تحریر : محمد الفیصل وفاق المدارس نے سولہ نومبر کو ملک بھر میں عام شاہراہوں اور سڑکوں پر ملک کی ترقی، حرمین شریفین کے استحکام اور دینی مدارس کے تحفظ کے لئے یوم تلاوت و دعاء منانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ سلسلہ صبح گیارہ بجے سے ایک بجے تک جاری رہے گا۔
وفاق کے اس اعلامیہ کی قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان تقریبات میں دینی مدارس کے دس سے پندرہ سال تک کی عمر کے بچے شامل ہوں گے ۔ اس فیصلے کا علم ہوتے ہی مجھے حیرت کا جھٹکا لگا اور اب تک تحیر کی کیفیت سے نکل نہیں پایا۔ زمانہ ماضی میں امت مسلمہ پر حالیہ بحرانوں سے زیادہ خوف ناک طوفانوں اور فتنوں کے مواسم آے ۔ مگر درد دل رکھنے والے علماء نے مدارس اور مساجد کی چاردیواری کے اندر دعاء ومناجات پر توجہ مرکوز رکھی۔
انہوں نے مناجات کی مجلسیں سر بازار منعقد کرنے کا فیصلہ کبھی نہ کیا۔ راقم کی نظر میں ماضی بعید وقریب میں ایسے کسی واقعے کی کوئی ایک مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ حالات انتہائی حساس ہیں۔سیکورٹی رسک لینا جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے ۔خدا نہ خواستہ تخریب کاروں کے ہاتھوں ان معصوم بچوں کی جانیں ضائع ہوگئیں تو عالمی میڈیا اور لبرل طبقہ اس موقع کو گولڈن چانس سمجھ کر دینی مدارس کے خلاف استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کرے گا۔ ایجنسیاں دینی مدارس کے تمام ریکارڈز حاصل کرنے کی تگ ودو کر رہی ہیں۔ایسے کسی بھی واقعے کے بعد وہ اوپر والوں کے دباو کے نتیجے میں دینی مدارس پر اپنا شکنجہ کس لینگی۔
شاید سادہ لوح ساتھی میری ان باتوں کو ہضم نہیں کرپائیں۔ مگر حالات اب وہ نہیں رہے ۔ مجھے بتائیے کہ اگر ان بچوں کو کچھ ہوجاے اور دینی مدارس سرکاری تحویل میں لے لئے جائیں یا قیود اور پاپندیوں میں جکڑ کر ان کا کردار محدود سے محدود کردیا جاے تو یہ اکابر کیا کرلیں گے ؟ ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ کچھ بھی نہیں کر پائیں گے۔
سوات اور فاٹا میں درجنوں مدارس پر تالے لگے پڑے ہیں۔ اکابر بے چارے کیا کریں؟ فوج سے لڑیں؟ ریاست سے ٹکر لیں؟ یہاں فاٹا میں معصوم اور بے گناہ پاکستانیوں کے گھر مسمار کئے گئے ۔ لاکھوں ہجرت کرگئے ۔ ہزاروں شہید ہوے ۔درجنوں بچے یتیم ہوگئے ۔ عورتیں بیوہ ہوگئیں۔ سوالات اٹھیں گے کہ ان کے لئے یوم دعاء کیوں نہیں منایا گیا۔
Madaris
خیر جانے دیجئے فاٹا کی بات۔ بنیادی بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دین کا کام چاردیواری کے اندر ہی زیادہ موثر اور محفوظ سمجھا جاتا ہے ۔استعماری قوتیں دین کے ان قلعوں سے خوف زدہ ہیں اور ان کو ختم کرنے کے درپے بھی۔ اس طرح کی نمائشیں نفری طاقت کا مظہر باور کرائی جاتی ہیں۔ اندیشہ ہاے دور دراز جنم لیتے ہیں، دشمن چوکنا ہوجاتا ہے اور زیادہ متحرک بھی۔ لال مسجد والوں کی سرگرمیوں کے پیچھے نیک مقاصد ہی کارفرما تھے ۔ مگر ان نمائشی سرگرمیوں کی کھوکھ نے کس قدر الم ناک داستان جنم دی!! میں اپنے علم کی حد تک اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس فیصلے پر جن اکابر کے دستخط موجود ہیں۔ان کا مزاج ایسی سرگرمیوں کے خلاف ہے۔
ایک بار ایسا ہی ایک فیصلہ منظور کروا لیا گیا۔ مولانا عبدالمجیدکہروڑپکا نے اس کی سختی سے مخالفت کی۔ یوں وہ “فیصلہ” موقوف ہوگیا۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے بارہا فرمایا کہ مدارس کو میڈیا کی اور نمائش کی چکاچوند سے بچانے ہی میں عافیت ہے ۔حالیہ فیصلے پر بھی دارالعلوم کورنگی کے کسی نمائندے کا دستخط نہیں۔ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
عموما فیصلے نچلی سطح پر اور گاہے شخصی سطح پر ہوتے ہیں۔پھر اس کی افادیت اور مثبت پہلووں پر طویل تقریر کے ذریعے شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان کو قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یوں فیصلہ ان کی طرف منسوب کردیا جاتا ہے۔
موجودہ حالات میں یہ فیصلہ قطعا دانشمندانہ معلوم نہیں ہوتا۔اس میں مدارس کا اجتماعی فائدہ تو قطعی طور پر نظر نہیں آتا۔البتہ شخصی سطح پر اس طرح کی سرگرمیوں سے بڑے خطیر مفادات کیش کرا لئے جاتے ہیں۔کیا ہی اچھا ہو کہ یوم دعاء مدارس کی چار دیواری کے اندر منایا جاے۔