اسلام آباد (جیوڈیسک) ایک ایسے وقت میں جب پی ٹی آئی کی حکومت کو مہنگائی اور معیشت کے مسئلے پر عوامی دباؤ کا سامنا ہے، مولانا فضل الرحمن نے ایک بار پھر پی ٹی آئی حکومت کے خلاف حزبِ اختلاف کا اتحاد بنانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
نون لیگ اورپی پی پی نے اس بات کے اشارے دیے ہیں کہ وہ حکومت کے خلاف متحد ہو سکتے ہیں لیکن کئی ناقدین کی رائے میں یہ اتحاد بنتا ہوا نظر نہیں آتا۔ یہاں تک کہ خود جمعیت علما اسلام (ف) کے تجربہ کار سیاست دان بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو سرِ دست کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کل سابق صدر آصف علی زرداری سے اور اس سے پہلے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف سے ملاقاتیں کیں۔ تاہم جے یو آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان ملاقاتوں کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا۔
کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ماضی میں نون لیگ اور پی پی پی دونوں ہی ملکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خفیہ مفاہمت کرتی رہی ہیں۔ لہذا دونوں جماعتیں اب بھی جی ایچ کیو کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ سابق سینیٹر اور جے یو آئی ایف کے سابق مرکزی نائب امیر حافظ حسین احمد اس تاثر کو صحیح سمجھتے ہیں۔ ان ملاقاتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نواز اور شہباز ڈیل کرنے کے چکر میں ہیں جب کہ زرداری صاحب نے پہلے مولانا صاحب کو کوئی مثبت جواب نہیں دیا تھا لیکن اب جب ان کے خلاف مقدمات کھل رہے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ تاہم نتائج کچھ امید افزا نہیں ہیں۔‘‘
حافظ حسین احمد کا کہنا ہے کہ نون لیگ اور پی پی پی میں بھی بد گمانیاں ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’پہلے نون لیگ پی پی پی کے خلاف اسٹیبلشمنٹ سے ملی اور بعد میں پی پی پی نے سینیٹ کے الیکشن اور بلوچستان میں نون لیگ کی حکومت ختم کرنے کے لیے غیر مرئی طاقتوں کا ساتھ دیا۔ اب بھی پی پی پی کو لگتا ہے کہ ن لیگ ڈیل کر لے گی اور ن لیگ کو لگتا ہے کہ پی پی پی ڈیل کر لے گی۔ تو سرِ دست عمران خان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے کیوں کہ جن سے خطرہ ہو سکتا ہے وہ تو حکومت کے ساتھ ہیں۔‘‘
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ن لیگ میں شہباز شریف کا دھڑا کسی اتحاد کے حق میں نہیں ہے اور وہ اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کرنا نہیں چاہتا۔ وزیرِ ریلوے شیخ رشید احمد بھی اس طرح کے الزامات شہباز شریف پر لگاتے رہے ہیں۔تاہم ن لیگ کا کہنا ہے کہ حکومت کے خلاف متحدہ محاذ بن سکتا ہے اور یہ کہ پی پی پی اور ن لیگ مل کر کام بھی کر سکتی ہیں۔
پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق وزیرِ ماحولیات مشاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ عید کے بعد حکومت کے خلاف شور شرابہ شروع ہو سکتا ہے۔ مشاہد اللہ کا کہنا تھا، ’’تحریک کے لیے اسٹریٹجی ہوتی ہے۔ ہم مرحلہ وار حکومت کے خلاف جائیں گے پہلے پارلیمنٹ میں اس کے خلاف بھر پور احتجاج کریں گے، کیونکہ اس حکومت نے ملک کو بردباد کر کے رکھ دیا ہے۔ مہنگائی کا طوفان ہے۔ معیشت کا جنازہ نکل گیا ہے اور عوام بدحال ہیں۔ تو پہلے پارلیمنٹ اور پھر ایجی ٹیشن۔‘‘
