کیا دنیا میں کوئی ایسا انسان ہے جو غلطیوں سے مبرا ہو؟کیا روئے زمین پر کوئی ایسا متنفس موجودہے جس کے نامہِ اعمال میں بلنڈر ز نہ ہوں ، کو تاہیاں نہ ہوں اور جس نے حماقتیں نہ کی ہوں ؟جس نے خطائیں نہ کی ہوں اور جس نے بیوقوفیاں نہ کی ہوں؟؟فاش غلطیاںہی انسان کا طرہِ امتیاز ہیں۔شائد اسی لئے کہا جاتا ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔سیاسی غلطیاں،معاشر تی غلطیاں، فکری غلطیاں،استدلالی غلطیاں اور پھر سب سے بڑھ کر نظریاتی غلطیاں۔ کبھی کجی کو سچ اور سچ کو کجی بنا کر پیش کرنے کی غلطیاں، کبھی دانا دشمن پر خنجر آزمائی کی غلطیاں،کبھی باطل کو حق اور کبھی حق کو باطل بنانے کی غلطیاں اور کبھی اپنے مخالفین کا نام صفحہِ ہستی سے مٹا دینے کی غلطیاں۔حرص و ہوس سے مغلوب انسان کی اپنے اقتدار کی طوالت کی خاطر کشت و خون کی غلطیاں ۔وہ غلطیوں پر غلطیاں کرتا چلا جا تا ہے جس سے کاروانِ انسایت لہو لہان ہو جاتا ہے لیکن ایک دن اسے احساس ہو تا ہے کہ اس نے جو کچھ کیا تھا وہ سب انتقام اور انا کی تسکین کیلئے کیا تھالہذا وہ انتقام اور انانیت سے دستبردار ہو کر حق اور سچ کا علم تھام لیتا ہے۔ بس یہی ایک لمحہ اس کی ساری حیاتی کو بدل دیتا ہے اور وہ ایک نئے انسان کے روپ میں جلوہ گر ہو جاتا ہے۔
انسانیت کا سچا ہمدرد اور آزادیوں کا علمبردار۔اکرمنا بنی آدم اس کی ساری سوچ کا محور بنتا ہے جس کیلئے وہ کسی مصلحت کو قریب نہیں پھٹکنے دیتا ۔ انسانوں پر ایسی کیفیت ان کی داخلی دنیا کے بدل جانے سے جنم لیتی ہے اور ایسا کبھی کبھارہوتا ہے کیونکہ اقتدار کی چاہت میں دل کی دنیا کو بدلنا اتنا آسان نہیں ہوتا ۔اتنی بڑی تبدیلی کے بعد اب وہ ایک ایسا انسان بن کر سامنے آتا ہے جو ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر پوری انسانیت کے درد کو اپنے دل میں محسوس کرتا اور معاشرے کو بدل دینے کیلئے نکل کھڑا ہو تا ہے۔کسی نے ایک دفعہ امریکی صدر سے پوچھا تھا کہ آپ نے اتنی جلدی ایسی حیرت انگیز ترقی کیسے کی تو اس کا جواب تھا غلطیوں سے سبق سیکھ کر۔ حضرت عیسی علیہ السلام نے اسی لئے کہا تھا کہ مجھے پہلا پتھر مارنے کی جسارت وہ کرے جس نے خودکبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو ۔
جرم و گناہ ازل سے انسان کے ساتھ جڑا ہوا ہے تبھی تو اس کی سزا رکھی گئی ہے تا کہ معاشرے میں دنگا فساد اور بگاڑ پیدا نہ ہو۔اگر ایسا نہ کیا جاتا تو روئے زمین گناہوں سے اس طرح آلودہ ہو جاتی کہ سانس لینا دشوار ہو جاتا اور انسان انسان کا جینا دوبھر کردیتا۔ یہ تو انصاف و قانون کی قوت ہے جو اسے جرم و گناہ سے روکتی ہے ۔ لیکن جب انصاف کا دن دھاڑے خون ہو جاتا ہے اور اور ظلم و جبر حد سے بڑھ جاتا ہے تو معاشرہ میں نا ہمواریاں اور بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے جس سے انسانیت بلبلا اٹھتی ہے تو یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب الغ نظر انسان اپنے دامن کو ہر قسم کی الائشوں سے بچاتے ہوئے اپنے مشاہدات اور تجربات سے راہِ حیات پر اپنے ہدف کا تعین کرتا ہے لیکن ایک دفعہ جب وہ اپنا ہدف مقرر کر لیتاہے تو تب اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ کتنی بڑی دولت سے سرفراز ہو گیا ہے۔زمانے کے آلام و مصائب اور اس کی سختیاں پھر اس کے پائوں کی زنجیر نہیں بنتیں۔وہ ہر دیوار کو گراتا اور ہر رکاوٹ کو عبور کرتا اس منزل کی جانب کشاں کشاں بڑھتا چلا جاتا ہے جس کا اس نے تعین کر رکھا ہو تا ہے ۔عظیم ہیں وہ لوگ جو کوئی ہدف قائم کرتے ہیں اور پھر اس کے حصول میں جٹ جاتے ہیںوگرنہ اربوں لوگ بغیر کسی ہدف کے اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں اور پھر کوئی ان کا نام لیوا نہیں ہوتا ۔یہ ضروری نہیں ہوتا کہ کسی انسان کا طے کردہ ہدف اس کی حیات میں ہی کامیابی سے ہمکنار ہو جائے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس کی جدو جہد آنے والے زمانوں پر محیط ہوتی ہے۔ہر کوئی نیلسن منڈیلا اور امام خمینی نہیں ہوتا کہ جو کچھ سوچا اسے پا کر دم لیا۔،۔
ذولفقار علی بھٹو کا ہدف پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا قیام تھا۔آئین و قانون کی بالا دستی اور ووٹ کی عزت اس کی بے مثال قربانی کا نقطہ ماسکہ تھا لیکن اسی نعرے کے جرم کی پاداش میں اسے سرِ دار کھینچ دیا گیا۔کتنا بڑا ظلم تھا جو اس کے ساتھ روا رکھا گیا تھا۔اسے کیا خبر تھی کہ اس کی شہادت کے ٹھیک ٣٩ سال بعد اسی سے ملتی جلتی آوازیں پاکستان میں ایک بار پھر اٹھیں گی اور پاکستان کے درو دیوار کو نئے رنگ سے آشنا کر جائیں گی۔کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے مضبوط گڑھ پنجاب میں حقیقی جمہوریت کے نعرے گونجیں گے اور طاقت کے سارے مراکز اس آواز سے دہل جائیں گے۔ نعرہ زن لوگوں کو اس نعرے کی پاداش میں پسِ زندان پھینک دیا جائیگا لیکن وہ ڈر اور خوف سے بالا تر ہوجائیں گے۔سچ تو یہ ہے کہ ذولفقار علی بھٹو کی قربانی آنے والے زمانوں کے لئے تھی،یہ مستقبل کی تصویر کشی تھی،یہ نئے دور کی نوید تھی ۔ کتنے لوگ ہیں جو مستقبل کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟کتنے لوگ ہیںجو اس بات کی سمجھ بوجھ اور ادراک رکھتے ہیں کہ مستقبل میں کس سوچ،فکراور نعرے کا راج ہو گا؟نابغہ روزگار وقت کے دھارے میں مستقبل کی مکمل تصویر دیکھ لیتے ہیں لیکن ان کے ہم عصر ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔وہ اقتدار کے حصول کو کامیابی سمجھ رہے ہوتے ہیں جبکہ نابغہ کیلئے اقتدار کی مسند کسی پڑائو سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ۔وہ انسان دوستی ،جمہوریت، آزادی،حریتِ فکر اور تکریم ِ انسانی کے سحر کا اسیر ہوتاہے جس میں اقتدار ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔
اس کی آواز دلوں کو چھوتی ہے لیکن وقت کا دھارا شائد اس کی آواز کا متحمل نہیں ہو تا لہذا وہ جان پر کھیل کر اپنے ہدف کی اہمیت کو واضح کر جاتا ہے۔وہ اپنی صدا کو آنے والے کل پر چھوڑ دیتا ہے کیونکہ اسے یقین ہو تا ہے کہ وہ جس بات کا علم تھامے ہوئے ہے اسے سچ ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا ۔یہ ایک ایسی شمع کی داستا ن ہے جو ہاتھ تو بدلتی ہے لیکن جس کی لو کبھی مدھم نہیں ہوتی ۔اس سارے منظر کو دل کی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے اور روح کی تڑپ سے محسوس کیا جا تا ہے ۔ احساس کا جذبہ ماند پڑ جائے تو انسان کچھ بھی دیکھنے سے محروم ہو جاتا ہے اور اسے اپنی ذات کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔وہ خود نمائی اور خود ستائی کے حصار میں قید ہو جاتا ہے جو ملک و ملت اور قوم کیلئے زہرِ قاتل سے کم نہیں ہوتا۔،۔ ١٣ جولائی ٢٠١٨ اس روشن شمع کو جوان ہاتھوں میں تھامنے کی پر اثر داستان ہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ایک اور نہتی لڑکی اس شمع کی حقیقی وارث بن کر سامنے آئی ہے۔ذولفقار علی بھٹو کاوہ نعرہ مستانہ جس کی پاداش میں اسے سرِ دار کھینچ دیا گیا تھا ایک دن اسی نہتی لڑکی کے ہاتھوں شرمندہِ تعبیر ہو گا۔پی پی پی جو اس نظریے کی حقیقی وارث تھی آج کل وقتی مصلحتوں کا شکار ہو چکی ہے۔
وہ اقتدار کا کھیل کھیل رہی ہے اور اس نظریے سے جو پی پی پی کی بقا اور اس کے وجود کا مسئلہ ہے اس سے بہت دور چلی گئی ہے۔اس میں نہ تو بی بی شہید کی للکار ہے اورنہ ہی ذولفقار علی بھٹو کی جرات ہے بلکہ یہ سمجھوتوں اور مصلحتوں کی پروردہ ہے ۔ شائد بے شمار قربانیوں نے اس سے اظہار کی وہ قوت سلب کر لی ہے جو اس کا طرہِ امتیاز ہوا کرتا تھا ۔ میں جس جواں ہمت لڑکی کی بات کر رہا ہوں اس میں جوش و ولولہ ہے،اس میں ہمت ہے،اس میں جرات ہے،اس میں کر گزارنے کا جذبہ ہے۔وہ حالات کے جبر کے سامنے سرنگوں ہونے کی بجائے اس کے سامنے سینہ سپر ہونے کا حوصلہ رکھتی ہے ۔وہ ریاست کی طاقت اور عوام کی طاقت کا موازنہ کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے۔اس کی آواز میں کاٹ ہے،وہ بے خوفی کی علامت ہے ۔وہ جو محسوس کرتی ہے اسے ایسے دلکش بیانیہ میں بیان کرتی ہے کہ بات سیدھی دل میں اتر جاتی ہے۔میرے بہت سے دوست میری بات سے انکار کریں گے لیکن مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ نہتی لڑکی کے دل میں مچلنے والے جذبے اور اس کی آنکھوں میں پلنے والے خواب اتنے واضح ہیں کہ آئینی بالا دستی کے نعرے کو حقیقت بننے سے کوئی روک نہیں پائیگا۔جوبات شروع ہو گئی ہے وہ اب رکنے والی نہیں ہے۔مقتل گاہ سجا دی گئی ہے اور اس مقتل گاہ میں قربانی دینے والے بے شمار لوگ جان کی بازی لگانے کیلئے منتظر بیٹھے ہیں اور ان میں خوف نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ جب لیڈر شپ عیش و عشرت اور آرام کو تیا گ کر زندانوں کا انتخاب کر لے تو پھر تبدیلی کو کوئی روک نہیں سکتا ۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال