اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) ٹی وی چینلز پر عمران خان کے گن گانے والے اکثر چہرے اب حکومت میں کیڑے نکال رہے ہیں۔ دراصل یہ سب کچھ بااثر حلقوں میں حکومت کے لیے سوچ کی تبدیلی کا واضح اثر ہے۔ اعزاز سید کا بلاگ۔
ستمبر 2014 کے آخری ہفتے میں جب عمران خان اور طاہر القادری اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے تھے تو انہیں اچانک اس وقت کے آرمی چیف نےملاقات کی دعوت دی ۔ ہنستے مسکراتے یہ رہنما جنرل راحیل کے پاس اس امید سے پہنچے کہ شاید اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف سے استعفٰی لینے کا وقت آگیا ہے مگر دونوں رہنماؤں کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تناظر میں اس وقت کے وزیر اعلٰی پنجاب شہبازشریف کے استعفے کی پیشکش کردی گئی۔ عمران خان اور طاہر القادری کسی صورت نوازشریف کے استعفے سے پیچھے ہٹنے والے نہ تھے اس لیے شہباز شریف کے استعفے کی پیشکش مستردکرتے ہوئے دونوں رہنما خالی ہاتھ وآپس ڈی چوک میں پہنچ گئے۔
حسن اتفاق کہیے یا کچھ اور کہ جب مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد تک آزادی مارچ کا اعلان کیا ہے تو اس سے قبل بہت سے حلقے وزیراعلٰی پنجاب عثمان بزدار کی کارکردگی سے نالاں ہیں۔ پنجاب کی بیوروکریسی میں یہ بات مشہور ہے کہ اصل وزیراعلٰی عثمان بزدار نہیں بلکہ احسن گجر نامی ایک شخص ہے، وہی جس کی اہلیہ نے بزدار کو وزیراعلٰی پنجاب بنوانے میں مبینہ طورپر اہم کردارادا کیا تھا۔
بزدار وزیراعلٰی تو بن گئے مگر ابھی تک پنجاب میں ن لیگ کا زور توڑ سکے اور نہ کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دے سکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مولانا فضل الرحمان کو پنجاب یا خیبر پختونخوا کے وزیر اعلٰی میں سے کسی ایک یا دونوں کے استعفے کا لالی پاپ دیا گیا تو کیا وہ مان جائیں گے؟ جواب بڑا واضح ہے کہ مولانا فی الحال ماننے والے نہیں۔
مولانا فضل الرحمان کے اعلان کردہ آزادی مارچ نے ہرطرف تقسیم بھی واضح کردی ہے۔ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی نوازشریف کی دھرنے میں شرکت کے حوالے سے ہدایات من وعن ماننے سے گریزاں ہیں جبکہ وفاقی دارالحکومت کی ہمہ رنگ محفلوں میں یہ گرما گرم بحث جاری ہے کہ آیا مولانا فضل الرحمان کو کسی کی آشیر باد حاصل ہے یا نہیں؟ مولانا فضل الرحمان سے پوچھیں کہ کیا آپ کوکوئی اشارہ کیا گیا ہے؟ تو نفی میں گردن ہلاتے مولانا کہتے ہیں کہ وہ بالآخر سب کو اپنی دلیل پر قائل کرلیں گے۔
حالات کو جانچنے کا ایک پیمانہ میڈیا بھی ہے۔ فی الحال مولانا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس یا جلسوں کی براہ راست کوریج پر غیراعلانیہ پابندی لگی ہوئی ہے لیکن مختلف ٹی وی چینلز پر وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف کی حکومت کے گن گانے والے اکثرچہرے اچانک بدل گئے ہیں وہ اب حکومت میں کیڑے نکال رہے ہیں۔ دراصل یہ سب کچھ سوچ کی تبدیلی کا واضح اثرہے۔
پاکستان بڑا منفرد ملک ہے۔ یہاں حکومت ہو یا اپوزیشن، کامیابی کی کنجی آشیرباد ہے۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت آشیرباد کے بغیر چلائی جاسکتی ہے وہ سابق وزیر اعظم بے نظیربھٹو اور نوازشریف کی پانچ حکومتوں کے انجام دیکھ لیں اور جو یہ مانتے ہیں کہ آشیر باد کے بغیراپوزیشن کی جاسکتی ہے وہ خیبرپختونخوا میں پشتونوں کی حالیہ تحریک کے مسائل یا پھر بلوچستان میں اکبر بگٹی مرحوم اور سندھ میں جی ایم سید کا انجام ملاحظہ کرلیں۔ اگر پھر بھی دل نہ مانے تو حالیہ دور میں پنجاب میں مریم نواز، رانا ثنا اللہ اوردیگر کی مثالوں سے استفادہ کرلیں۔ سب سمجھ آجائے گی کہ چند انفرادی واقعات کو چھوڑ کر یہاں آشیرباد کے بغیر حکومت کرنا ممکن ہے نہ تحریک چلا نا آسان۔ وجہ بہت سادہ ہے اور وہ یہ کہ سیاستدان متحد ہی نہیں۔ وہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی بجائے کچھ اورحلقوں کی طرف دیکھتے ہیں۔
ساری صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو دو باتیں واضح ہیں۔ اول یہ کہ اس احتجاج کی صورت میں کچھ بھی ہو نئے انتخابات منعقد نہیں ہوں گے وجہ معیشت کی دگر گوں صورتحال ہے اور دوئم یہ کہ ملک میں جمہوریت کو بھی کوئی خطرہ نہیں ہوگا کیونکہ ایسی صورت میں کشمیر کے بارے میں عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف بھارتی موقف جیت جائے گا۔
اگر مولانا کے آزادی مارچ سے قبل انہیں اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا اور خیبر سے کراچی تک ان کے ماننے والے اسلام آباد نہ پہنچ سکے تو ثابت ہو جائے گا کہ پیچھے کوئی نہیں لیکن اگر عوام کا ایک جم غفیر اسلام آباد پہنچ گیا تو صورتحال بدل جائے گی جو چند لوگ مولانا کے ساتھ نہیں شاید وہ بھی ان کے ساتھ مل جائیں۔
حکومت نے پہلے تو تمام توپوں کا رخ مولانا کی طرف موڑکر انہیں تنقید اور توجہ کا مرکز بنایا لیکن جب بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر گیا تو وزیر اعظم عمران خان کی زیر قیادت کور کمیٹی نے مولانا سے مذاکرات کے لیے وزیردفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کردیا جسے مولانا فضل الرحمان نے فوری مسترد کردیا۔ یعنی اب ٹکراؤ ہی واحد صورتحال نظر آرہی ہے۔
مولانا کی کامیابی کا پیمانہ دوصورتیں ہوسکتی ہیں اول یہ کہ انہیں گرفتار کرلیا جائے اور ان کے کارکن بڑی تعداد میں اسلام آباد پہنچ کر چھوٹا موٹا جلسہ کرکےمنتشر ہوجائیں۔ دوسری صورت یہ کہ انہیں کچھ نہ کہا جائے وہ اپنے کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد آئیں بھرپور جلسے میں حکومت پر تنقید کریں اور منتشرہوجائیں لیکن اگر اس احتجاج میں لاشیں گرا کرحکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر مولانا جیتیں گے اور نہ جمہوریت۔ سب کو بند گلی میں جانا ہوگا جو بہرحال ترقی کا نہیں تنزلی کاراستہ ہے۔