رواں حکومت کے چودہ ماہ میں پاکستانی قوم جتنی مایوس اور نااُمید ہوئی ہے۔ اِس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ٹھیک ہے پارسا تو آف شورکمپنیوں ، اقامے اور جعلی بینک کھاتوں سے قومی خزانہ لوٹ کھانے والے حکمران نواز اور زرداری بھی نہیں تھے ۔سب اُن ہی کا کیا دھراہے۔آج جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑرہاہے۔ مگر اِس حکومت نے بھی تبدیلی اور نئے پاکستان کے نام پر مُلک کے غریب عوام پر بیجا ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ لاد کرزندہ درگور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔اقتدار میں آنے کے چندہ ہی ماہ میں قدم قدم پر یوٹرن لینے والی رواں حکومت کی بوکھلاہٹ بڑھتی ہی جارہی ہے۔کوئی ایک بھی حکومتی اقدام ایسا نہیں ہے۔ جس پر حکومت قائم رہی ہواور اِسے پایہ تکمیل تک پہنچاپائی ہو۔جس سے عوام کا حکومت پر اعتمادبحال ہورہاہو۔ بلکہ یوٹرن پہ یوٹرن لینے کی عادت کے باعث عوام کا حکومت پر سے اعتماد ختم ہوتاجارہاہے۔ اگر ایسا ہی ہوتا رہاتو پھر حکومت کمزور سے کمزورتر ہوتی جائے گی۔ اور پھر اگلے الیکشن کے بعد اپوزیشن بن کر اُبھرے گی۔
قبل اِس کے کہ ایسا ہونے میں اَب دیر لگے۔ عوام کی خواہش زور پکڑتی جارہی ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ کامیابی سے ہمکنار ہواور حکومت کا بستہ لپیٹ کر اِس کی کمر پر رکھ کر جلد ازجلد اِسے چلتاکیا جائے۔ آج عوام میں حکومتی گراف گرنے کی ایک بڑی وجہ حکومتی وزراءبھی ہیں۔
وفاقی وزیرسائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری جو وقت بے وقت بولنے کے عادی ہیں۔اِن کی یہی عادت اِن کے لئے نقصان کا باعث بنی ہوئی ہے۔ مگر ہر بار اپنی عادت کے ہاتھوں سُبکی سے دوچار ہوتے فواد چوہدری کچھ سیکھنے کو تیارہی نہیں ہیں ۔جیسا کہ پچھلے دِنوں ایک بار پھر فواد چوہدری نے اپنے خود ساختہ سیاسی مدبرانہ انداز سے کہہ دیا کہ” عوام حکومت سے نوکریاں نہ مانگے ، روزگاردینا حکومت کا نہیں نجی شعبے کا کام ہے ۔حکومت نوکریاں نہیں دے سکتی ،حکومت 400محکموں کو بند کرنے پر غور کررہی ہے۔اَب ہم روزگار ہی لانے لگ جائیں۔ تو معیشت تباہ ہوجائے گی۔“(کیا آپ کی حکومت کے چودہ ماہ میں معیشت پوری طرح مستحکم ہے؟)ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے سرکاری اداروں کونوکریوں کی بندربانٹ سے تباہ کیا“ تو کیا تم نے اور تمہاری حکومت نے 14ماہ میں اداروں کو سنبھالا ہے؟ مسٹر! تمہاری حکومت میں بھی سرکاری ادارے بغیر کسی سرکاری نوکری کی بند بانٹ سے پہلے ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔
