فیاض الحسن چوہان سے اطلاعات کی وزارت تو واپس لے لی گئی مگر چوہان صاحب وزارت چھوڑتے ہوئے بہت سی یادیں ہمیں دے گئے ہیں ۔ سابق صوبائی وزیر اطلاعات نے منسٹر بلاک کے آفس سے الحمرامیں ڈیرے لگائے تو یہاں کی گہما گہمی دیدنی تھی۔الحمرا آرٹ کونسل میں واقع دفترمیں ہفتے کے سات دن چہل پہل اور بھرپور رونق رہتی تھی۔فیاض الحسن چوہان ٹی ٹوئنٹی میچ پسند کرتے تھے انہیں ٹیسٹ میچ سے’’بوریت‘‘ ہوتی تھی۔ وہ اپنی اننگز شاہد آفریدی کی طرح کھیلنا چاہتے تھے جس اننگز میں ہر بال پہ چھکا لگایا جاتا ہے مگر سیاست ٹیسٹ میچ ہے یہاں آپ کو مستقل طور پر اچھا پرفارم کر کے دکھانا پڑتا ہے۔ وہ بہت جلدی میں سب کچھ کرنے کے خواہشمند تھے ایسا محسوس ہوتا تھا وہ کم وقت میں بہت زیادہ کام کرنے کی آرزو دل میں رکھتے تھے۔
فیاض الحسن چوہان باقی وزیروں سے مختلف تھے انہوں نے صحافیوں سے پہلی میٹنگ میں ہی وٹس ایپ گروپ بنایا جس میں وہ خود بھی موجود تھے۔ رپورٹر چاہے اس کا تعلق کسی بھی ادارے سے ہو اس کا وزیر اطلاعات تک پہنچنا قدرے آسان تھا ۔میڈیا پر جارحانہ رویہ اپنانے والے فیاض چوہان حقیقیت میں ایک مختلف انسان ہیں۔
اپنے سٹاف کو شام کی چائے خود اپنے ہاتھ سے بنا کر پلانا ان کی روٹین تھی۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے سٹاف کا کہنا تھا انہوں نے اس سے پہلے کبھی ایسا وزیر نہیں دیکھا۔مگر چوہان صاحب نے وزارت سنبھالنے کے کچھ ہفتوں بعد ہی کئی محاذ کھول لیے تھے وہ اپنی وزارت کے تحت آنے والے تمام شعبوں کے مکمل معاملات سے آگاہ تھے۔یہی وجہ ہے انھوں نے کئی ڈیپارٹمنٹس میں کرپٹ عناصر کو نشانے پر رکھا وہی عناصر دن رات ان کے خلاف سازشیں کرتے رہے،افواہوں کا بازار گرم کرتے رہے۔
چند صحافیوں نے ان سے ملاقات میں کہا کہ آپ احتیاط کیا کریں آپ وزیر اطلاعات ہیں آپ کی زبان سے نکلے ہوئے لفظ حکومت کا موقف ہیں اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ وہ28 سال سے سیاست کر رہے ہیں وہ گراؤنڈ لیول پہ سیاست کر کے وزیر بنے ہیں اس لیے آپ ’’بے غم ‘‘ ہوجائیں ۔ ’’بے غم ہو جا‘‘ شاید ان کا تکیہ کلام تھا جب بھی کوئی اپنا کام لے کر ان کے پاس آیا یا کسی نے انھیں آنے والے خطرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تو چوہان صاحب نے مسکرا کر کہا ’’بے غم‘‘ ہوجا۔ سٹیج کی آرٹسٹ میگھا اور نرگس کے متعلق ان کے بیان کو سوشل میڈیا میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس میں انہوں نے نرگس کو ’’حاجن نرگس‘‘ بنانے کا دعوی کیا تھا۔
اسی طرح جماعت اسلامی کے پروگرام میں ایک سوال پر وہ تلملا اٹھے اور صحافی کو کہہ دیا آپ کو شرم آنی چاہیے،بعد ازاں اس پر پنجاب اسمبلی میں احتجاج بھی ہوئے ۔سوال کرنے والے صحافی نے کہا وہ چوہان صاحب کو معاف کرچکے ہیں لیکن احتجاج جاری رہے۔ میری اطلاعات کے مطابق اس احتجاج کے پیچھے پنجاب کی ایک بااثر شخصیت اور تگڑا وزیر تھا جو فیاض الحسن چوہان کو وزارت اطلاعات کی کرسی پر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔
ایک دن صحافیوں کے محفل میں چوہان صاحب نے بتایاکہ انہیں فیصل آباد سے فون آیا اور فون کرنے والے نے اپنا تعارف ’’حاجی صاحب‘‘ کے نام سے کروایااور بتایا کہ وہ سوترمنڈی میں کاروبار کرتاہے اور شاید ہی کوئی ایسا دن ہو جب وہ ٹی وی پر چوہان صاحب کی گفتگو نہ سنتا ہو۔چوہان صاحب نے بتایا کہ پھر سوتر منڈی کے حاجی صاحب کا ان سے رابطہ رہنے لگا وہ جب بھی فون کرتے تھے تو ان کے لہجے،گفتگو اور سٹائل کی بہت تعریف کرتے تھے۔
ایک دن حاجی صاحب نے ان سے کہا ’’پتر کج وی ہوجائے توں اپنا شٹیل نئیں بدلنا‘‘ ( بیٹا کچھ بھی ہو جائے تم نے اپنا سٹائل نہیں بدلنا)۔عام انتخابات ہوئے تحریک انصاف کی حکومت بنی تو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی وزارت اطلاعات کپتان کے ٹائیگر فیاض الحسن چوہان کو ملی۔ ایک دن چوہان صاحب کو فیصل آباد سے پھر فون آیا کہنے والے کہا کہ وہ حاجی صاحب کے دوست ہیں ،حاجی صاحب آپ کی بہت تعریف کرتے تھے ہر روز آپ کی گفتگو کا ذکر چھیڑتے تھے اب حاجی صاحب اس دنیا میں نہیں رہے۔ حاجی صاحب نے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ ’’چوہان تک میرایہ پیغام ضرور پہنچانا کہ اپنا سٹائل کبھی نہ بدلنا اسی طرح بولتے رہنا‘‘۔میرے خیال میں فیاض الحسن چوہان کو اس منصب سے الگ کروانے میں تین وفاقی وزرا اور پنجاب کی دو بااثر شخصیات سمیت حاجی صاحب(مرحوم) نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