تحریر : محمد علی رانا دنیا سیاروں پر پہنچ گئی اور دوسرے گولوں کے رہائشی PKکی صورت زمین کا رخ کرنے لگے لیکن ہم لوگ جو ایک مخصوص سوچ کے دائرے میں کنویں کے مینڈک کی سی زندگی بسر کرتے ہیں انہی مباحثوں میں الجھ کر قیمتی وقت کا ضیاع کر رہے ہیں کہ ہمیں ویلنٹائن ڈے منانا چاہیے یا نہیں ؟ ،نماز اور وضو کے فرائض کا علم نہیں ، دعائے قنوت یاد نہیں ،عیدین کی نماز میں پڑوسیوں کا سہارا لیتے ہیں ،نمازِ جنازہ میں مولانا صاحب کی تکبیر پر رکوع تک چلے جاتے ہیں،نماز سے ذرا برابر بھی رغبت نہیں لیکن محلے کی مسجدوں پر تبصرے ضرور کرتے ہیں کہ یہ کِس فرقے سے تعلق رکھنے والوں کی ہے ۔ہم اگر بھولے بسرے کبھی جمعہ کی نماز بھاگ دوڑ کر پڑھ بھی لیں تو اپنے رکوع ، سجود ، قیام ، جلسے اور نیت کا ذرا بھی خیال نہیں ہوتا لیکن دوسرے نمازی پر تنقیدی نظر ضرور ہوتی ہے کہ اُس نے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھی اور اُس نے بنا چھوڑے ، فلاں نے ہاتھ ناف کے ذرا نیچے باندھے اور فلاں نے اُوپر ،کِس نے نماز میں جلدی کی اور کِس نے دکھلاوے کی خاطر لمبی کی۔
ہم نے ازدواجی حیات کو ذات پات میں الجھا کر رکھ دیا ہے مجھے کہنے دیں اگر آپ مثبت علم رکھتے ہیں اور باعمل ہیں تو اصلاح کرنا آپ کا فرض ہے ۔ بے معنی اور فضول کی بحث سے آ پ کی خود اعتمادی زنگ آلود ہو سکتی ہے کیونکہ آپ کا مدِ مقابل بھی دلائل رکھتا ہے ۔اب اگر کوئی ویلنٹائن ڈے مناتا ہے تو منانے دیں اور اگر کوئی نہیں مناتا تو نہ منائے فضول کی بحث سے کیا حاصل اور اگر آپ بھی ویلنٹائن ڈے منانا چاہتے ہیں تو مثبت انداز میں منائیں ۔14فروری کو آپ بھی گلاب کا ایک پھول لیں اور گھر جا کر اپنی والدہ کو پیش کریں ، اپنے والد ، بہن ، بھائی کو دیں کہ اِن سے حقیقی اور سچی محبت کا اظہار کریں اور اِس ویلنٹائن ڈے کو اپنے گھر والوں سے اظہارِ محبت کا دِن بنا دیں ۔ویلنٹائن ڈے کو سوئٹ ہوم ڈے میں تبدیل کردیں بس ہر بات کو مثبت انداز میں سوچیں اور مخصوص سی زندگی کے قیمتی لمحات کو فضول اور لاحاصل مباحثوں سے بچاکر رکھیں۔
اب چند باتیں ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے ویکیپیڈیا پر اِس دن کے حوالے سے کافی تفصیل ملتی ہے ۔سینٹ ویلنٹائن ایک عیسائی راہب تھا ۔ اِس سے بھی ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے کچھ باتیں جڑی ہیں ۔ اِسے عاشقوں کے تہوار کے طور پر کیوں منایا جاتا ہے ؟ اور سینٹ ویلنٹائن سے اِس کی کیا نسبت بنتی ہے ، اِس کے بارے میں بک آف نالج کا اقتباس ہے کہ ”ویلنٹائن ڈے کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ اِس کا آغاز ایک رومی تہوار لاپر کالیا کی صورت میں ہوا ۔ قدیم رومی مرد اِس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیضوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔
Happy Valentines Day
بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ بعد میں جب اِس تہوار کو سینٹ ویلنٹائن کے نام سے منایا جانے لگا تو اِس کی بعض روایات کو برقرار رکھا گیا ۔اِسے ہر اِس فرد کیلئے اہم سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقہ حیات کی تلاش میں تھا ۔سترہویں صدی کی ایک پر اُمید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اُس نے ویلنٹائن ڈے والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیے کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے اِس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند کو دیکھ سکے گی ۔بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کاسلسلہ شروع کر دیا۔ 14فروری کا یہ یومِ محبت سینٹ ویلنٹائن سے منسوب کیوں کیا جاتا ہے ؟ اِس بارے میں محمد عطا اللہ صدیقی رقم طراز ہیں ” اِس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہو ئے ۔چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع تھا۔
اِس لیے ایک دن ویلنٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کی تشفی کیلئے اسے بتایا کہ اِسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ 14فروری کا دن ایسا ہے اِس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کر لیں تو اِسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا ۔ راہبہ نے اِن پر یقین کیا اور دنوں جوشِ عشق میں یہ سب کر گزرے ۔کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اُڑانے پر اِن کا حشر وہی ہوا جو ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کر دیا گیا ۔ بعد میں کچھ منچلوں نے ویلنٹائن صاحب کو شہیدِ محبت کے درجے پر فائز کرتے ہوئے اِن کی یاد میں دن منانا شرع کر دیا۔چرچ نے اِن خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اِسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا ۔یہی وجہ ہے کہ اِس سال بھی عیسائی پادریوں نے اِس دن کی مذمت میں سخت بیانات دئیے بنکاک میں تو ایک عیسائی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دوکان کو نذرِ آتش کر دیا جِس پر ویلنٹائن کارڈز فروخت ہو رہے تھے۔
سعودیہ عرب میں مسلمان یہ تہوار نہیں مناسکتے جبکہ غیر مسلم اپنے اپنے گھروں میں منا سکتے ہیں۔ اکثر پاکستانی چینلز میں14فروری کے پروگراموں میں اِس دن کو خاص اہمیت دی جاتی ہے خاص کر کے مارننگ شوز میں جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں کہ اگر خوشی کے لمحات کو منانا ہی ہے تو اُسے مثبت انداز میں بھی بنایا جا سکتا ہے ۔ حکومتِ وقت اور میڈیا گروپ سے عاجزانہ درخواست ہے کہ اِس دن 14فروری کو ”ویلنٹائن ڈے ” کی بجائے ایک نیا نام ” سوئٹ ہوم ڈے ” دیں اور اِس دن کو تمام مسلم ممالک میں خاص گھر والوں سے اظہارِ محبت کا دن قرار دے دیا جائے یا تو پھر سرے سے مسلم ممالک میں یہ دن خاص منایا ہی نہ جائے کہ بے راہ روی کو فروغ ملے اور فحاشی پھیلے ۔ مسلم اور غیر مسلم میں کچھ تو تفریق ہونی ہی چاہیے۔