تحریر : احسان الحق اظہر وفاقی بجٹ قریب آتے ہی عوام میں بے چینی اور خوف کی فضا ء پیدا ہو گئی ہے ،عوام بڑھتی مہنگائی اور بے روز گاری کے باعث موجودہ حکومت سے بد دل دکھائی دینے لگے ہیں ۔ پاکستان میں گزشتہ آٹھ سے دس سال سے مہنگائی کی شرح میں خطرناک اضافہ ہوا ہے ۔ ہماری سیاسی پارٹیاںآمرانہ دور میں تو جمہوریت کا رونا روتی ہیں اور جمہوریت کو مضبوط کرکے اس کے ثمرات عوام تک پہنچانے کا واویلا کرتی ہیں حالانکہ پاکستان میں جتنی بھی دیر آمرانہ دور رہا مہنگائی کی شرح میں اضافہ معمولی رہا لیکن جوں ہی ملک میں جمہوریت کا بول بالا ہوتا ہے،
سیاسی پارٹیاں اقتدار میں آتے ہی یہ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر مہنگائی کر کے عوام کو قربانی کا بکرا بنا دیتی ہیں اور ایسے میں ان کو ایک عام آدمی کی زندگی کا اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کن مشکلات میں مبتلا ہو کر زندگی بسر کرتا ہے ۔ بجٹ میں حکومتی وزیر اپنے حمایتی بااثر طبقہ کو نوازنے کے لیے مہنگائی میں اضافہ کر دیتے ہیں جس سے عام آدمی مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ جاتا ہے ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت بجٹ میں اضافی ٹیکس لگانے کی بجائے اشیاء پر جی ایس ٹی کی شرح کم کرے اور جن اشیاء پر سبسڈ ی دی جاتی ہے اُسے ختم کیا جائے کیونکہ سبسڈ ی کی رقم کو پورا کرنے کے لیے حکومت مختلف چیزوں پر ٹیکس لگاتی ہے جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو تا ہے۔
اس خسارہ کو پورا کرنے کے لیے حکومت ملک میں ٹیکس وصولی کی کا نظام مضبوط بناتے ہوئے اسے تمام طبقوں پر یکساں نافذ کرے اور کوئی اس نظام سے بالا تر نہ ہو۔ کیونکہ ہمارے ملک میں حکومتی رفقاء اور بڑے سرمایہ دار نہ تو ٹیکس دیتے ہیں اور نہ ہی بینکوں سے لیا گیا قرض واپس کرتے ہیں ایسے میں جب ان کی حمایتی جماعت بر سر اقتدار آتی ہے تو این آر او کے ذریعے اپنے ذمہ واجب الادا ٹیکس اور قرضہ جات معاف کروا لیتے ہیں ایسے میں حکومت خسارہ پورا کرنے کے لیے عوام پر ٹیکس لگا کر مہنگائی کا بم بجٹ کی صورت گرا دیتی ہے۔ اگر حکومت ملک کے تمام امراء طبقہ سے ٹیکس وصول کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس ملک میں مہنگائی کا نام و نشان نہ رہے اور ہر خاص و عام خوش و خرم زندگی بسر کرے۔
Property Tax
ذرائع کے مطابق محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن حکام نے آئندہ بجٹ میں پراپرٹی ٹیکس میں 10فیصد، ٹوکن ٹیکس اور پروفیشنل ٹیکس میں اضافے کی تجویز متعلقہ محکمہ کو بھجوا دی۔ حکومت کی منظوری کے بعد آئندہ بجٹ میں ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا جائے گا۔گزشتہ بجٹ میں محکمہ کی طرف سے پراپرٹی ٹیکس کی مد میں 100فیصد اضافے کی تجویز بھجوائی گئی تھی جیسے حکومت نے مسترد کر دیا تھا تاہم بعد ازاں 50فیصد اضافہ کیا گیا تھا آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ایکسائز حکام نے پراپرٹی ٹیکس کو مزید 10فیصد بڑھانے کی تجویز دی ہے۔
علاوہ ازیں 1000سی سی سے بڑی گاڑیوں کے ٹوکن میں 30سے 50فیصد جبکہ پروفیشنل ٹیکس میں چھوٹی کیٹیگری جس پر 200روپے ٹیکس عائد تھا اسے بڑھا کر 500روپے کرنے کی تجویز ہے۔ وکلاء ، ڈاکٹر ز اور دیگر پروفیشنلز جن پر سالانہ 1ہزار روپے پروفیشنل ٹیکس عائد تھا اسے بڑھا کر 2ہزار کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت کو تجویز تو ہر سال دی جاتی ہیں مگر سیاسی صورت حال کو مد نظر رکھ کر حکومت بہت سے فیصلے موخر کر دیتی ہے۔
ہم نے آئندہ سال کے لئے بھی تجاویز بھجوا دی ہے اگر حکومت نے منظوری دی تو پھر آئندہ مالی سال کے بجٹ میں مختلف ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا جائے گا تاہم ٹیکسوں میں اضافہ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ حکومت نے کرنا ہے۔ہر سال بجٹ سے پہلے سرکاری ملازمیوں کو تنخواہوں اور پنشن میں کسی ”اچھے” کی توقع ہوتی ہے لیکن جب بجٹ آتا ہے تو کبھی 5اور کبھی 10فیصد اضافے پر ٹرخا دیا جاتا ہے۔
National Assembly
اس سلسلہ میں ایوان اقتدار میں بیٹھے عوامی نمائندے بھی خاموش رہتے ہیں اور کوئی عوام کے حق کیلئے آواز نہیں اٹھاتا، لیکن جب ان کے مفادات سامنے ہوتے ہیں تو حزب اقتدار اور اپوزیشن ارکان تمام اختلافات بھا کر ایک ہی پیج پر ملتے ہیں ۔ ایک خبر ہے کہ آئندہ بجٹ میں حکومت نے ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز کی تنخواہوں میں اضافے کا فیصلہ کر لیا ہے اور بجٹ میں ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہیں 68ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ 30 روپے کر دی جائیں گی جبکہ سپیکر اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا جائے گا، ڈیلی الاؤنس اور ٹی اے ڈی اے میں بھی اضافے کا امکان ہیاس کے علاوہ پروٹوکول میں ارکان پارلیمنٹ کو وفاقی سیکرٹریز کے برابر پروٹوکول دینے کا بھی نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔
سپیکر سردار ایاز صادق کے ساتھ تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں کے رہنماؤں نے تنخواہوں میں اضافے کیلئے رابطے قائم کئے تھے اور اس معاملے پر اسپیکر نے خصوصی کمیٹی تشکیل دی جس میں اپنی سفارشات مرتب کر کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بھجوا دی ہیں اور ان تجاویز پر وزیر خزانہ نے وزیراعظم سے مشاورت کرلی۔ جبکہ کوئی نہیں جانتا کہ حکومت نے غریب عوام کو سہولت کے نام پر کیا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بجٹ کی تیاری میں اپنے رفقاء اور سرمایہ کاروں کو نوازنے کی پالیسی ترک کرتے ہوئے ٹیکس نیٹ ورک کو وسیع اور مضبوط بنائے حکومت عام ضروریات اشیاء کی قیمتوں پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام بہتر اور جی ایس ٹی کم کر کے غریب عوام کو ریلیف دے ۔تاکہ وپ بھی سکھ کا سانس لے سکیں۔