تحریر : ایم آر ملک اسے آپ خوف کی موت کہہ سکتے ہیں شہر قائد پر چھائے دہشت کے تسلط کو توڑنے میں جنرل بلال اکبر کے لافانی کردار کو عرصہ تک شہر قائد کی آنیوالی نسلیں بھلا نہ پائیں گی۔
شہر میں پھیلے دہشت گردی کے اڈے اور انسانیت کی لاشیں گرانے والے قاتلوں کی پناہ گاہیں بلڈوز کرنے والے افراد بغیر کسی سکیورٹی حصار کے اپنا کام کئے جا رہے ہیں یہی خوف کی موت ہے جس کا کریڈٹ جنرل بلال اکبر کو جاتا ہے۔
اُس روز زینب مارکیٹ میں کھڑے محب وطن پاکستانیوں نے فاروق ستار ،خواجہ اسلام جیسے ننگ ِ انسانیت کو جب میڈیا ہائوسز سے معذرت کے بعد جب نکلتے دیکھا تو اُن کی گاڑیوں پر ٹوٹ پڑے ،اس گھیرائو نے ماضی کے دہشت گردوں کے چہروں پر خوف کے سائے گہرے کر دیئے ،محب وطن شہریوں کے رد ِ عمل کا وہ خوف جو فاروق ستار ،خواجہ اسلام جیسے افراد کی سر پرستی میں ایک وطن دشمن جماعت کے کارندوں کے ”پاکستان مردہ باد ”جیسے نعروں سے پیدا ہوا۔
ایسا پہلے کبھی نہ ہوا کہ عوامی صفوں سے اتنا شدید ارتعاش اُٹھا ہو یہ شدید رد ِ عمل اندر کی پاکستانیت کا اظہار تھا جو وطن دشن جماعت کے کارندوں کے خلاف فلک شگاف نعروں کی شکل میں پیدا ہوا حب الوطنی کے سامنے ساری مزاحمتیں دم توڑ جاتی ہیں محب ِ وطن حلقوں کی یہ سچائی اب کھل کر سامنے آرہی ہے کہ نونیئے پاک آرمی کے شانہ بشانہ ایک پیج پر نہیں کھڑے ضرب ِ عضب کی شروعات سے لیکر ،کلبھوشن کی گرفتاری ،سرحدی گاندھی کی اُن اداروں پر ہرزہ سرائی جو رزم ِ حق و باطل میں فولاد ی قوتیں ہیں اور اب برطانوی شہری کی بکواسیات تک ن لیگی صفوں سے کوئی مزاحمتی آواز نہیں سنائی دی ۔حتیٰ کہ برطانیہ میں ن لیگ کے جن ورکروں نے الطاف کے خلاف احتجاج کی آواز اُٹھائی وہ معتوب ہوئے ،اُن کی سرزنش کی گئی بانی پاکستان کی وراثت کی دعویدار بر سر ِ اقتدار پارٹی اُس ننگ ِ وطن کے دفاع میں کھڑی ہے جو اُس کی ماں دھرتی کا چہرہ مسخ کر رہی ہے۔
Farooq Sattar
شرم و غیرت کی رمق کے عدم نے حب الوطنی جیسا عنصر چھین لیا ہے حکمران طبقہ میں کہیں دکھاوے کی ندامت تک موجود نہیں شہر قائد میں ایک ننگ ِ وطن کے پوسٹرز جن پر یہ نعرہ نظر آرہا ہے کہ ”قائد کا جو غدار ہے موت کا حق دار ہے ”یہ الفاظ بھی فاروق ستار جیسے افراد کی ہی کارستانی ہے ،جن روز پاک دھرتی کے خلاف ان کی غلیظ زبانیں شعلے اُگل رہی تھیں اُس سے ایک روز قبل امریکی سفیر سے فاروق ستار اور نسرین جلیل کی ملاقات کو کیا رنگ دیا جائے وطن عزیز کے خلاف نعرے بازی ایک ذہنی اختراع تھی جس کا منصوبہ لندن کے ریجنالڈ نے مرتب کیا اور عملی جامہ فاروق ستار ،خواجہ اسلام کی سرپرستی میں پہنایا گیا۔
میئر منتخب ہونے کے بعد کیا وہی رعونت نہیں جھلکتی دیکھی جس کی زبان درازی ہمارے محب وطن عسکری اداروں پر ان الفاظ میں برسی کہ ”آپ کی جرات ہے تو مشرف پر ہاتھ ڈال کر دکھائیں ”زخمی سانپ دوبارہ ڈسنے کیلئے سر اُٹھائے تو اُس کا سر کچل دیا جاتا ہے مگر ہم نے اُس سانپ کو میئر منتخب کرادیا 11ستمبر 2012کے روز اپنے گھروں کی دہلیز پار کرنے والوں کی جلی ہوئی لاشیں وصول کرنے والی مائوں کے چہروں پر سانحہ پشاور کی طرح ان گنت سوالات آج بھی انسانیت کا درد رکھنے والوں کو بے کل کر دیتے ہیں ایک فیکٹری کی چمنی زندہ انسانوں کے لہو کو دھوئیں میں بدلتی رہی اور زرداری کی سفاک حکمرانی خاموشی کی قبا پہن کر ان مائوں کے جذبات کا مذاق اُڑاتی رہی قانون کی عمل داری مجرموں کی شناخت کے باوجود میں عمل میں نہ آ سکی۔
کیا عوام 12مئی2007کے سانحہ کو بھول گئے ہیں جس روز وسیم اختر کی سر پرستی میں لاشیں گرتی رہیں اور آج اُس کی مجرمانہ میئر شپ کو جواز بخشنے کیلئے تقریب حلف برداری میں ناداستہ طور پر ”پاکستان زندہ باد ”کے نعرے لگوا کر ایک نئے ڈرامے کی بنیاد رکھی جارہی ہے پاک سرزمین پارٹی کے انیس احمد ایڈوو کیٹ کے اس موقف کی نفی نہیں کی جاسکتی پاکستان زندہ باد کے نعرے کو پاکستانی عوام کی طرف سے شرف قبولیت تب ملے گا جب الطاف حسین غدار ہے کا نعرہ ایم کیو ایم کے لبوں پر ہو گا۔
MQM
فاروق ستار کا یہ کہنا کہ ایم کیو ایم میرے نام پر رجسٹرڈ ہے کیا خود فاروق ستار کا اعتراف جرم نہیں ؟کیا فاروق ستار جیسے غنڈے نے دانستہ اپنی جماعت کی راسیں ایک ایسے شخص کے ہاتھوں میں تھمادیںجس نے اس جماعت کے پلیٹ فارم سے غنڈے پال کر شہر قائد میں 12ہزار بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اُتارا اگر ایم کیو ایم فاروق ستار کے نام پر رجسٹرڈ ہے تو فاروق ستار الطاف سے بڑا مجرم ہے۔
کیا ہم بطور پاکستانی شہری یہ کہنے میں حق بجانب نہیں کہ ہم قانون کی دوہری ہتھکڑی میں جکڑے ہوئے ہیں جہاں اقتدار کی طاقت اور برسر ِ اقتدار طبقہ کی پسند ناپسند قانون ہے نیو یارک ٹائمز کی من گھڑت اور جھوٹی سٹوری پر ایک محب ِ وطن ٹی وی چینل ”بول ٹی وی ”کے خلاف بغیر کسی ثبوت کے اسی پسند ناپسند کے تحت کارروائی ہوئی۔
کیا چوہدری نثار اور اُس کے شراکت داروں کا قانون اتنی عجلت میں اُس ننگ ِ وطن طبقہ کے خلاف حرکت میں آیا جسٍٍ کی سرپرستی میں پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے گئے ؟اور تو اور محمود خان اچکزئی ایک ننگ ِ وطن کے کہے گئے الفاظ تک حذف نہیں کئے گئے نہال ہاشمی جیسے بوڑھے حواری کے الفاظ خود اُس کا مضحکہ اُڑانے کے مترادف نہیں کہ نواز شریف نے کراچی میں امن قائم کیا ؟رینجر کے کریڈٹ کو اپنے سر لینے کی ناکام خواہش شریفوں کے حواریوں کے اذہان میں خناس کی طرح سمائی ہے۔