تم نے یا تمہاری چودہ ماہ کی حکومت نے کس ادارے کے استحکام کے لئے کونسا کوئی قابل تعریف اقدام کیا ہے؟ اگر کسی ادارے کے لئے کوئی ایک بھی رتی برابر اقدام کیا ہے۔ تو بتادیںمسٹر؟یقین جانیں کہ وفاقی وزیرسائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے ” عوام حکومت سے نوکریاں نہ مانگے“ والے بیان کے بعد عوام مگر بالخصوص پی ٹی آئی کے اُن 18سال یا اِس سے کچھ زیادہ عمرکے نوجوان ووٹروں جن کی وجہ سے پی ٹی آئی کو روتے پیٹتے اقتدار ملا ہے۔ اِن بے روگار نوجوان ووٹرز میں شدیدمایوسی پیدا ہوگئی ہے۔ آج جن کے پی ٹی آئی اور عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے لئے دستِ دُعا بلند ہورہے ہیں ۔
سوچیں کہ اِن مایوس ،بے روزگار اورپریشان حال نوجوان پی ٹی آئی کے ووٹرز میں کوئی تو ایسا اللہ کا ولی ہوگا ۔جس کی دُعا رب کائنات قبول کرلے گا ۔اور 27اکتوبرکو مولانا فضل الرحمان کے حکومت مخالف آزادی مارچ سے پہلے ہی حکومت چلی جائے۔ تو پھر سوچیں ، جیت مولانا کی ہوگی یا اُن بے روزگار نوجوانوں کی جو فواد چوہدری کے نوکری نہ دینے کے بیان کے بعد دن رات حکومت کے جانے اور حکومت سے آزادی کے لئے دعائیں کررہے ہیں۔اگر ایسا ہوگیا پھر مولانا فضل الرحمان اور حکومت کہاں کھڑی ہوگی؟
خیر جانے دیجئے ، مگر اتنا ضرور سمجھیں کہ ہر مذہب و ملت کے ہرزمانے کی ہر تہذیب کے ہر معاشرے اور قانون میں اخلاقی اور سیاسی طور پر کسی کو سبزباغ دِکھا نا اور پھر کسی کے معیار پر پورانہ اترنا بھی تودھوکہ ہوتاہے۔ جِسے دنیا کے اعلی ظرف ، باشعوراور دانشورلوگ سخت ناپسند کرتے ہیں ۔مگر افسوس ہے کہ ہمارے یہاں توسبزباغ دکھانا اور جھوٹے وعدوں اور دعوو ¿ں کو کوئی غلط کیا بُرابھی نہیں سمجھتا ہے۔ بلکہ ہمارے یہاں جتنا زیادہ جھوٹ بولتا ہے۔ اور جھوٹے سچے وعدے او ر دعوے کرتا ہے۔ وہ اُتنا ہی زیادہ عزت و عظمت والا معزز اور قابلِ احترام گردانا جاتا ہے۔ بلکہ میرے مُلک میں توپچھلے کئی سالوں سے پاکستانی قوم کے ساتھ سیاسی جماعتیں ہر الیکشن سے پہلے وعدوں اور دعووں کے ساتھ سبزباغ دکھانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جواپنے اِن ہی جھوٹے وعدوں اور دعوو ¿ں کی بنیاد پر اقتدار میں بھی آجاتی ہیں۔ مگر اپنے اقتدارکے آخری دن تک بھی عوام سے کئے ہوئے وعدوں اور دعوو ¿ں سے دیدہ و دانستہ منہ چُرا کرعملی جامہ نہیں پہناپاتی ہیں۔
اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج سینہ پھولا کر گردن تان کر پی ٹی آئی کی حکومت نے بھی حسبِ روایات ویسا ہی کیا ہے۔ آپ رواں حکومت کی اَب تک کی صفر کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ۔یوں کہہ لیں۔ تو زیادہ بہتر ہوگا کہ اِس حکومت نے تو ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں عوام سے کئے گئے وعدوں اوردعووں سے منحرف ہوکر عوامی اُمنگوں اور خواہشات کوچکناچور کرنے میں کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑی ہے۔
