکچرکیسے لگائے؟۔4حلقوںکی صورتِ حال یہ ہے کہ فافن ہی کی رپورٹ کے مطابق حلقہ110میںکوئی دھاندلی نہیں ہوئی جبکہ خودخاںصاحب کے حلقہNA 1میںدھاندلی کے58کیسزریکارڈہوئے۔حلقہ 110 میںخواجہ آصف کے خلاف تحریکِ انصاف کے عثمان ڈارنے پٹیشن دائرکی لیکن ٹریبونل میں پیش ہونے کی بجائے بیرونِ ملک کاروباری دوروںپررہے جِس پراُنہیں30ہزارروپے جرمانہ بھی ہوااورپٹیشن خارج کردی گئی۔4حلقوںمیںجہانگیرترین کاحلقہ بھی شامل ہے جہاںجہانگیرترین کوآزاداُمیدوارنے شکست دی اورنوازلیگ تیسرے نمبرپررہی۔سپیکرقومی اسمبلی ایازصادق کبھی تحریکِ انصاف کے صفِ اوّل کے لیڈرہواکرتے تھے۔وہ خاںصاحب کوبہت قریب سے جانتے ہیں۔اسی لیے اُنہوںنے کہاکہ وہ خاںصاحب کوہرسہولت دینے کوتیارہیںلیکن شرط یہ ہے کہ اگردھاندلی ثابت نہ ہوئی توعمران خاںقومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوجائیںگے۔

الیکشن ٹریبونلز نے نواز لیگ کے سب سے زیادہ (10) اراکین کو ناکام قرار دیااور تحریکِ انصاف کے صرف 2 کو۔ اِن پٹیشنز میں پیپلز پارٹی کے 6 اور 8 آزاد درخواست گزاروں کو فائدہ ہوا۔ تحریکِ انصاف کے ہارنے والے امیدواروں میں سے صرف 58 نے الیکشن ٹریبونلز میںدرخواستیں دیں، 42 کا فیصلہ ہو چکااور کسی ایک پر بھی دھاندلی ثابت نہیں ہوئی۔ خاں صاحب کاالزام ہے کہ 2008ء میں نواز لیگ نے 68 لاکھ ووٹ لیے، یہ 2013ء میں ڈیڑھ کروڑ کیسے بن گئے؟۔ یہی سوال خاں صاحب سے بھی کہ تحریکِ انصاف نے 2002ء میں پورے ملک میں صرف ایک لاکھ پچاس ہزارووٹ لیے، یہ 2013ء میں 78 لاکھ کیسے بن گئے؟۔ کیا تحریکِ انصاف نے بھی دھاندلی کی ہے؟۔

Professor Riffat Mazhar

Professor Riffat Mazhar


تحریر: پروفیسر رفعت مظہر