ہم نے تو پہلے ہی کہا تھا آثار اچھے نہیں مولانا کے ہاتھ کچھ نہیں آنے والا سناہے اب مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ دھرنے سے احتجاجی سیاست میں تبدیل ہوگیاہے سیاسی مبصرین تو پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ آزادی مارچ کی ٹائمنگ درست نہیں اور مقاصد بھی واضح نہیں ،یہ دھرنے کے مقاصدتو سیاسی تھے لیکن شرکاء غیرسیاسی، ۔پھر آسمان نامہربان ہونے سے اسلام آباد میں بارش اور تیز ہوائیں چلنے کے باعث سردی کی شدت میں اضافہ ہو گیا جس کی وجہ سے دھرنے کے شرکاء کی مشکلات میں اضافہ بھی ہوا اور کئی عارضی خیمے بھی تیز ہواؤں کی وجہ سے اڑ گئے۔ وہ تو بھلاہو وزیراعظم عمران خان کا جنہوںنے سی ڈی اے کو ہدایت کردی کہ دھرنے کے مقام کا دورہ کر کے بارش اور بدلتے موسم کے باعث شرکاء کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جائے۔جس طرح دھرنا دینے والوںکو ہلکی بارش اور تیز ہوائوں کے باعث سرد موسم سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کئی خیمے بھی اکھڑ گئے اپوزیشن جماعتوں کے ”دھرنے” کے شرکا حکومت کے ساتھ ساتھ موسمی چیلنج کا مقابلہ کرتے رہے۔
گرج چمک کے ساتھ بارش کی وجہ سے سردی کی شدت میں اضافہ ہوگیا اچھاہوا مولانا نے باعزت طریقے سے واپسی کا محفوظ راستہ اختیارکرلیا ورنہ تیز ہوائوں،بارش اور سردی نے لاکھوںکے ملین مارچ کو تتربتر کرکے رکھ دینا تھا یہ شیخ الاسلام طاہرالقادری ہی تھے جن کا دھرنا کئی مہینے چلا ایسا چلا کہ دنیا میں ایک نئی تاریغ رقم ہوگئی اس دھرنے نے عمران خان کو بھی تقویت بحشی اور مزاحمتی سیاست کو ایک نیا رنگ دیدیا ۔ کچھ لوگوںکا کہناہے کہ لیڈر کو دھرنا لیڈ کرنا ہوتا ہے۔ فضل الرحمن نے خود کمروں میں بیٹھ کر عوام کو بارش میں چھوڑ دیا، انکو اب واپس جانا چاہیے، مدرسے کے طلبا کو دھرنے میں لایا گیا ہے، مولانا صاحب ہر حکومت میں رہے ہیں اقتدارسے دوری انہیں گراں گذررہی ہے یہی وجہ ہے کہ ہو گذرتے دن کے ساتھ ان کی وحشت میں اضافہ ہوتاچلاجارہاہے ایک رائے یہ بھی ہے کہ مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے دلبرداشتہ ہوکر مایوس ہوگئے ہیں حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ کی تاریخی تقریر نے مولانا کے مذہبی کارڈ بیانیہ کو پنکچر اور دھرنے کے مقاصد کو زمین بوس کردیا ہے ان حالات میں مولانا خود فریبی سے نکلیں، عوام کو تنگ نہ کریں کیونکہ عام انتخابات میں ریجیکٹ ہونے والے جتھے کی صورت حقیقی عوامی مینڈیٹ کی توہین اور جمہوری نظام پر حملہ آور ہوکرجمہوریت کی بساط پر اپنی من مرضی کرناچاہتے ہیں جو انتہائی خطرناک ہے جبکہ آزادی مارچ میں مولانا فضل الرحمن کی طرف سے الیکشن میں فوج کی مداخلت کے بارے میں عائد بھی کئے الزام پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ دھرنا یا آزادی مارچ ایک سیاسی سرگرمی ہے۔ دھرنے کافی عرصہ سے ہو رہے ہیں جن سے فوج کا کوئی لینا دینا نہیں۔
ایسے الزامات کے بارے میں پہلے بھی مناسب انداز میں جواب دئیے گئے ہیں۔ فوج ملکی دفاع اور سلامتی کے امور دیکھ رہی ہے۔ یہ صورتحال ہمیں اجازت نہیں دیتی ہم اس نوعیت کی باتوں میں ملوث ہوں۔ فوج نے بطور ادارہ 2014 کے دھرنے میں بھی اس وقت کی منتخب حکومت کا ساتھ دیا تھا اور سکیورٹی کیلئے دئیے گئے تمام ٹاسک پورے کئے۔ فوج حکومت کے احکامات پر عمل کرتی ہے۔ الیکشن سے فوج کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ قدرتی آفات ہوں یا الیکشن، فوج صرف اس وقت آتی ہے جب دستور میں دئیے گئے طریقہ کار کے تحت سول انتظامیہ کی مدد کیلئے اسے طلب کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن میں آنے کی ہماری کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ حکومت اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کے تحت آتے ہیں۔
