وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے کالعدم تنظیم طالبان پاکستان و جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان کی سرکاری تحویل سے فرار ہونے کی باقاعدہ تصدیق کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہاوس میں میڈیا نمائندوں کے ساتھ راہدری سے گذرتے ہوئے اعتراف کیا کہ اس معاملے پرکام ہورہا ہے۔ فروری2017میں احسان اللہ احسان گرفتار ہوا تھا، غیر ملکی اخبار نے 11 جنوری 2020 کو دعویٰ کیا کہ احسان اللہ احسان سرکاری تحویل سے فرار ہوگیا ہے، اس خبر کو بھارتی پروپیگنڈا سمجھ کر نظر انداز کردیا گیا، ریاست نے اُس وقت کوئی ردعمل نہیں دیا اور جب سوشل میڈیا میں مبینہ آڈیو ٹیپ وائرل ہوئی جب بھی ادارے خاموش رہے، دو ہفتے بعد وفاقی وزیر داخلہ نے میڈیا نمائندوں کے ساتھ پارلیمنٹ میں اعتراف کیا۔ ان کے اعتراف کی ٹائمنگ حیران کن ہے، کیونکہ جس وقت یہ اعتراف کیا گیا تو پیرس میں ایف اے ٹی ایف کا اجلاس جاری تھا اور ریاست، مملکت کو گرے لسٹ سے نکالنے کے لئے سفارتی و عسکری محاذ پر سرگرم اور بلیک لسٹ میں نام داخل کئے جانے کی سازشوں کو ناکام بنانے کی کوشش کررہی تھی۔
ملالہ یوسف زئی پر مبینہ حملے، اے پی ایس میں دہشت گردی میں 149قیمتی جانوں کی شہادت سمیت شدت پسندی کے کئی بہیمانہ واقعات میں ملوث احسان اللہ احسان کی گرفتاری،کامیاب آپریشنز کا اہم سبب سمجھا گیا۔14دسمبر2014کو اے پی ایس سانحے کے بعد قومی ایکشن پلان بنایا گیا، جس کے تحت کئی آپریشنز ہوئے۔ دہشت گرد مارے گئے تو کئی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے، خاصے گرفتار بھی ہوئے۔ افغانستان کی سرزمین پر کالعدم تنظیموں نے ڈیرہ جما لیا، تاہم ریاستی اداروں نے بڑی محنت و قربانیوں کے بعد پاک، افغان بارڈر منجمٹ کو مکمل کیا اور اس کا دوسرا فیز پاک، ایران پر جاری ہے۔ احسان اللہ احسان کی سرکاری تحویل سے فرار ہونے کی خبر ہنوز حیران کن ہی ہے، کیونکہ پاکستان اس وقت2018سے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں پھنسا ہوا ہے، بھارت اور ملک دشمن عناصر پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے کے لئے لابنگ کررہے ہیں، پاکستان کے حلیف ممالک نے گذشتہ پیرس اجلاس میں پاکستا ن کو مہلت دلوا دی تھی، اب بھی پاکستان کو بلیک لسٹ سے بچانے کے لئے ریاست و سفارتکاروں نے بڑی محنت کی ہے، ملائیشیا، ترکی اور چین پاکستان کی کھلی حمایت کررہے ہیں۔
امریکا نے حسب روایت یقین دہانی تو کرائی ہے، جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہونگے اُس وقت تک ایف اے ٹی ایف کا فیصلہ بھی سامنے آچکا ہوگا۔چونکہ وفاقی وزیرداخلہ نے احسان اللہ احسا ن کے فرار پر لب کشائی کردی ہے تو حکومت کی جانب سے اس اہم معاملے پر قیاس آرائیوں کو ختم کرنے کے لئے سرکاری بیانیہ جاری کرنا ضروری ہوچکا ہے، کالعدم تنظیموں میں ترجمان کا کردار عموماََ فرضی و روایتی ہوتا ہے، کالعدم طالبان سوات کے ترجمان مولوی عمر کو اگست 2009میں اور کمانڈر مسلم خان کوستمبر2009میں گرفتار ہوئے، مزید معلومات سے عوام الناس زیادہ آگاہ نہیں۔ ملا فضل اللہ کے مارے جانے کا دعویٰ بھی سامنے آیا تھا، تاہم یہ غلط ثابت ہوا اور کالعدم تنظیم کا سربراہ افغاستان میں امریکی ڈون حملے میں ہلاک ہوا۔ کمانڈر مسلم خان کے بعد سلمان خان ترجمان بنا تھا،جس کے بعد احسان اللہ احسان ترجمان کی حیثیت سے کام کرتا رہا یہاں تک کے اس کی گرفتاری کی خبر 2017میں سامنے آئی تو جنوری2020میں فرار ہونے کی خبر نے سوالیہ نشان کھڑے کردیئے۔
احسان اللہ احسان کے مبینہ فرار کے بعد اقوا م متحدہ کے جنرل سیکرٹری کی پاکستان آمد کے موقع پر کوئٹہ ضلع کچہری کے مقابل بلدیہ ہوٹل مین گیٹ پر ایک مذہبی جماعت کے جلسے میں یوم صدیق اکبر ؓ کے موقع پر خود کش بمبار کی جانب دہشت گردی کابڑا واقعہ، کئی خدشات کو جنم دے رہا ہے۔ ریاست نے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نام نکالنے اور بلیک لسٹ سے بچنے کے لئے اہم اقدامات بھی کئے، جس میں خصوصی طور جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ سعید و 13اہم رہنماؤں کے خلاف1997 اور 2019میں دہشت گردی کی مالی معاونت کے الزام میں دفعات کے تحت دو مقدمات درج کئے اوررواں ماہ فروری میں مجموعی طور پر 11برس کی قید اور 30ہزار جرمانے کی سزا سنا دیااور کئی تنظیموں پر پابندی بھی عائد کی، امریکا نے عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ تاہم اس دوران ہی احسان اللہ احسان کی فرار کی خبر کا وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کی جانب سے ایف اے ٹی ایف اجلاس کے موقع پر اعتراف کرنا، کئی اہم سوالوں کو جنم دے رہا ہے کہ کیا وفاقی حکومت، درحقیقت احسان اللہ احسان کے فرار سے آگاہ بھی ہے کہ نہیں، یا پھر کوئی ایسا مخفی قانون اب بھی ہے کہ جس میں ادارے قومی سلامتی کے نام پر کسی بھی شخص کو غیر معینہ مدت تک گرفتار یا رہا کرسکتے ہیں، جس کے لئے انہیں سول قوانین پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں۔
2013میں پاکستان کے سابق سیکرٹری برائے خارجہ نے دوبئی پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ باقی ماندہ تمام افغان طالبان رہنماؤں کو مرحلہ وار رہا کردیا جائے گا۔جس پر بتدریج عمل درآمد کیا جاتا رہا۔تاہم ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ احسان اللہ احسان کے رشتے داروں بھی پاکستان میں موجود نہیں ہیں، تاہم اس حوالے سے احسان اللہ احسان کو تحویل میں رکھنے والے ادارے بہتر جواب دے سکتے ہیں۔کیونکہ وفاقی وزیر داخلہ اب اعتراف کرچکے ہیں اس لئے مزید سوالات کے جواب دینا حکومت کا فرض بنتا ہے۔
احسان اللہ احسان کی رہائی یا فرار کا معاملہ بھی کئی منوں تلے مٹی میں دب جاتا، لیکن آڈیو پیغام آنے اور حکومت کی جانب سے مسلسل خاموشی نے کئی سوالیہ نشان کھڑے کردیئے۔ بلا شبہ ریاستی اسٹریجی پاکستا ن کی بقا و سلامتی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اختیارکی جاتی ہے۔ لیکن اہم ترین پہلو یہ ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے پیرس ایف اے ٹی ایف جاری اجلاس کے موقع پرپارلیمنٹ سے احسان اللہ احسان کی فرار کا اعتراف کیوں کیا، ویسے تو ریاست نے کالعدم تحریک پنجابی طالبان کے سربراہ عصمت اللہ معاویہ کو بھی ایک معاہدے کے تحت رہا کیا تھا، اور احسان اللہ احسان کی حوالگی اور معاہدے میں ضمانت کے حوالے سے عصمت اللہ معاویہ کے نام کی قیاس آرائیاں، حکومتی بیانیہ کی منتظر ہیں، واضح رہے کہ خاموشی کئی قیاس آرائیوں و غلط فہمیوں کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے، احسان اللہ احسان کے مضحکہ خیز آڈیو یا ویڈیو بیانات آنے کا سلسلہ اگر جاری رہا اور کوئٹہ جیسے واقعات رونما ہوتے رہے تو عالمی برداری و ملکی سطح پر کئی سوال اٹھتے رہیں گے، جو کسی کے حق میں بہتر نہیں۔