ماضی میں نواز شریف سابق صدر آصف زرداری سے ملاقات کرنے سے کتراتے رہے ہیں اور ڈان لیکس کے بعد زرداری نے ملاقات کی کوششوں کو بارو آور ثابت ہونے نہیں دیا تھا۔ لیکن مشاہد اللہ کہتے ہیں کہ اب اس بات کا امکان ہے کہ دونوں پارٹیوں کے رہنما ملاقات کریں۔ ان کا کہنا تھا، ’’کیوں نہیں، میاں صاحب اور زرداری صاحب کی ملاقات ہو سکتی۔ اگر میاں صاحب پارٹی کے چیئرمین بلاول سے مل سکتے ہیں تو پھر نائب چیئرمن زرداری سے کیوں نہیں مل سکتے۔تو یقیناًملاقات بھی ہو سکتی ہے اور عید کے بعد حزبِ اختلاف کا متحدہ محاذ بھی بن سکتا ہے اور حکومت کے خلاف ایجی ٹیشن بھی ہوسکتی ہے۔‘‘
لیکن ایسا لگتا ہے کہ پی پی پی نے کچھ ریڈ لائینز کا تعین کیا ہوا ہے اور اگر حکومت ان ریڈ لائینز کو پار کرتی ہے تو پھر پارٹی پی ٹی آئی کے خلاف نکلے گی۔ پارٹی کے ترجمان اور سابق ایم این اے چوہدری منظور احمد کے خیال میں حزبِ اختلاف کی طرف سے متحدہ محاذ کی باتیں قبل از وقت ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’حزب اختلاف سے مراد صرف پی پی پی اور نون لیگ ہی نہیں ہیں بلکہ اے این پی، نیشنل پارٹی اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی بھی ہیں۔ تو فضل الرحمن سے ملاقات ایک روٹین کا معاملہ تھا۔ فی الحال متحدہ محاذ نہیں بن رہا لیکن ہاں اگر پی ٹی آئی نے اٹھاوریں ترمیم کو ختم کرنے کی کوشش کی یا این ایف سی کو چھیڑا تو پھر پارٹی دوسری جماعتوں کے ساتھ سٹرکوں پر ہوگی لیکن ابھی ہم حکومت کو بجٹ اور معاشی پالیسی پر ٹف ٹائم دیں گے۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ڈیل کرنے کے موڈ میں ہیں لیکن پی پی پی ایسے کسی بھی تاثر کی تردید کرتی ہے۔ چوہدری منظور کا کہنا تھا، ’’میرا نہیں خیال کہ زرداری صاحب یا فریال صاحبہ ڈیل کرنا چاہتے ہیں لیکن پھر یہ مسئلہ صرف ان دو شخصیات کا نہیں ہے۔ فیصلہ پارٹی نے کرنا ہے اور اس کی رائے یہی ہے کہ اس حکومت کو جانا ہی چاہیے کیونکہ ہم نے اسے اچھا خاصا وقت دے دیا ہے لیکن اس نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے اور پاکستان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ اب پی ٹی آئی کے اتحادی بھی اسے چھوڑنے جا رہے ہیں۔ تو ہم مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
پاکستان میں یہ باتیں گرم ہیں کہ پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت بی این پی مینگل نے عمران خان کو اپنے مطالبات کے حوالے سے الٹی میٹم دے دیا ہے جب کہ ایم کیوایم اور پاکستان مسلم لیگ کیو کے بھی کئی تحفظات ہیں، جو وزیرِ اعظم دور نہیں کر رہے۔ اس صورتِ حال کے پیشِ نظر پی ٹی آئی کو خطرہ ہے۔
تاہم پارٹی کے ایڈیشنل سیکریڑی اطلاعات اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کے چیئرمین فیصل جاوید خان کا دعویٰ ہے کہ نہ پی ٹی آئی کو اتحادیوں سے خطر ہ ہے اور نہ اسے مولانا فضل الرحمن کی ملاقاتوں سے۔ فیصل جاوید خان کا کہنا تھا، ’’ساری حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے ملتان کے ضمنی الیکشن میں ہمارے خلاف متحد ہو کر الیکشن لڑا، تو یہ پہلے ہی متحد ہیں۔ ان کا اتحاد کرپشن اور منی لانڈرنگ کے پیسے کو بچانے کے لیے ہے۔ لیکن ہم اپنی مدت بھی پوری کریں گے اور کرپشن کے خلاف لڑیں گی بھی۔ ہم اس بات کی بھی تردید کرتے ہیں کہ اتحادی ہماری حکومت کو چھوڑ رہے ہیں۔ ہماری حکومت پہلے سے زیادہ طاقتور ہے اور ہمیں ان ملاقاتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی ہم ان ملاقاتوں سے خوفزدہ ہیں۔‘