امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے کینسر کی نئی اور مؤثر ترین دوا استعمال کرنے کی منظوری انتہائی کم وقت میں دے دی جس پر عالمی طبّی حلقے حیرت میں مبتلا ہیں۔
ادویہ سازی میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ کسی نئی دوا کے دریافت ہونے سے لے کر اس کی منظوری تک میں کم و بیش 10 سال کا عرصہ اور 80 کروڑ ڈالر خرچ ہوتے ہیں جب کہ کسی بھی نئی دوا یا طریقہ علاج کو منظور کرنے میں ایف ڈی اے بہت وقت لے لیتا ہے لیکن اس ادارے نے کینسر کی نئی دوا کو غیرمعمولی طور پر بہت کم وقت میں منظور کرلیا ہے۔
وینیٹوکلاکس (Venetoclax) نامی یہ دوا آسٹریلیا میں طویل تحقیق کے بعد تیار کی گئی ہے جو کینسر کی ایک خاص قسم ’’سی ایل ایل‘‘ (کرونک لمفوٹک لیوکیمیا) کے علاج میں استعمال کی جاتی ہے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ ’’سی ایل ایل‘‘ خون اور ہڈیوں کے گودے میں ہونے والے کینسر کی ایک قسم ہے جو خاصی عام ہے۔
وینیٹوکلاکس کی طبّی آزمائشیں امریکا، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی، پولینڈ اور آسٹریلیا کے 31 تحقیقی مراکز میں گزشتہ چند سال سے جاری تھیں۔ دوسرے مرحلے کی طبّی آزمائشوں (فیز ٹو کلینیکل ٹرائلز) کے دوران اسے سی ایل ایل کے 18 سال سے زائد عمر کے ایسے 107 مریضوں کو استعمال کرایا گیا جو اس سے پہلے کینسر کے علاج کی کم از کم ایک تدبیر اختیار کرکے ناکام ہوچکے تھے۔
ان مریضوں کو مسلسل 5 ہفتے تک وینیٹوکلاکس کی خوراک دی گئی جسے شروع میں 20 ملی گرام سے بتدریج بڑھاتے ہوئے 400 گرام روزانہ تک پہنچایا گیا۔ آزمائشوں کے دوران 80 فیصد مریضوں کو افاقہ ہوا اور ان میں لیوکیمیا کا مرض جزوی یا مکمل طور پر ختم ہوگیا۔ علاوہ ازیں بہت کم مریضوں میں وینیٹوکلاکس کے ضمنی اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) دیکھنے میں آئے۔
دلچسپی کی بات تو یہ ہے وینیٹوکلاکس تیاری اور اس پر تحقیق کا سارا کام آسٹریلیا میں ہوا ہے لیکن اب تک آسٹریلوی حکام نے اسے منظور نہیں کیا ہے جب کہ امریکا میں اسے منظوری مل چکی ہے۔ یہ دوا کینسر زدہ خلیات کو براہِ راست نشانہ بنانے کے بجائے جسم کے قدرتی امنیاتی نظام (امیون سسٹم) کا توازن بحال کرتے ہوئے کینسر میں مبتلا خلیات کو از خود ختم ہونے پر مجبور کرتی ہے۔