تحریر : ایم آر ملک یہ سال 2004کی بات ہے پنجاب میں مسلم لیگ قائداعظم کا اقتدار تھا اور چوہدری پرویز الہی وزارت اعلی کی کرسی پر متمکن تھے پیپلز پارٹی پنجاب میں اپوزیشن کا کردار اداکر رہی تھی کالا باغ ڈیم کی دو جماعتیں سخت مخالف ہیں جن میں ایک پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسری سر حدی گاندھی کی جماعت اے این پی ہے مجھے یاد ہے کہ 2008کے الیکشن کے بعد جب قومی اسمبلی کے سیشن شروع ہوئے تو ایک روز مجھے شہر اقتدار جانے کا اتفاق ہوا میں اپنے ایک دوست کے ساتھ اسمبلی سیشن کی کارروائی دیکھنے چلا گیا اُس ایون ِ زیریں میں فیصل آباد سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے رکن اعجاز احمد ورک بھی تھے جن کو اُس روز اسمبلی میں مجھے سننے کا موقع ملا اُس روز اعجاز ورک کے اندر میں نے ایک محب وطن انسان کو دیکھا جب وہ اپنی نشست پر کالا باغ ڈیم پر بولنے کیلئے کھڑا ہوا تو سندھ سے منتخب ہونے والے سارے ممبران ِ قومی اسمبلی اور پنجاب سے راجہ پرویز اشرف اُس کے خلاف یوں نشستوں سے کھڑے ہو گئے جیسے اُنہیں کرنٹ لگ گیا ہو اعجاز ورک کے خلاف اُنہوں نے وہ مغلظات بکیں جن کا تصور کیا جاسکتا ہے۔
یہ ساری تمہید میں نے اس لئے باندھی ہے کہ وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کے دور اقتدار میں پیپلز پارٹی نے عوام کی نظروں میں دھول جھونکنے کیلئے کالا باغ ڈیم کے حق میں قرار داد لانے کا فیصلہ کیا پرویز الٰہی پریشان تھے کہ پیپلز پارٹی تو وطن عزیز کے سب سے بڑے معاشی منصوبہ کی ہمیشہ مخالف رہی اب عوام کی ہمدردی کو کیش کرانے کی خاطر قرارداد لانے کیلئے بے چین ہے اُنہوں نے پنجاب اسمبلی میں جب اپنے اراکین پرطائرانہ نظر ڈالی تو پوری پنجاب اسمبلی میں جنوبی پنجاب کا ایک رکن صوبائی اسمبلی نظر آیا جو پنجاب اسمبلی کے ہر سیشن میں کسی بھی موضوع پر دسترس رکھتا تھا یہ مہر فضل حسین سمرا ء تھے چوہدری پرویز الٰہی مہر فضل کے پاس پہنچے اور اُنہیں اپنا مدعا بیان کیا کہ پوری اسمبلی میں صرف آپ ہی ایسے فرد ہیں جو پیپلز پارٹی کی اس قرار دادکا جواب دینے کی اہلیت رکھتے ہیں مہر فضل حسین سمرا ء نے کہا کہ میرا تعلق چونکہ جنوبی پنجاب سے ہے جنوبی پنجاب کا تخت ِلاہور نے ہمیشہ استحصال کیا ہے اس لئے میں پیپلز پارٹی کے پروپیگنڈے کا اِسی صورت جواب دے سکتا ہوں جب تخت ِ لاہور کی طرف سے جنوبی پنجاب کو ودیعت کی گئی محرومیوں کے خلاف بھی مجھے بولنے دیا جائے۔
چوہدری پرویز الٰہی کو مہر فضل حسین سمراء کی قابلیت اور ذہنیت کا اعتراف تھا اُنہیں معلوم تھا کہ مہر فضل ہی ایسا شخص ہے جو ہمیں سر خرو کر سکتا ہے اُس روز 25فروری 2004 تھا جب پنجاب میں اسمبلی فلور پر مہر فضل حسین سمراء کی آواز اِس طرح گونجی ”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ،جناب سپیکر میرا تعلق سرائیکی بیلٹ کے ایک ضلع لیہ سے ہے اور مجھے اسے سرائیکی بیلٹ کہنے میں کبھی باک نہیں رہا ،میں نے کبھی مصلحت کا شکار ہو کر اِسے جنوبی پنجاب نہیں کہا دریائے سندھ کے پانی کے