تحریر : میاں نصیر احمد بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876 کو کراچی میں پیدا ہوئے ان کے والد پونجا جناح راجکوٹ کے رہنے والے تھے اور کراچی میں چمڑے کا کاروبار کرتے تھے محمد علی جناح ابھی بچے ہی تھے کہ والد نے ان کو بمبئی کے ایک پرائمری اسکول میں داخل کرادیا یعنی بچپن ہی میں انہیں ماں باپ سے الگ رہ کر نڈر اور باہمت بننے کا موقع مل گیا اس کے بعد انہیں کراچی کے اسکول میں داخل کردیا گیا۔ سولہ سال کی عمر میں میٹرک کیا اور انگلستان بیرسٹری کی تعلیم کے لیے بھیج دیے گئے بیس سال کی عمر میں بیرسٹر بن کر واپس آئے سیاسیات میں محمد علی جناح سب سے پہلے ہندوستان کی مجلس قانون ساز کے رکن بنے، پھر مسلم لیگ میں شامل ہوئے اگرچہ جناح مسلم لیگ کے علاوہ کانگریس کے بھی حامی تھے لیکن کچھ مدت بعد ان کو محسوس ہوا کہ ہندوان کی قوم سے انصاف کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
چنانچہ انہوں نے علامہ اقبال کے مشورے سے مسلم لیگ کے جھنڈے تلے تمام مسلمانوں کو جمع کیا اور 1940 میں مسلم لیگ کے اجلاس لاہور میں پاکستان قائم کرنے کی قرارداد منظور ہوئی ہندوسان کے مسلمان جوق در جوق قائد اعظم محمد علی جناح کے مطالبہ پاکستان کی حمایت کرنے لگے1887کو آپ برطانیہ میں گراہم سپنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی میں کام سیکھنے کے لئے گئے برطانیہ جانے سے پہلے آپ کی شادی آپ کی ایک دور کی رشتہ دار ایمی بائی سے ہوئی جو کہ آپ کے برطانیہ جانے کے کچھ عرصہ بعد ہی وفات پا گئیں لندن جانے کے کچھ عرصہ بعد آپ نے ملازمت چھوڑ دی اور لنکن ان میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلہ لے لیا اور 1896 میں وہاں سے قانون کی ڈگری حاصل کی اس وقت آپ نے سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔
Quaid e Azam Advocating
انڈیا واپس آنے کے بعد آپ نے ممبئی میں وکالت شروع کی اور جلد ہی بہت نام کمایاآل انڈیا مسلم لیگ ایک اہم جماعت بن کر سیاسی افق پر ابھرنے لگی جناح صاحب نے مسلمانوں کی اس نمائندہ جماعت میں شمولیت اختیار کی جناح صاحب ہندوستان کی سیاسی اور سماجی اصلیتوں میں مذہب کی اہمیت کو جانتے ہوئے اس بات کے قائل تھے کہ ملک کی ترقی کے لئے تمام تر لوگوں کو ملک مل کر کام کرنا ہوگا اس لئے انہوں نے ہندوستان کے دو بڑی اقوان یعبی ہندو اور مسلمان دونوں کو قریب لانے کی کوشش کی جناح صاحب کی اس ہی کوشش کا نتیجہ 1916 کا معاہدہ لکھنؤ تھاقائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کے بانی تھے 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان پیش ہوا جہاں سے پاکستان کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی انیس سو انتیس میں انہوں نے موتی لال نہرو کو نہرو رپورٹ کے جواب میں اپنے مشہور چودہ نکات پیش کیے۔
جن میں برصغیر کے مسلمانوں کے مسائل کا حل تجویز کیا گیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے لندن میں گول میز کانفرنسوں میں مسلمانان ہندوستان کی نمائندگی کی تاہم کچھ عرصے کے لئے سیاست سے دلبرداشتہ ہوکر انگلستان ہی میں مقیم ہوگئے لیکن جب ہندوستان کے مسلمانوں نے انہیں اپنی قیادت کے لیے آواز دی تو وہ اس پر لبیک کہتے ہوئے وطن واپس لوٹ آئے انیس سو سینتیس میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے اور پھر قیام پاکستان تک اس عہدے پر فائز رہے 1940ء میں ان کی زیر صدارت لاہور میں تاریخی قرارداد پاکستان پیش کی گئی جس میں واشگاف الفاظ میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیامصور پاکستان علامہ اقبال کے مرد مومن کی تمام خصوصیات موجود تھیں۔
