تحریر: تنویر احمد قوم ہر سال 5 فروری کو اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن مناتی ہے۔ پورا پاکستان اس موقع پر اس عزم کا اعادہ کرتا ہے کہ وہ کشمیری بھائیوں کو ان کی آزادی کی جدو جہد میں اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ان کی سیاسی، اخلاقی اور ہر طرح کی مدد جاری رکھیں گے۔ اس موقع پر پوری قوم مجاہدین کشمیر کی جدوجہد کو سلام پیش کر تی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ دن کیا محض ایک رسمی دن ہے یا اس کے تقاضے بھی ہم پورا کرنے کی سنجیدہ کوشش کرتے ہیں۔ کیا اس دن محض جلسے جلوس کرنا، دھواں دھار تقریریں کرلینا اور حکومت و اپوزیشن کی طرف سے کشمیری بھائیوں کے لئے اظہار یکجہتی کے دو لفظ کہہ لینا ہی اس دن کا تقاضا ہے یا کچھ اور بھی اس کے تقاضے ہیں۔ اس حوالے سے اگر ہم اہل کشمیر اور اہل پاکستان کی طرف دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی باہمی محبت کا بہت حد تک صحیح صحیح حق ادا کیا ہے۔
ایک طرف مجاہدین کشمیر ظالم دہشت گرد بھارتی فوج کے خلاف جان و مال کی قر بانیاں دے کر ایک تاریخ رقم کرر ہے ہیں اور ہندو بنئے کے اس گمراہ کن پرو پیگنڈے کو خاک میں ملا رہے ہیں کہ کشمیر میں عسکریت ختم ہو رہی ہے۔ ان کی قربانیوں کا اعجاز ہی تو ہے کہ بھارتی جنرل آج بھی خود کہہ رہے ہیں کہ کشمیر میں دراندازی ختم نہیں ہوسکی، بلکہ بھارتی آرمی چیف یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اصل فکر یہ لاحق ہے کہ جب امریکہ افغانستان سے چلا جائے گا تو پھر ہمارا کیا بنے گا کیونکہ پھر مجاہدین کا لا محالہ تمام تر رخ کشمیر کی طرف ہوگا۔ ان جرنیلوں کا کہنا ہے کہ اربوں روپے کی لاگت سے بنائی گئی ہماری باڑ بھی عملاً ناکام ہو چکی ہے۔ یہاں تک کہ اسرائیل سے در آمد شدہ انتہائی مہنگے بڑے بڑے ہتھیار اور جدید ترین ٹیکنالوجی سب کچھ فیل ہوچکا ہے۔ یہ تمام ہتھیار مجاہدین کا راستہ تو کیا روک پاتے، عام کشمیری مظاہرین کی جدوجہد کو بھی نہ روک سکے۔
بھارت ان بڑے بڑے ہتھیاروں سے مایوس ہوکر کشمیری مظاہرین کو کچلنے کے لئے اب ایک نیا مرچی بم لانے پر مجبور ہو گیا ہے۔ اسی طرح اب اپنی اربوں روپے کی لاگت سے لگائی گئی جدید ترین باڑ سے بھی مایوس ہوچکا ہے اور اسرائیلی طرز کی اب نئی باڑ لگانے کا نیا مہنگا ترین پروجیکٹ شروع کرنے پر مجبور ہوچکا ہے۔ اس سے دنیا پر ثابت ہوگیا کہ کشمیر میں نہ تو سیاسی تحریک بھارت دبا سکا اور نہ عسکری تحریک کو ختم کر سکا ۔ کشمیر میں عسکرت کم یا ختم نہ ہونے کی ایک اور سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ بھارت ابھی تک جموں کشمیر سے اپنا ایک فوجی بھی نکالنے کے قابل نہیں ہوسکا، وگرنہ اگر کشمیر میں عسکرت تھوڑی سی بھی کم ہوئی ہوتی تو ہندو بنیا سب سے پہلے یہاں اپنی فوجوں کی تعداد میں کمی کی کوشش کرتا کیونکہ اس طرح کے جنگی حالات میں فوجیوں کو ڈبل تنخواہ دینا پڑتی ہے۔ نارمل حالات میں ہندو بنیا ایسی ”سخاوت” کبھی بھی نہیں کر سکتا۔
Kashmir Day 5th February
غرض یہ تو اہل کشمیر ہیں جنہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ اپنی قر بانیوں اور تحریک میں کوئی کمی نہیں لارہے۔ اب دوسری طرف دیکھیں، کیا اہل پاکستان نے بھی اپنے کشمیری بھائیوں سے وفا کا حق ادا کیا ہے؟ بھارتی مظالم ہوں یا حکومت پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر کواجاگر کرنے پر حافظ سعید کو نظر بند کرکے انڈیا کو خوش کرنے کا معاملہ ؟