تحریر : طارق حسین بٹ شان سینیٹ کے آئیندہ ماہ ہونے والے انتخابات نے پوری قوم کو اخلاقی طور پر بانجھ ثابت کر دیا ہے۔ہرطرف منڈیاں سجی ہوئی ہیں اور کھلے عام خریدو فروخت کا کلچر اپنے پورے شباب پر ہے ۔اس سے پہلے بھی سینیٹ کے انتخابات ہو تے رہے ہیں لیکن جو بھگدڑ اب کی بار مچی ہے وہ پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی جس سے مترشح ہو رہا ہے کہ قوم ہوسِ دولت میں سب کچھ بھول چکی ہے۔در اصل پی پی پی نے بلوچستان میں پیسہ سیاست کی جس غیر جمہوری اور غیر اخلاقی روش کی شروعات کی تھیں ملک کی باقی ماندہ اسمبلیاں اسی کی پیروی کرنے میں پیش پیش ہیں اور ہر کوئی اپنے حصے کا پیسہ بٹورنے میں بازی لے جانے کی فکر میں غلطان ہے۔ہر جماعت کے اندر بغاوت برپا ہے اور ممبران ِ پارلیمنٹ اپنی بولی لگوانے میں فخرمحسوس کر رہے ہیں۔وہ اقبال و قائد کے اقوال کو طاقِ نسیاں کر کے احساس فراموشی کی دنیا میں کھوئے ہوئے ہیں۔وہ بے اصولی کے گندھے کھیل میں مگن ہیں۔وہ شترِ بے مہار بنے ہوئے ہیں لہذا ان کی نظر میں نہ جماعت کی کوئی وقعت ہے اور نہ ہی لیڈر کا کوئی وقار ہے۔
ایک وقت تھا کہ ممبران اپنی جماعت سے وفا داری کو اپنا وقار سمجھتے تھے لیکن اب اپنے ووٹ کو بیچنے کو چالاکی ،ذہانت اور دانشمندی تصور کر رہے ہیں۔جب گناہ فخر بن جائے تو معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں اور قومیں اپنا وجود کھو بیٹھتی ہیں۔جب ممبرانِ پارلیمنٹ اپنا ضمیر بیچنے میں کوئی عار محسوس نہیں کریں گے تو قومی ضمیر مردہ ہو جائیگا ۔کرپشن کی داستانیں اسی لئے زبان زدہ خا ص و عام ہیں کہ سیاستدان دولت کی چمک دمک کے سامنے خود کو مجتمع نہیں رکھ پا رہے اور حصولِ دولت کی حرص میں ان راہوں پر نکل پڑے ہیں جن کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ سیاستدان جمہوریت کی مالا تو ہمہ وقت جھپتے نظر آتے ہیں لیکن ضمیر کی حفاظت میں کسی بڑے کردار کا مظاہرہ نہیں کرتے لہذا انھیں جہاں سے اپنا مفاد پورا ہوتا نظر آتا ہے وہی پرسر نگوں ہو جاتے ہیں اور اپنے سارے اصولوں کا خون کر دیتے ہیں حالانکہ جمہوریت اصولوں پر پہرہ دینا اور خود کو قانون کے سامنے جوابدہ ہونے کا درس دیتی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں موجودہ بے چینی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے سیاسی اورمذہبی راہنما ئوں کی اکثریت اعلی و ارفع اصولوں کو اپنی ذاتی زندگیوں پر لاگو نہیں کرتی جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے ۔ عوام اپنی قلبی بے صبری کی وجہ سے اپنے قائدین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے خود بھی ان راہوں پر نکل پڑے ہیں جھنیں عرفِ عام میں بد دیانتی اور بے اصولی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ کرپشن،لوٹ کھسوٹ اور حرص و طمع معاشرہ کا اجتماعی شعور بن کر سامنے آ رہا ہے جس میں ہر شخص شکائت کنندہ ہے حالانکہ وہ خود بھی انہی حرکات و سکنات اور اعمال کا سزاوار ہو رہا ہے جس کی وہ شکائت کر رہا ہے۔اس کی وجہ فقط اتنی ہے کہ ملک کی اعلی قیاد ت بے اصولی کی علامت بنی ہوئی ہے اور ان میں اعلی کردارکا جوہر عنقا ہو چکا ہے۔،۔