ان کا کردار بے داغ اور شخصیت بے عیب تھی،وہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے ایسے عظیم قائدتھے جنھوں نے ہمیشہ اسلامی تعلیمات کو اپنے پیش نظر رکھا اور آپ نے اپنی قوم کو بھی یہی پیغام دیا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے قرآن ایک مکمل کوڈ ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتا ہے قرآن اور اسوہ حسنہ کا اتباع ہماری نجات کی ضمانت ہے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح طویل جدوجہد کے نتیجے میں یہ مطالبہ انگریزوں نے بھی تسلیم کیا آخر چند سال بعد 14 اگست 1947 کو پاکستان قائم ہوگیا اور قائد اعظم اس کے پہلے گورنر جنرل مقرر ہوئے اور بالآخر 1947ء میں دنیا کے نقشے پر ایک نئی مسلم ریاست پاکستان کا اضافہ ہو گیا قیام پاکستان کے بعد قائداعظم، پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے وہ پاکستان کے لیے بہت کچھ کرنے کے خواہاں تھے۔
لیکن ان کی بیماری نے ان کے تعمیری منصوبوں کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دیا 1948ء میں مئی کو آپ ڈاکٹروں کے مشورہ پر کوئٹہ گئے، تاکہ وہاں ہر قسم کی فکر سے آزاد ہوکر مکمل آرام کرسکیں مگر کوئٹہ میں بھی مصروفیتوں کا سلسلہ جاری رہا آپ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرنے کے لیے کراچی آئے اور پھر کام میں لگ گئے نتیجہ یہ نکلا کہ صحت مزید گرگئی ڈاکٹروں کے مشورے پر 7جولائی کو آپ دوبارہ کوئٹہ روانہ ہوگئے 1948 بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی کا آخری سال تھا اگرچہ آپ نے اپنی سیاسی زندگی نہایت سرگرمی سے گزاری مگر آپ کی زندگی کے آخری دس سال جن میں آپ کو بڑھتی ہوئی عمر اور گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر مکمل آرام کی ضرورت تھی۔
Death Of Quaid-i-Azam
مگر آپ نے پاکستانی عوام کے مسائل کی جانب بھرپور توجہ دی اور مسلمانان پاکستان 11 ستمبر 1948ء کو اپنے اس عظیم رہنما کی قیادت سے محروم ہوگئے بابائے قوم قائداعظم محمد علی جنا ح نے فرمایامیں آپ کو مصروف عمل ہونے کی تاکید کرتا ہوں کام کام اور بس کامسکون کی خاطر ، صبر و برداشت اور انکساری کے ساتھ اپنی قوم کی سچی خدمت کرتے جائیںپا کستان کے پہلے وزیراعظم اور قائد کے دیرینہ ساتھی نواب زادہ لیاقت علی خان نے کہا تھا قائد اعظم بر گزیدہ ترین ہستیوں میں سے تھے جو کبھی کبھی پیدا ہوتی ہیں مجھے یقین ہے کہ تاریخ ان کا شمار عظیم ترین ہستیوں میں کرے گی سالہا سال کی مسلسل محنت سے قائد اعظم کی صحت بہت خراب ہوچکی تھی وہ بیماری کی حالت میں بھی اپنی بنائی ہوئی نئی مملکت کا کام نہایت محنت سے انجام دے رہے تھے۔
جس کانتیجہ یہ ہوا کہ قیام پاکستان کے صرف تیرہ مہینے بعد 11 ستمبر 1948 کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے اس معمار نے اپنی جان اپنے پیدا کرنے والے کو سونپ دی تحریک پاکستان اور وجود پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کی ذات ایک روح کا درجہ رکھتی ہے قائد اعظم آئے غلام مسلمانوں کو آزاد کرایا پاکستان بنایا مسلمانوں کے حوالہ کیا اور چلے گئے اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے مل کر کام کر یں اورجب تک یہ ملک قائم ہے کروڑوں انسان اپنے اس محسن کی یاد کو سینے سے لگائے رہیں گے بائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایاہم سب پاکستانی ہیں اور ہم میں سے کو ئی بھی سندھی بلوچی بنگالی پٹھان یا پنجابی نہیں ہے۔
ہمیں صرف اور صرف اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہونا چاہیے دیکھا جائے تو آج پاکستان مختلف مسائل کا شکار ہے جس کا واحد حل یکجہتی کا فروغ ہے یہاں پر بڑی غور طلب بات یہ ہے کہ وہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح ہی تھی جن نے اپنی قوم کے کروڑوں فرزندوں کو انگریزوں کے بعد ہندوئوں کی غلامی سے بچا کر ایک نئے اور آزاد وطن کا ایسا لازوال تحفہ دیاجو اآج دنیا کی ایک مضبوط ایٹمی قوت بن چکا ہے اور دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کیلئے عزم و ہمت کی عظیم الشان مثال بھی ہے ہمیں پاکستانی کی تعمیر و ترقی میں مل کر اہم کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ ہمارے عظیم قائد اور لاکھوں مسلمانوں کی قربانیاں را ئیگاں نہ جائیں اللہ تعالی پاکستان کی حفاظت فرمائے اور اس کو رہتی دنیا تک قائم و دائم رکھے۔