تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی میرے سامنے ایک انتہائی پڑھا لکھا شخص بلک بلک کر رو رہا تھا، اور میں ہمدردی شفقت بھری نظروں سے اُس کو دیکھ رہا تھا، اُس کا دکھ جان کر میرا کلیجہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا تھا، میرا بس نہیں چل رہا تھا، کس طرح اِس معصوم نیک سادہ بے بس دکھی انسان کا درد ختم کرسکوں، اِس کے زخم پر مرہم رکھ سکوں اِس کے دکھ کامداوا بن سکوں اُس کے اند ر کا کرب مسلسل اُس کی آنکھوں سے سیلاب کی طرح بہہ رہا تھا، وہ بے بسی لا چارگی کی تصویر بنا پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا، اُس کو جس جرم کی سزا دی گئی تھی، اُس میں اُس کا کوئی بھی گناہ یا غلطی نہیں تھی، اُس کو ناکردہ جرم کی سزا دی جا رہی تھی، اُس کے ساتھ جو سلوک کیا گیا تھا، وہ اِس کا بلکل بھی مستحق نہیں تھا، وہ اپنا یہ درد کرب کسی کو بتا بھی نہیں سکتا تھا، اُس پر جو الزام یا جرم عائد کیا گیا تھا، اُس کا یہ سزاوار نہیں تھا، اُس کو سزا دینے والے کا سوچ کر میرا جسم بھی غصے کی آنچ سے سلگ رہا تھا، کسی زندہ جیتے جاگتے انسان کی اِسطرح بے توقیری ‘اِس طرح تو جانور بھی نہیں کرتے اپنی اِس بے عزتی پر وہ مسلسل پگھل رہا تھا، کئی دنوں سے کانٹوں پر چل رہا تھا۔
اُس کارواں رواں سلگ رہا تھا، کٹ رہا تھا، وہ بار بار ایک ہی بات کر رہا تھا، کہ سر میرا قصور کیا ہے، میرا جرم مجھے بتایا جاتا اور جو الزام مُجھ پر لگایا گیا ہے، اُس کو میں کیسے سدھاروں ‘کاش میں خدا سے مل سکتا، اُس کے سامنے اپنی شکایت رکھ سکتا، خدا کو اپنا حال دل بتا سکتا، خالق کائنات سے شکو ہ کرتا، کہ مجھے انسان کی بجائے جانور ہی بنا دیتا، تاکہ میں عزت بھرم کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکتا، کوئی مجھے اِسطرح ذلیل و رسوا نہ کرتا میرا لوگوں کے سامنے تماشہ نہ بتاتا، مجھے عمر بھر کا روگ نہ لگاتا، شدت کرب سے اُس کا جسم لرز رہا تھا، میں بار بار اُس کو حوصلہ دے رہا تھا، لیکن اُس کو حوصلہ دیتے ہوئے میرے الفاظ بھی مجھے کھو کھلے لگ رہے تھے، میں بھی بے بسی سے اُس کو دیکھ رہا تھا، میں بھی اُس کی طرح بے بسی کی آخری حدوں پر تھا، ‘تقریبا 40 سالہ یہ شخص مُجھ سے ملنے کے لیے آیا تھا، میں حسب معمول لوگوں میں گھرا ہوا تھا یہ مثالی صبر و تحمل سے انتظار کرتا، رہا شاید یہ علیحدگی میں بات کرنا چاہتا تھا، یا کسی کے سامنے اپنا حال دل نہیں سنانا چاہتا تھا، جب اِس کو بیٹھے ہوئے کافی دیر ہوگئی، تو میں نے اشارے سے اِس کو پاس بلایا، جب یہ چل کر میری طر ف آرہا تھا، تو میں نے محسوس کیا، کہ یہ تھورا لنگڑا کر چل رہا ہے، شاید اِس کی ٹانگ میں کوئی مسئلہ تھا، یہ شخص میرے پاس آیا اور کاغذ کی ایک چٹ میری طرف بڑھا دی، جس پر لکھا تھا، سر میں آپ سے الگ ملاقات کرنا چاہتا ہوں، میں اٹھا اور اِس کے ساتھ باہر جا کر بینچ پر بیٹھ گیا، اور سوالیہ نظروں سے اُسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا، کہ جناب فرمائیں میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں، میرے پوچھنے پر وہ درد ناک لہجے میں بولنا شروع ہوا، جناب میں نے پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے، پڑھا لکھا انسان ہوں چند سال پہلے معروف کاروباری چین میں میری نوکری ہوئی، میری اعلی تعلیم اور بھر پور محنت رنگ لائی اور چند ہی سالوں میں ترقی کرتا ہوا، میں اہم بڑی پوسٹ پر آگیا۔