آج تب ہی کہنے والے تو یہ تک کہتے نہیں تھک رہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان جو تبدیلی اور نئے پاکستان کے علمبردار بنا کرتے تھے اور مُلک سے کرپشن اور کرپٹ عناصر کے کڑے احتساب سے متعلق بہت زیادہ باتیں کیا کرتے تھے۔ آج اِ ن کی حکومت بھی تو71سال کے دوران آنے والے سِول اور آمر حکمرانوں سے دوچار ہاتھ آگے بڑھ کراتنا کچھ غلط کررہی ہے کہ گزشتہ حکومتوں کے سارے ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔ یا ٹوٹنے جارہے ہیں۔بہر کیف ،اگر اتنے غیر تسلی بخش اور عوام کی مہنگائی کے ہاتھوں کمر دُہری کردینے والے حکومتی لچھن کا عوام کوپہلے سے ذرا بھی اندازہ ہوگیاہوتا۔تو دیکھتے کہ کون کم بخت اِسے ووٹ دیتااور پی ٹی آئی کواقتدار کی مسند پر بیٹھاتااور حکمرانی کا تاج اِس کل منہی کے سرپر سجاتا ؟وہ تو عوام کی ہی آنکھوں پر سیراب نما تبدیلی کی پٹی اور طلسماتی مہنگائی اور پریشانیوں سے لبریز کرنے دینے والے نئے پاکستان کو بھوت سوار تھا ۔جس کی وجہ سے یوں پی ٹی آئی کی حکومت کو اقتدار نصیب ہوا…!! ورنہ، تو مزید 21سال تک اِس کے سربراہ عمران خان اور مُلک کے موجودہ وزیراعظم حکمرانی کے لئے ایڑیاں رگڑتے تو بھی اِنہیں کبھی اقتدار نہیں ملتا۔
اِس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ آج پی ٹی آئی کو صرف اور صرف تبدیلی اور نئے پاکستان کے سیراب نما خواب اور کڑے احتساب کے کھوکھلے نعروں کی وجہ سے ہی اقتدار ملا ہے ۔مگراَب جب جائز و ناجائز دھرنے اور پی پی پی اور ن لیگ کے سیاہ کرتوتوں پر کھلی تنقیدوں کی وجہ سے اللہ اللہ کرکے اقتدار کی کنجی پی ٹی آئی والوں کے ہاتھ کیا آگئی ہے؟آج اِنہوں نے تو چار دانگ عالم میں اندھیر نگری مچارکھی ہے یہ اقتدار کی نشے میں ایسے مست ہوگئے ہیں کہ اِنہیں کچھ سجھائی نہیں دے رہاہے کہ یہ کیا ٹھیک اور کیا غلط کررہے ہیں ؟ اِس طرح مُلک و قوم کا بیڑاغرق کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔
ماضی میں اسلام آباد کوکئی ماہ تک لاگ ڈاون کرنے والے بانی دھرنا العروف مسٹر سونامی مُلکِ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان اور اِن کی پارٹی کے رہنماو ¿ں نے اپنی انتخابی مہم اور جلسے، جلوسوں اور ریلیوں میں اپنے گلے پھاڑ پھاڑ کر مُلکی معیشت کو آسمان کی بلندیوں پر لے جانے اور مُلک سے بے روزگاری کے خاتمے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر ایک کروڑ نوکریوں کا بے روزگار نوجوانوں کو سبزباغ دِکھا کر توجیسے تیسے ووٹ لئے اور اقتدار کی کنجی پر قابض ہوئے۔ مگر اَب جب پی ٹی آئی کی حکومت کو اقتدار ملے چودہ ماہ کے قریب ہوگئے ہیں ۔تو اِس کے لچھن ہی کچھ عیب و غریب نظر آنے لگے ہیں۔سوفیصدیقین سے کہا جاسکتاہے کہ ابھی تک تو کچھ بھی ایسا اچھا ہوتا ہوانظر نہیں آرہاہے کہ جس سے اندازہ ہوکہ حکومتی اقدامات سے آنے والے ماہ و سال میں مُلک اور قوم کی بہتری کے لئے نئے دریچے کھولیں گے۔ اور عوام میں کچھ اچھائی کی اُمید پیدا ہوگی، ابھی جدھر نظراُٹھاو ¿ ہر طرف مایوسیوں کے سمندر میں مہنگائی اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے عوام ہی غوطہ زن نظر آرہے ہیں۔