فوج کو نہ بلایا جائے تو فوج نہیںآئے گی۔ الیکشن کمیشن کے ان فیصلوں میں سیاسی جماعتوں کی رائے بھی شامل ہوتی ہے۔ آرمی چیف اپنی ملاقاتوں کے دوران کم ازکم دو موقع پر یہ رائے دے چکے ہیں کی ایسی تجاویز لائی جائیں، یا پولیس کی استعداد بڑھا لی جائے جس کے تحت الیکشن میں فوج کا کردار صفر ہو جائے۔اس تناظرمیںسابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ حکومت گرانے کیلئے جتھے داخل کرنے کا حربہ کسی طور بھی مناسب نہیں۔ 2014ء میںعمران خان کی طرف سے دیئے گئے دھرنے کا اقدام غلط تھا، اور جے یو آئی ف کی طرف سے دیا جانے والا دھرنا بھی غلط تھا، اتنی بڑی تعداد میں جب عوام ایک جگہ اکٹھی ہوجائے، تو پھر انہیں اٹھانا مشکل ہوجاتا ہے، اسی لیئے عمران خان کے دھرنے کی بھی مخالفت کی تھی۔
سیاسی میدان میں ہوں، اور رہونگا، وقت آنے پر فیصلہ کرونگا کہ ملکی سیاست میںکس فورم کا انتخاب کرنا ہے آج کچھ لوگ کہتے ہیں تو شایڈ وہ ٹھیک ہی کہتے ہوں گے کہ مولانا کے آزادی مارچ کا سب سے زیادہ فائدہ مودی سرکارکو ہوا دھرنے کے باعث دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم سے ہٹ گئی ہے یہ امت ِ مسلمہ کا ناقابل تلافی نقصان ہے بہرحال تمام حالات و واقعات کا بغورجائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا مقاصد کے بغیر جدو جہد بے کارجاتی ہے اسی لئے مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ نما دھرنا چندہی دنوںتک ٹھس ہو گیاپیپلزپارٹی کی عدم دلچسپی اور میاںنوازشریف اور مریم نوازکی ضمانت منطورہونے کے بعدمسلم لیگ ن کا شرکت سے گریز نے تو پہلے ہی ظاہر کردیا تھا۔
مولانا فضل الرحمن خالی ہاتھ لوٹیں گے اورپھروہی ہوا لگتاہے مولانا مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی پر بھروسہ کرکے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کا ارتکاب کرچکے ہیں انہیں یہ تو سوچنا چاہیے تھا میاں نوازشریف،آصف زرداری اور میاںشہبازشریف تینوںکے اپنے اپنے مسائل ہیںوہ اس حدتک ساتھ دے سکتے تھے جہاں ان کے مفادات متاثرنہ ہوں پھر یہ بھی پیش ِ نظر رکھنے کی ضرورت تھیJUI-Fایک علاقائی جماعت ہے سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں ان کے پاس کوئی خاص سیاسی قوت نہیں ہے آجاکر خیبرپی کے ہی ہے جہاں کبھی ماضی میں ان کی حکومت تھی لیکن عمران خان کیPTIنے یہ راج سنگھاس بھی چھین لیاہے اس لئے آزادی مارچ نے مولانا کا رہاسہا بھرم بھی ختم ہوگیاہے انہیں سوچناہوگا اب کیا بنے گا؟ بہرحال مولانا کے دھرنا سیاست کا تو یہ حال ہوا کہ کھایا پی کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے ۔۔۔ اور سال ہا سال مفت کی لسی پینے والوںکو یہ بارہ آنے بھی اپنی جیب سے اداکرنا پڑے ہیں بہرحال خالی ہاتھ واپسی کے بعد مولانا جو کچھ ماٹھا ماٹھا احتجاج کررہے ہیں وہ محض اپنی خفت مٹانے کے لئے کیاجارہاہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس عاشقی میں عزت ِ سادات چلی گئی ہے کوئی مانے نہ مانے اس کی اپنی صوابدیدہے ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