بچپن میں پولیو کا میں شکار ہوا، اُس مرض کی وجہ سے میری ایک ٹانگ میں کمزوری آگئی، جس کی وجہ سے مجھے چلنے میں تھوڑی مشکل آتی ہے، اِس لیے میں تھوڑا لنگڑا کر چلتا ہوں، میں نے کبھی بھی اپنی اِس معذوری کو رکاوٹ نہیں بننے دیا، بلکہ عام انسانوں کی نسبت دوگنا کام کرکے بہترین نتا ئج دئیے، میری ان تھک محنت سے سیٹھوں کا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا گیا، کاوربار کی بے پناہ ترقی اور دولت کے بے پناہ اضافے نے مالک کو مغرور بنا دیا، اور پھر کاروبار کی کامیابیاں سیٹھ کے دماغ پر نشہ پر چڑھ گئیں، اور سیٹھ غرور میں مبتلا ہوگیا، غرور ایسی بیماری ہے، ایسا نشہ ہے جو ترشی کی بہت سے بڑی مقدار کے بعد بھی کم یہی اترنا ہے، ایسا شخص خود کو عقل کل اور مالک مطلق سمجھنا شروع کر دیتا ہے، اورپھر یہ مشت غبار ہوائوں کو روکنے اور سورج کو بجھنے کا حکم دینا شروع کر دیتا ہے، خود کو سب سے برتر دوسروں کو کیڑے مکوڑے سمجھنا شروع کر دیتا ہے، یہی حال میرے مالک کا بھی ہوا، پہلے تو وہ بہت خوشی سے مجھے کاورباری میٹنگوں میں لے جایا کرتا تھا، اب اُس نے ایکدن مجھے بلایا، اور کہا کہ میں ملک کا بہت اہم انسان بن چکا ہوں، میرے تعلقات اور ملاقاتیں با اثر بڑے لوگوں سے ہوتی ہیں، تم میرے ساتھ جاتے آتے کھڑے ہوتے اچھے نہیں لگتے، میری توہین ہوتی ہے، جب تم میرے ساتھ چلتے ہو یا کھڑے ہوتے ہو، اب تم اپنی نوکری کسی اور جگہ کر لو، میں اب تمہیں اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا، مجھے شرمندگی ہوتی ہے، تمہاری شکل بھی عام سی ہے، تمہارا رنگ بھی سانولا ہے، تم اچھی طرح چل بھی نہیں سکتے، اب میرے پاس تمہارے رزق کے تمام دروازے بند ہوگئے ہیں۔
جب میں نے بولنے کی کوشش کی تو سیٹھ صاحب کو غصہ آگیا، مجھ کو ذلیل و رسوا کرکے دفتر سے دفع ہو جانے، کا حکم صادر کر دیا، اور گیٹ پر میرے داخلے پر پا بندی لگا دی، سر سیٹھ کے اِس ظالمانہ رویے نے مجھے اندر سے توڑ کر رکھ دیا، اب میں اِس ملک میں نوکری نہیں کروں گا، یورپ چلا جائوں گا، جہاں میری معذوری کو طعنہ نہیں بنایا جائے گا، اور پھر یہ بیچاہ چند مہینوں بعد ہی ملک چھوڑ کر چلا گیا، محترم قارئیں یہ بے بس مظلوم شخص تو اپنی داستان غم مجھے سنا کر چلا، لیکن میرے لیے سوچ کی لمبی لکیر چھوڑ گیا کہ ہمارا معاشرہ کس بانجھ پن کاشکار ہوگیا ہے، جہاں ٹیلنٹ کی بجائے شکل و صورت پر توجہ دی جاتی ہے، میں نے اُس سیٹھ صاحب کا نام اپنے حافظے میں نوٹ کرلیا، اور پھر خدا کی لاٹھی حرکت میں آنے کا انتظار کرنے لگا، اور پھر ہمیشہ کی طرح عادل خالق کائنات نے مجھے اِس ظالم سیٹھ کا انجام بھی دکھا دیا۔
اُس واقع کے چند سال بعد ہی میرے پاس ایک نوجوان امیر زادہ آکر کہتا ہے، کہ جناب میرے والد صاحب اپنی نئی نویلی دوسری دلہن کے ساتھ گلگت جا رہے تھے، راستے میں حادثے کاشکار ہو، کر دریا میں جاگرے ہم ایک ماہ سے اُن کی لاش ڈھونڈ رہے ہیں، جب اُس نے اپنے والد کا نام بتایا، تو میرے دماغ میں روشنی کا جھماکا سا ہوا، اور مجھے وہی سیٹھ یاد آگیا، جس نے ایک باصلاحیت اور معذور انسان کو نوکری سے نکال دیا تھا، قدرت نے جس طرح فرعون کو دریائے نیل میں شکر کیڈلی کی طرح گھول دیا، یہ سیٹھ بھی بے یارو مددگار پانی کی موجوں میں بکھر گیا، اُس کے جسم کو مچھلیوں اور چیلوں نے اُدھیڑ دیا ہوگا، جو اپنے جسم پر دولت پر اتراتا تھا، قدرت نے اُس کو قبر بھی نصیب نہ کی، بلکہ اُس کے جسم کو جانوروں کے حوالے کر دیا، جنہوں نے اُس کے جسم کی بوٹیاں اپنے نظام ہضم سے گزار کر غلاظت میں تبدیل کر دیں، دولت کے نشے میں دھت یہ لوگ بھول جاتے ہیں، کہ جن کے دروازوں پر کبھی ہاتھی جھولتے تھے، اُن کی لاشیں انہی ہاتھیوں کے پائوں تلے روندی بھی گئیں۔