جب اعلی قیادت کرپٹ ہو جائے تو عوام سے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ سچ یہ ہے کہ سیاستدان ہماری سوسائیٹی کا اجتماعی ضمیر ہوتے ہیں اور عوامی رائے کا اظہار ہوتے ہیں لیکن اگر وہ بھی ضمیر فروشی کا شکار ہو جائیں تو پھر قوم کی تربیت کون کریگا؟۔قوم کو اصولوں پر پہرہ دینے کا درس کہاں سے ملے گا؟عوام کیلئے مثال کون بنے گا؟ کون انھیں سچائی کی خاطر ڈٹ جانے کا سبق پڑھائے گا؟ کون ان کو امانت و دیانت کا پیکر بن جانے کا اشارہ دیگا؟ کون ہو گا جن کے نقشِ قدم کی پیروی کرتے ہوئے وہ قوم کی خدمت کریں گے ؟ وزراء اور ممبران ِ اسمبلی قوم کا ایسا چہرہ ہیں جس کی پیروی ہم کسی نہ کسی انداز میں کرتے رہتے ہیں کیونکہ حکومت اور قانون سازی کی طاقت انہی کے پاس ہو تی ہے اور وہی قوم کا اجتماعی مزاج تشکیل دیتے ہیں لیکن اگر ان کا اپنا دامن داغدار ہو گا اور اس پر ضمیر فروشی کے چھینٹے ہوں گے تو پھر قوم کہاں کھڑی ہو گی؟ سینیٹ کے حالیہ انتخابات نے سب کچھ طشت از بام کر دیا ہے اور بڑے بڑے پارسائوں اور جگا ریوں کو ننگا کر دیا ہے۔سینیٹ کے حالیہ انتخابات میں سب سے زیادہ نقصان ایم کیو ایم کو ہورہا ہے اور سینیٹ کی ٹکٹوں کی تقسیم کو بنیاد بنا کر پارٹی میں شدید دھڑے بندی قائم ہو چکی ہے۔پارٹی قائد ڈاکٹر فاروق ستار کو کنوینیر شپ کے عہدے سے ہٹایا جا چکا ہے جسے وہ تسلیم کرنے سے مانع ہیں۔ڈاکٹر فاروق ستار ایم کیو ایم کے سینئر راہنما ہیں اور ایک طویل سیاسی جدو جہد کے حامل انسان ہیں لیکن وہ بھی اپنے ہی ساتھیوں اور بھائیوں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں کیونکہ انھوں نے سینیٹ کی چند نشستوں پر اپنے مخصوص دوستوں کو پارٹی ٹکٹ دے کر دوسروں کی دشمنی مول لے لی ہے۔
سانپ کی بل میں ہاتھ ڈالیں گے تو ڈنگ تو لگے گا۔کچھ ممبران دولت کی دیگ پر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں اور کسی کو اس کے قریب پھٹکنے نہیں دینا چاہتے لہذا جب کوئی اس دیگ کی جانب ہاتھ بڑھاتا ہے تودنگا فساد شروع ہو جاتا ہے ۔تین سالوں کے انتظار کے بعد ممبرانِ اسمبلی کی چاندی ہو گئی ہے اور انھیں کروڑوں روپے کی آمدن کا نیا مورچہ مل گیا ہے ۔گندی مچھلیاں تو ہر جگہ ہوتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اجلی ساکھ کے ایسے کئی ممبران بھی ہیں جو ہر حال میں اپنی جماعت کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔ وہ ہر قسم کی پیش کش کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیتے ہیں ۔ان کیلئے اپنی دیانت اور وفا داری کی ساکھ قائم رکھنا روپوں سے زیادہ اہم ہوتاہے لہذا وہ اپنی ذات کے سامنے دولت کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔اسٹیبلشمنٹ بھی ان انتخابات میں اپنا کھیل کھیل رہی ہے اور چاہتی ہے کہ ان انتخابات میں ان کے منظورِ نظر افراد سینیٹ میں منتخب ہو جائیں تا کہ کوئی جماعت سینیٹ میں اپنی مرضی کے قوانین منظور نہ کر واسکے۔