فیڈرل ریپڈ ری ایکشن فورس یا اسلام آباد ریسکیو ٹیم

Terrorism

Terrorism

اطلاعات کے مطابق انسداد دہشتگردی کیلئے فیڈرل ریپڈ ری ایکشن فورس کا کمانڈ کنٹرول اسٹرکچر تیار کر لیا گیا ہے جس کے تحت انسداد دہشت گردی فورس میں شامل کئے جانے والے افسران و اہلکاروں کی تعداد 500 ہو گی جس میں پاک فوج سے 60، پولیس سے 220، ایف سی سے 130 جبکہ رینجرز کے 90 اہلکاروں کو فورس میں شامل کیا جائیگا۔ فیڈرل ریپڈ ری ایکشن فورس کا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں ہو گا۔ فورس کے 35 افسران و اہلکار ہیڈ کوارٹر میں شامل ہوں گے جب کہ 465 افسران و اہلکار آپریشنز میں حصہ لیں گیفورس کو متحرک کر نے کیلئے ایک ارب روپے کافنڈ وفاقی حکومت فراہم کرے گی جبکہ فورس میں شامل افسران و اہلکاروں کوپاک فوج کے اسپیشل سروسز گروپ کے ماہر انسٹرکڑز تربیت دینگے جبکہ فورس کے اہلکار 2 سے 3 منٹ میں جائے وقوعہ پر پہنچیں گے۔

پاکستان گزشتہ کئی دو عشروں یعنی 1988ء سے دہشتگردی کی جس بدترین آگ میں جھلس رہا ہے اس نے نہ صرف پاکستان سے اس کا وقار ‘ سیکورٹی اداروں سے ان کا مورال عوام سے اعتماد اور آنے والی نسلوں سے مستقبل کے تحفظ کا اطمینان چھین لیا ہے بلکہ ملکی معیشت کو غرقابیت کے کناری پہنچاکر عوام کو روزی اور دو وقت کی روٹی سے بھی محروم کر دیا ہے اور معاشرے کو جرائم افراتفری نفسانفسی عدم تحمل عدم برداشت اور انتشار و نفاق کی جانب دھکیل دیا ہے جس سے ملک و قوم دشمن قوتیں اور جرائم پیشہ عناصر بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ عدم مساوات کا شکار معاشرے کے استحصالی نظام کے باعث اپنی تمام تر قربانیوں کے باوجود بھی سیکورٹی اداروں میں بڑھتی کرپشن کا انہیں عوام دشمن قوتوں کے سر پرست ثابت کر نے کیلئے بے چین ہے۔ ان حالات میں حکومت کی جانب سے فیڈرل ریپڈ ری ایکشن فورس کے کمانڈ کنٹرول اسٹرکچر تیاری یقینا اس کی نیک نیتی عوام دوستی اور حب الوطنی کا ثبوت ہے مگر کیا صرف اسلام آباد میں دہشتگردی کیخلاف محض 500 تربیت یافتہ افراد پر مشتمل ادارہ قائم کر کے کیا پورے ملک کے عوام کو احساس تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے یا پھر یہ بھی مخصوص محدود اور محفوظ طبقات کو مزید محفوظ بنانے کی روایت کا تسلسل ہے۔

Islamabad

Islamabad

فیڈرل ریپڈ ری ایکشن فورس کے کمانڈ کنٹرول اسٹرکچر میں عوام کیلئے یا صرف اسلام آباد کے خواص کیلئے متاثر کن بات یہ ہے کہ فورس کے اہلکار 2سے 3منٹ میں جائے وقوعہ پر پہنچیں گے۔پاکستانی معاشرے میں یہ فعالیت یقینا مستحسن ہے مگراس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حکمران سیلابی ریلے سے بچاؤ کیلئے بند باندھنے کی بجائے سیلابی تباہ کاریوں کے بعد فوری و ہنگامی امداد کی فراہمی کے فارمولے کے تحت اس نئی فورس کو وجود میں لائے ہیں تاکہ یہ فورس دہشتگردی کے کسی بھی واقعہ کے بعدفوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ کر متاثرین کی امداد ‘ تحقیق ‘ تفتیش کا کام سنبھال سکے اور اگر یہ حقیقت ہے تو اسلام آباد کے مخصوص محفوظ او ر طاقتور طبقات پر ایک ارب کی کثیر رقم خرچ کئے جانے کے باوجودپاکستان کے عام عوام اور ان خواص میں محض اتنا ہی فرق رہے گا کہ اسلام آباد کے خواص کو امداد2سے3منٹ میں مل جائے گی جبکہ پاکستان کے عام عوام کو یہ امداد 3گھنٹے گزرنے کے بعد ملتی ہے ۔ رہی بات امداد کی ضرورت کی ناگزیریت کیلئے عوامل پیدا کرنے والوں کی تو ان کے متعلق سوچنے ‘ انہیں تابع قانون بنانے یا انہیں نکیل ڈالنے کی سنجیدہ کوشش کرنے کیلئے حکومت کے پاس نہ تو وقت ہے ‘ نہ حوصلہ اورنہ ہی شاید یہ نکتہ ا س ڈیل میں شامل ہے جس کے تحت 1988ء سے مخصوص جماعتوں کو حکمرانی و اقتدار فراہم کیا جارہا ہے۔

تحریر: عمران چنگیزی