اہل کشمیر کی یہ وہ تاریخی جدوجہد تھی جس کے نتائج نہ صرف پاکستان اور کشمیر میں ظاہر ہوئے بلکہ بھارت میں بھی اس کے زبردست نتائج آنا شروع ہو گئے 16دسمبر جو سقوط مشرقی پاکستان کا افسوس ناک دن تھا اسی دن ایک طرف امیر جماعتہ الدعوہ پر وفیسر حافظ سعید لاہور کے ناصر باغ میں ایک بہت بڑے جلسے کی قیادت کر رہے تھے تو دوسری طرف بھارتی ایوانوں میں حافظ سعید کی اس للکار پر اس قدر لرزا طاری ہوا کہ بھارتی وزیر داخلہ پارلیمنٹ میں حافظ محمد سعید کے نام سے پہلے شری (جناب)کا لفظ لگا کر حافظ صاحب کا نام لیتا رہا محترم حافظ صاحب کی شخصیت سے مرعوبیت ابھی ختم نہ ہوئی تھی کہ کچھ ماہ بعد اسی بھارتی وزیر داخلہ نے یہ سچ اگل دیا کہ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس ، مالیگائوں اور مکہ مسجد بم دھماکوں میں انتہا پسند ہندو تنظیمیں بی جے پی اور شیو سینا ملوث ہیں اور ان دہشت گردوں کے ٹریننگ کیمپ بھی چل رہے ہیں ان کے مطابق اس طرح کی دہشت گردی ہندو خود کرتے ہیں اور الزام بھارتی اقلیتوں یعنی مسلمانوں اور پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے۔
پاکستانی حکمرانوں نے کشمیر کے مسئلہ کو زندہ تو کیا کرنا تھا ، انڈین فلموں کی پاکستان میں نمائش کی اجازت دے کر اور حافظ سعید کو نظر بند کرکے بھارت کی پوری طرح تابیداری اور فرمانبرداری کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں انہوں نے اہل پاکستان اور اہل کشمیر کے جذبات کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کو خوش کرنے کے لئے کوئی کثر نہ چھوڑی ۔اس میںایک او ر کردار خود بھارت نے بھی ادا کیا جب بھارت اپنی طاقت کے نشے میں ایل او سی پر پاکستانی فوجیوں سے چھیڑ چھاڑ کر بیٹھا اور کئی پاکستانی فوجی شہید کر دئیے اس کی جارحیت کے جواب میں جب پاکستانی جوانوں نے بھی اسے دن میں تارے دکھانے شروع کئے تو اس جارحیت کا الزام بھی بھارت نے الٹا پاکستان پر لگا دیا کہ پاکستانی اس کے دو فو جیوں کا سر کاٹ پاکستان لے گئے ہیں ۔پاکستان نے جب معاملے کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرانے کی پیش کش کی تو اس بھارتی بنیا بڑا پریشان ہوا کہ اب تو لینے کے دینے پڑ گئے اب اگر وہ معاملہ اقوام متحدہ لے جاتا ہے تو اس طرح کشمیر کو وہ خود ہی بین الاقوامی مسئلہ بنائے گا اور اگر نہیں لے جاتا تو خود جھوٹا قرار پاتا ہے۔ان حالات میں پاکستانی حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ کلبھوشن یادیو اورکشمیر میں بھارتی دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر ٹھیک ٹھاک آواز بلند کریں۔ جس طرح گذشتہ روز ہمارے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ آزادی کی تحریک اور دہشت گردی کو ایک نہیں کہا جا سکتا۔
اس حوالے سے ہمارے میڈیا کا کردار بھی انتہائی افسوس ناک رہا جس کا اظہار چند دن پہلے شہر کے مقامی ہوٹل میں تحریک آزادی جموں کشمیر کے زیر اہتمام آل پارٹی کانفرنس میں ڈیرہ غازیخان پریس کلب کے صدر نے بھی کیا بھارت کی طرف سے کی جانے والی کشمیر میں دہشت گردی کے خلاف ہمارے میڈیا کو چاہیے تھا کہ وہ بھارتی دہشت گردی کو دنیا کے سامنے زیادہ سے زیادہ بے نقاب کرتا اور ان کی دہشت گردی کو نمایاں کر کے پیش کیا جاتا لیکن یہاں لگتا ہے کہ جیسے سارے ہیں دشمن کے خیر خواہ بیٹھے ہیں بھارتی حکمرانوں اور میڈیا کو پاکستا ن کے خلاف تنکا بھی مل جائے تو وہ اسے پہاڑ بنا کر پیش کرتے ہیںلیکن ہمارا میڈیااور ہمارے حکمران بھارت کے بڑے سے بڑے جرم پر بھی خود ہی مٹی پاتے نظر آتے ہیں اہل پاکستان کے لئے حکومت اور میڈیا کا یہ کردار انتہائی تشویش ناک ہے اگر حکومتی ذمہ داران اپنی اصل ذمہ داری ادا کریں گے تو خود اس کا اثر آئندہ انتخابات میں ان کے حق میں ہوگا، وگرنہ بھارت کے خلاف خاموشی سے ان کا اپنا مستقبل خراب ہو گا۔
کاش !وہ یہ نوشتئہ دیوارپڑھ لیں اور سمجھ لیں کہ پاکستان کے مفادات کے خلاف امریکہ اور بھارت کو خوش کرنے کی پالیسی اب ملک میں چلنے والی نہیں ۔مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کرکے کوئی حکومت اپنا مستقبل محفوظ نہیں کر سکتی اب بھی وقت ہے کہ حکمران اپنی پالیسیاں قومی مفادات اور امنگوں کے مطابق درست کریں کہ اسی میں ان کی بہتری ہے وگرنہ وہ خود اپنے ساتھ آپ دشمنی کے مرتکب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سوچنے ،سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)