بلوچستان میں جو کھیل کھیلا گیا ہے اس کی کئی جہتیں ہیں،اس میں کئی کردار ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کی منشاء اور مرضی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔وہ کٹھ پتلیاں ہیں جھنیں اپنے آقائوں کے اشاروں پر چلنا ہے ۔مسلم لیگ (ن) چونکہ اس وقت زیرِ عتاب ہے اس لئے قوی امکان ہے کہ اس کے ممبرا ن کو استعمال کیا جائیگا تا کہ مسلم لیگ (ن) سینیٹ کی اکثریتی جماعت نہ بن جائے۔
اس کا اکثریتی جماعت بن جانا بہت سے حلقوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے لہذا کوئی اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ یہ گھنٹی ان کے خلاف ہی بج جائے۔وہ بہت محتاط ہیں اور سب کچھ ایک طے شدہ منصوبے کے تحت سر انجام دینا چاہتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو خدشہ ہے کہ سینیٹ انتخابات کے بعد حالیہ اسمبلیوں سے کئی ایسے قوانین منظو ر کرلئے جا ئیں گے جن سے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو محدود کیا جائیگا۔اسٹیبشمنٹ ایک انجانے خوف کا شکار ہے اور اس کا خوف بر حق ہے کیونکہ میاں نواز شریف جس طرح بپھرے ہوئے ہیں ان سے کچھ بھی بعید نہیں ہے۔ان کا سارا زور عدلیہ کے خلاف صرف ہو رہا ہے اور وہ ہر صورت میں عدلیہ کے پر کاٹنا چاہتے ہیں۔ان کا بیانیہ عدلیہ پر قدغن لگائے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔وہ جس نظامِ عدل کا رونا رو رہے ہیں اس کے پسِ منظر میں عدلیہ کو ٹف ٹائم دینا شامل ہے۔وہ معزز جج صاحبان کو پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ بنانا چاہتے ہیں اور ان کی تعیناتی کا طریقہ کار بھی بدلنا چاہتے ہیں جو کہ عدلیہ کو کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے۔کسی زمانے میں پی پی پی عدلیہ کے بارے میں اسی طرح کے قوانین مدون کرنے میں بڑی سرگرم تھی لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا کہ اس نے اپنے موقف سے پسپائی اختیار کر لی اورمیاں محمد نوا ز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑا کر دیا۔پی پی پی خود بھی عدلیہ کو زیرِ پا رکھنا چاہتی ہے لیکن کسی خاص مقصد کے تناظر میں اپنے دل کی بات دل میں چھپائے ہوئے ہے۔وہ گھات لگائے بیٹھی ہوئی ہے اور کسی بھی وقت عدلیہ مخا لف قوانین کو منظور کروا کر عدلیہ سے پرانا حساب چکتا کر سکتی ہے کیونکہ عدلیہ کے ہاتھوں اس نے جس طرح کے زخم کھائے ہیں وہ بیان سے باہر ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو تو اب بھگتنا پڑ رہا ہے جبکہ پی پی پی پچھلی کئی دہائیوں سے بھگت رہی ہے اور پھر بھی قائم و دائم ہے حالانکہ اسے مٹانے کی بڑی کوششیں کی گئیں۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال