تحریر : ڈاکٹر خالد حسین جیسے جیسے سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کے حوالہ سے کیس آگے بڑھ رہا ہے ویسے ویسے حکومتی بوکھلاہٹ بڑھتی جا رہی ہے حکومتی ترجمان بظاہر تو مطمئن نظر آرہے ہیں لیکن ان کے دلائل میں وزن نظر نہیں آتا ہے اور اب تو حکومتی ترجمان دھونس دھمکیوں پر بھی اتر آئے ہیں اسی طرح تحریک انصاف کے ترجمان بھی عدالتی کاروائی سے کافی خوش دکھائی دے رہے ہیں اب تک کی کاروائی میں اپنی فتح کو دیکھ رہے ہیں سجاد علی شاہ کیس میں جب اسی طرح کا مرحلہ آیا تھا اور بظاہر حکومت مطمئن تھی لیکن آنے والے وقت کیلئے وہ با الکل تیاری کر رہی تھی اس نے اپنے اقدامات بھی کرناشروع کر دیئے تھے، موٹر وے کا افتتاح بھی تقریبا 3 ماہ پہلے کر دیا تھا، پے درپے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا جانے لگا۔ موجودہ صورتحال میں بھی کچھ ایسا ہی ماحول بنتا جارہا ہے اربوں روپوں کی سبسڈی کاشتکاروں کے نام۔ سکول کے بچوں کیلئے بسوں کی فراہمی، خدمت کارڈ کا اجرائ،نئے ہسپتالوں کی تعمیر، چار سال بعد یکدم ایم این اے ، ایم پی ایز کی بھی لاٹری نکل آئی جس نے جو کہا ا ا لہ دین کے چراغ کی طرح پورا کیا جا رہا ہے۔نئے وزراء کی ایک فوج ایوان بالا اور ایوان زیریں میں قدم رنجہ فرما چکی ہے درج بالا اقدامات اس چیز کو واضح کر تے ہیں کہ دال اگر ساری نہیں تو کچھ کچھ کالا ضرور ہے۔ رہی سہی کسر بی بی سی کی رپورٹ نے پوری کر دی ہے، بی بی سی کی رپورٹ نے پانامہ لیکس کے معاملہ کو ایک نیا رخ اور وزیر اعظم کے خلاف ایک اور چارج شیٹ پی ٹی آئی کے ہاتھ میں تھما دی ہے۔
حکومتی ترجمان اور حسن حسین کی بیانات بھی کسی سے پیچھے نہیں حسین نواز کے بیان میں سے ایک بات کو بڑا اچھالا جا رہا ہے کہ انہوں نے کہا کہہ ہماری ان جائیدادوں کے علاوہ ایک اور گھر بھی ہے جس کی ٹرسٹی ان کی والدہ محترمہ کلثوم نواز ہیں جبکہ میاں نوازشریف، محترمہ کلثوم نواز نے کسی بھی الیکشن میں اپنی اس جائیداد کو گوشواروں میں شو نہیں کیا۔جس سے ان کی پریشانی میں مزید اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے اور حالات حکومت کے حق میں دکھائی نہیں دے رہے . کتنے افسوس کی بات ہے کہ حکومتی وکیل یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نے نہ تو جھوٹ بولااورنہ ہی غلط بیانی یا کوئی چیز چھپائی اور اب استشنیٰ مانگا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم پر جرح نہیں ہو سکتی ان سے کوئی بات پوچھی نہیں جاسکتی توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے کچھ نہیں کیا تو پھر استشنی ٰ کیوں ؟ حکومتی ایوانوں میں ایک بات اب بڑی شدت سے ابھر رہی ہے کہ آئین کی شق 62-63 کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے کیونکہ اصل فساد کی جڑ صرف یہی شق بن رہی ہے اس ضمن میں وہ یہ دلیل دیتے دکھائی دے رہے ہیں کہ جب عوام ایم این ایز اور ایم پی ایز کو بھاری ووٹوں سے منتخب کر کے ایوان میں بھیجتے ہیں تو پھر اس آئینی شق کے اطلاق کا کوئی جواز نہیں رہتا عوام ہی ہمارے لئے 62-63 ہیں۔ اندرون خانہ بڑی تیزی سے 62-63 پر مسلم لیگ نواز اور اس کے اتحادی ایک صفحہ پر آتے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ انہیں واضح نظر آرہا ہے کہ عمران خان کسی طور ان کے قابو نہیں آئے گا آئین کی اس شق پر عمل کروا کے ان کے چھٹی کا باعث بنے گا لہٰذا تحریک انصاف کے خاتمہ کیلئے ان کا اتحاد بہت ضروری ہے۔
اگر اب بھی انہوں نے نا اتفاقی دکھائی تو پھر آئندہ الیکشن کا منظر نامہ کچھ اور ہو گا لہٰذا قومی اسمبلی اور سینٹ کی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آئین میں ترمیم کی جائے اور فساد کی اصل جڑ 62-63 اور تحریک انصاف کا خاتمہ کرکے نا رہے بانس اور نہ رہے بانسری کے معقولہ پر عمل کردکھا یا جائے۔اس ضمن میں دوسری تجویز دو پارٹی سسٹم کا اطلاق بھی بڑی شدت سے ابھر رہا ہے تاکہ عمران کا راستہ روکا جا سکے موجودہ الیکشن میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہوئے مضبوط حلقوں سے متعلقہ امیدواروں کو کامیاب کروائیں گے اور ن لیگ کی پوری کوشش ہو گی کہ ان کے بعد دوسرے نمبر پر پاکستان پیپلز پارٹی آئے تا کہ ملک میں دوجماعتی نظام کا نفاذ کر کے فساد کی جڑ تحریک انصاف کو نیست نابود کیا جا سکے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف اور 62-63 کے خاتمہ کے علاوہ ان کے پاس اپنے بچائو کا کوئی دوسرا راستہ دکھائی نہیں دے رہا اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھران کا اپنا خاتمہ ہو جائے گا۔
Nawaz Sharif Family
سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ شریف برادران کے درمیان اپنی اولاد کی وجہ سے سرد جنگ جاری ہے جس کی مثال کچھ اس طرح سے دی جارہی ہے کہ جب سے پانامہ لیکس کا معاملہ شروع ہوا ہے اس وقت سے لیکر ابتک شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی حکومت کے حق میں کوئی سٹیٹمنٹ نہیں وہ مکمل طور پر اس سے قطع تعلق نظر آرہے ہیںہاں اگر انہوں نے کوئی بیان دیا ہے تو صرف اتنا کہ شہباز شریف فیملی کے کسی فرد کا نام اس میں نہیں۔ ویسے میں ان اختلافات کا آغاز اب نہیں بلکہ نوازشریف کی جلاوطنی کے وقت سے دیکھ رہا ہوں کیونکہ میاں نوازشریف اور کلثوم نواز نے شہباز شریف کو زبردستی جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور کیا تھا اور اس جلاوطنی کیلئے شہباز شریف پر دبائو میاں نوازشریف سے زیادہ محترمہ کلثوم نواز کا زیادہ تھا اور اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ اگر شہباز شریف یہاں رہے تو وہ ہیرو بن جائیں گے۔
ویسے اس وقت کے آرمی چیف بھی میاں شہباز شریف کے ملک میں رہنے کے خواہش مند تھے لیکن محترمہ کلثوم نواز کے آگے شہباز شریف کی ضد کام نہ آئی۔جلاوطنی کے بعد میاں نواز شریف نے جاوید ہاشمی کو پارٹی کی کمان سنبھالی اور اس نے پارٹی وفاداری کا حق ادا کر دیا، پابند سلاسل رہے جب آزادی ملی تو ایسی عوامی پزیرائی ملی کہ جلاوطنی اختیار کئے شریف برادران کے محلوں میں خوف کی فضا پروان چڑھ گئی کہ ہاشمی تو ہیرو بن گیااور پھر جاوید ہاشمی کا بڑے میاں نے جو حشرکیا وہ سب جانتے ہیں۔
اقتدار کانشہ اور حکمرانی نے اپنوں کے سر قلم کروا دیئے۔ اب دیکھئے حمزہ شہباز کو میڈیا سیل کا کرتا دھرتا بنایا جانا تھا اور بڑے میاں صاحب کے مطابق اس سلسلہ میںمحترمہ مریم نواز کا کوئی کردار نہ ہوگا لیکن وقت نے دیکھا کہ محترمہ مریم نواز کو ہی میڈیا سیل کا انچارج بنایا گیا اور حمزہ شہباز خاموشی سے سب کچھ چھوڑ کر واپس چلے گئے، کس کس موقع پر شہباز شریف اور اس کی فیملی نے قربانی نہیں دی،محبت اور وفادار ی کی انتہا کر دی لیکن اب ان کی فیملی میں بھی سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا ہر بار قربانی صرف شہباز شریف فیملی نے ہی دینی ہے ۔میئرز کے معاملہ پر بھی دونوں بھائی ایک پوائنٹ پر نہیں خواجہ احمد حسان کی بطور میئر تعیناتی کا معاملہ بھی سیاستدانوں کے سامنے ہے۔
Dr.Khalid Hussain
تحریر : ڈاکٹر خالد حسین صدر پریس کلب حویلی لکھا ضلع اوکاڑہ khalidokr@gmail.com 0333-0345-6974000