حوالے سے میرا کیس مختلف ہے میرا کیس صوبہ سندھ کے خلاف بھی ہے اور پنجاب کے خلاف بھی ہے کالا باغ سے لیکر صادق آباد کی آخری حد تک دریائے سندھ کی تمام گزر گاہ سرائیکی علاقے میں ہے اور دریائے سندھ کی گزر گاہ ہونے کے ناطے سرائیکی بیلٹ نے صدیوں سے نقصانات برداشت کئے ہیں ہماری تمام سرائیکی بیلٹ اس دریا کی دریا بردی کاشکار ہے اِس دریا کے سیلاب سے ہر سال ہماری کروڑوں کی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔
Mahr Yasar Manzoor Sumra
ہمارے کروڑوں روپے کے مکانات صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں ہمارے لاکھوں روپے کے مویشی اس سیلاب میں بہہ جاتے ہیں اگر اس عفریت کو کالا باغ ڈیم کے ذریعے نہ روکا گیا تو ہم عدالت عظمیٰ میں جائیں گے اور اپنے خطہ کی حفاظت کیلئے ہم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اس کے علاوہ دریائے سندھ کی گزر گاہ ہونے کے جو نقصانات ہم نے آج تک بھگتے ہیں چو نکہ سندھ اس پر اپنے حق ملکیت کا دعویدار ہے اس لئے پاکستان بننے سے لیکر آج تک سرائیکی خطہ کا جو نقصان ہوا سندھ اُس کا ازالہ کرے نقصانات ہم سرائیکی خطہ والے بھگتیں اور اس کے فوائد کی بات آئے تو کالا باغ ڈیم کیلئے پنجاب بھی نہ لڑے گریٹر تھل کینال کیلئے بھی پنجاب Resist))نہ کرے تو ہم لوگ کہاں جائیں ؟”پیپلز پارٹی قرادا دپیش کرنے کا کریڈٹ نہ لے سکی البتہ چوہدری پرویز الٰہی جب بھی کبھی ترنگ میں آتے تو مہر فضل حسین سمرا کے بارے میں اکثر کہتے کہ یہ شخص ہماری اسمبلی کا مان ہے۔
جون 2005میں جب سرائیکی بیلٹ کے اضلاع کیلئے چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب کے ترقیاتی پروگرام کا 46فیصد حصہ مختص کیا تو بیوروکریسی نے فیصل آباد کو بھی اس میں شامل کر لیا جس کا علم صرف مہر فضل حسین سمرا کو ہوا اُنہوں نے بیوروکریسی کی اس کرپشن کو ایوان میں ننگا کیا 21جون کی اُن کی یہ تقریر ریکارڈ پر ہے کہ ”جناب سپیکر !میرا تعلق سرائیکی وسیب کے ضلع لیہ سے ہے گزشتہ سالوں میں بجٹ کے موقع پر میں سرائیکی وسیب کی پسماندگی اور محرومیوں کی داستان بیان کرتا رہا ہوں میری خواہش تھی کہ میں اس موضوع کو نہ دہرائوں لیکن جناب سپیکر کیا کیاجائے میرے مشاہدات نے مجھے پھر وہیں کھڑا کر دیا ہے ہماری پسماندگی اور محرومی کا اس سے اندازہ کریں کہ پنجاب اکنامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے پنجاب کے اضلاع کی DevelopmentRankingکی ہے جس کے مطابق میرا ضلع لیہ ترقی کے حوالے سے آخری نمبر پر ہے یہی حال دوسرے سرائیکی اضلاع کا ہے۔
اِسی طرح پنجاب میں درجہ بندی کے حوالے سے (Punjab poverty reduction strategy paper)شائع ہوا ہے جس میں مختلف اضلاع کو Medium,HighاورLowdeprivationکی Termsمیں Classifyکیا گیا ہے High deprivationکی کیٹیگری میں جو اضلاع آتے ہیں وہ تمام سرائیکی بیلٹ کے اضلاع ہیں سو جناب سپیکر ہمارا مقدر دیکھیں کہ ترقی کی Rankingمیں ہمار اضلع سب سے آخری ہے اور محرومیوں کی کیٹیگری میں سرائیکی اضلاع سر ِ فہرست ہیں میں اِس کو مقدر کا کھیل نہیں سمجھتا بلکہ ماضی میں دست ِ عطا کی غلط بخشی کہتا ہوں اس محروم اور پسماندہ خطہ کیلئے تمام حکومتیں اعلان تو کرتی رہتی ہیں لیکن عملاًکوئی بڑی پیش رفت کبھی نہیں ہوئی گویا ماضی میں ہمیں کھلونے دیکر بہلایا گیا۔
Mahr Manzoor Hussain Sumra Ex MNA
اب بھی وزیر اعلیٰ نے سرائیکی بیلٹ کیلئے پنجاب کے ترقیاتی پروگرام کا 46فیصد حصہ مختص کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن پنجاب کی بیوروکریسی نے جنوبی پنجاب کی گمراہ کن اصطلاح کے لبادے میں وزیر اعلیٰ کے اِس عزم کو شکست دینے کی تیاری مکمل کر لی ہے جنوبی پنجاب کے کھاتہ میں فیصل آباد ڈویژن کو بھی شامل کر لیا گیا ہے اور جو ADPمیں جنوبی پنجاب کی سکیمیں ظاہر کی گئی ہیں اُن میں فیصل آباد ڈویژن کے فنڈز بھی شامل کرکے 41فیصد تناسب دکھایا گیا ہے میں مطالبہ کرتا ہوں کہ فیصل آباد ڈویژن کو ہمارے کھاتے یعنی جنوبی پنجاب میں شمار نہ کیا جائے اگر P&Dڈیپارٹمنٹ نیرے اِس خدشہ کو چیلنج کرنا چاہے تو میں مناظرہ کیلئے تیار ہوں اس کے ساتھ ہی میں یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ اگر میرے خطہ کی شناخت مطلوب ہے ہمیں سرائیکی وسیب کہا جائے ”مہر فضل سمرا ء جنوبی پنجاب کا ایک بڑا سیاست دان ہی نہیں ایک بڑا انسان بھی تھا اور جہان ِ فانی سے کسی بڑے انسان کے گزر جانے کے بعد اُس کیلئے محض ہاتھ اُٹھا لینے سے حقِ انسانیت ادا نہیں ہوتا۔
کسی کے انسانیت کیلئے مقاصد کا ادراک ہی حق ِ انسانیت ہے ورنہ مہر فضل کے خلاف میں نے اُن کتوں کو بھی بھونکتے دیکھا ہے جنکو گلیوں میں کوئی بھونکنے نہیں دیتا تھا مجھے ایک نام نہاد صحافی جسکاناجائز کام وہ نہ کراسکے یاد ہے جس کے باپ کو لیہ کے ایک سیاست دان نے گالیاں دی تھیں اور وہ نام نہاد صحافی بھی اُسی محفل میں موجود تھا لیکن وہ اپنے باپ کا دفاع نہ کرسکا اُسے اُس سیاست دان کے خلاف بولنے کی جرات نہ ہوئی مگر مہر فضل سمرا ء کے خلاف اُس کی زبان قینچی کی طرح چلتی رہی شیر اسمبلی کا جعلی خطاب لینے والے شاید یہ بھول گئے کہ حقیقی شیر اسمبلی مہر فضل حسین سمراء ہی تھے جنہوں نے اپنے ضلع کا ہی نہیں جنوبی پنجاب کا مقدمہ بھی لڑا۔
اس درویش صفت سیاست دان کے بارے میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جب اُس کی جیب میں پیسے نہ ہوتے تو سائل کو کہتے کہ آئو پیدل چلتے ہیں پیدل بھی چلا کرو مہر فضل حسین سمراء کی موت آج بھی اس قطعہ کی عکاس نظر آتی ہے جو اکثر اُن کے لبوں پر رہتا یاد رکھیں سُکھ سفراں وچ پئی کائی شے گھٹ میں یاد آساں کہیں ثابت شے کوں کہیں حیلے لگا کہیں جا بُٹ میں یاد آساں یا شام کوں ولدے پکھیاں دا ڈٹھو کہیں جا جُٹ میں یاد آساں تیڈے ہتھ دا شاکر شیشہ ہاں جڈاں ویساں ترٹ میں یاد آساں مہر فضل حسین سمراء نے اپنی علالت دوران اپنے بڑے بھائی سابق ایم این اے مہر منظور حسین سمرا کے بیٹے مہر یاسر منظور سمرا کو اپنا جانشین مقرر کیا جو اُن کے عوامی خدمت کے مشن کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں