کیلفورنیا: خوف، بے چینی اور درد کی کیفیت میں دماغ پر جو اثرات ہوتے ہیں ان میں سے ایک منفی اثر یہ ہوتا ہے کہ خلیاتی سطح پرعملِ تنفس متاثر ہو جاتا ہے۔
سالک انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدانوں کے مطابق شدید تکلیف اور خوف و رنج میں دماغی نیٹ ورک اور عملِ تنفس میں بے ترتیبی پیدا ہوتی ہے۔ اسے سمجھ کر نہ صرف منشیات سے اموات پر قابو پانے میں مدد ملے گی بلکہ اس پورے عمل کو بھی سمجھنے میں مدد ملے گی۔
17 دسمبر کو شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دماغی جڑ (برین اسٹیم) سے عصبی خلیات کے مجموعے دماغی حصے ایمگڈالا تک جاتے ہیں جہاں ہمارا دماغ خوف اور دیگر احساسات یعنی درد اور تکلیف کی شدت کو پروسیس کرتا ہے۔ لیکن دماغ میں ہی ان کا رابطہ پری بوئزنجر کمپلیکس سے رہتا ہے جوسانس لینے کا عمل ایک ہموار سلسلے سے قائم رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے بے چینی اور تکلیف میں ہم لمبی لمبی سانسیں لینے لگتے ہیں۔
سالک انسٹی ٹیوٹ کے سنگ ہین کے مطابق پہلی مرتبہ درد اور عملِ تنفس کے درمیان تعلق سامنے آیا ہے۔ انہیں سمجھ کر درد کش دوا اور خود سانس کو بہتر بنانے والی نئی ادویہ کی راہ ہموار ہوسکے گی۔ دوسری جانب درد کش دواؤں کی نئی اقسام بھی سامنے آسکتی ہیں۔
پاکستان کو چھوڑ کر مغرب وامریکا میں درد کش ادویہ یعنی اوپیوڈز سے اموات کی شرح بہت ذیادہ ہے۔ خیا ہے کہ وہ درد کا علاج کرنے کی بجائے اسے دباتی ہیں جس سے خلیاتی سطح پر پورا نظامِ تنفس ناکام ہونے لگتا ہے۔ اس وجہ سے لوگوں کی اموات ہوجاتی ہے۔ یعنی اینزائٹی، خوف، اندیشہ اور تکلیف سب ہی پھیپھڑوں سے لے کر خلیوں تک نظامِ تنفس کو نقصان پہنچاتی ہیں۔
ماہرین نے تصدیق کے لیے چوہوں پر اس کی آزماش کی اور وہاں بھی یہی بات سامنے آئی ہے۔