اسلام آباد (جیوڈیسک) فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس چوروں کا سراغ لگانے کا الیکٹرانیکلی اسکروٹنی سسٹم (ای ایس ایس) تیار کرنے کے لیے پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (پرال) سے مدد مانگ لی ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ٹیکس بچانے کے لیے آمدنی چھپانے والوں کا سراغ لگانے کے لیے اور کم ٹیکس دینے والوں کا پتا چلانے کے لیے ایف بی آر ہیڈکوارٹرز میں چیف آئی آر آٹومیشن اینڈ سیلز ٹیکس کی سربراہی میں تجویز کردہ خصوصی ریسرچ اینڈ اینالسز سیل میں تعیناتی کے لیے 6افسران کے نام تجویز کردیے ہیں۔
دستاویز میں بتایا گیاکہ ایف بی آر کے چیف آٹومیشن کی طرف سے ممبر ایڈمن کو بھجوائی جانے والی فہرست میں تجویز دی گئی ہے کہ ڈپٹی ڈائریکٹر ایم آئی ایس آر ٹی او اسلام آباد عاصم ادریس، آئی آر اے او ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو اسلام آباد خالد احمد خان،آئی آر اے او ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد عنصر مجید، آڈیٹر ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو اسلام آباد حارث اقبال، رضوان الرحمٰن اور آڈیٹر آر ٹی او اسلام آباد سعید الرحمٰن کو خصوصی ریسرچ اینڈ اینالسز سیل میں تعینات کیا جائے۔
اس کے علاوہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ممبر انفارمیشن ٹیکنالوجی و چیف ایگزیکٹو آفیسر پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (پرال) سے بھی درخواست کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں انہیں کہا جائے گا کہ ٹیکس چوروں کا سراغ لگانے کا الیکٹرانیکلی اسکروٹنی سسٹم (ای ایس ایس) تیار کرنے کے لیے ڈیولپمنٹ ٹیم فراہم کی جائے۔ دستاویز کے مطابق ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز میں قائم کیے جانے والے مذکورہ سیل کو ایف بی آر کے پاس موجود سیلز ٹیکس ریٹرن کا الیکٹرانیکلی اینالسز کا ٹاسک دیا جائے گا۔
اس کے علاوہ ٹیکس دہندگان کی طرف سے جمع کرائے جانے والے سیلز ٹیکس گوشواروں میں دی جانے والی معلومات کی ایف بی آر کے پاس دیگر ذرائع سے دستیاب ڈیٹا کے ساتھ موازنہ اور کراس میچنگ کی جائے گی اور جن ٹیکس دہندگان کی طرف سے سیلز ٹیکس گوشواروں میں دی جانے والی معلومات مشکوک پائی جائیں گی ان کا ڈیسک آڈٹ کے بعد فزیکل آڈٹ کیا جائے گا اور ان کے ذمے جو ٹیکس واجبات ہوں گے نہ صرف وہ وصول کیے جائیں گے بلکہ جرمانے، سرچارج اور اضافی ٹیکس بھی وصول کیے جائیں گے۔
دستاویز میں یہ بھی انکشاف گیا ہے کہ ماضی کے مختلف دور حکومت میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی طرف سے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے کرائے جانے والے مختلف اینالسز اور اسٹڈیزکے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے اور ان اینالسز میں ٹیکسٹائل، سیمنٹ، شوگر، بیوریجز اور ریفائنریز سمیت دیگر بڑے شعبوں میں نان فائلرز کا بھی اینالسز کرایا گیا ہے، اسی طرح رعایتی ایس آراوز کا غلط استعمال کرنے والوں کا سراغ لگانے کے لیے بھی اسٹڈیز اور اینالسز کرائے گئے ہیں جبکہ ان اسٹڈیز اور اینالسز کے ذریعے جن لوگوں کا سراغ لگایا گیا ان کا ڈیٹا کارروائی کے لیے فیلڈ فارمشنز کو بھجوایا گیا مگر افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے ان سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔
دستاویز میں بتایا گیا کہ ایف بی آر نے ماضی میں کی جانے والی کوششوں کو ضائع کرنے کے بجائے ان سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے فنانس ایکٹ 2014 کے ذریعے سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 میں سیکشن 50 بی متعارف کرائی گئی ہے اور اس سیکشن کے تحت آٹومیشن کو قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔ دستاویز میں بتایا گیا کہ ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز میں قائم کیا جانے والا یہ خصوصی سیل ریونیو بڑھانے اور ٹیکس چوری روکنے کے لیے نہ صرف سیلز ٹیکس گوشواروں میں دی جانے والی معلومات کی دیگر دستیاب ڈیٹا کے ساتھ کراس میچنگ کرے گا بلکہ ٹیکس وصولیاں بڑھانے کے لیے اقدامات بھی تجویز کرے گا۔