فیڈریشن عمارت کرپشن کے خلاف نیب نے تحقیقات شروع کر دی

FPCCI Building

FPCCI Building

اسلام آباد (جیوڈیسک) قومی احتساب بیورو نے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی اسلام آباد میں عمارت کی تعمیر کے منصوبے میں بڑے پیمانے پر کرپشن کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

سارک چیمبر کے نائب صدر افتخار علی ملک نے اس سلسلے میں بدعنوانیوں کے الزامات کا 5 صفحات پر مشتمل جواب ایف پی سی سی آئی کو بھجوا دیا۔ افتخار علی ملک نے ان الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ عمارت کی تعمیر کا ٹھیکہ پیپرا رولز کے مطابق سب سے کم بولی دینے والی کمپنیوں کودیا گیا حالانکہ اس معاملے میں پیپرا رولز کا اطلاق بھی نہیں ہوتا، ٹھیکیداروں و سپلائرز کو تمام ادائیگیاں بذریعہ چیک کی گئیں،یہ چیک صرف انکے دستخط سے جاری نہیں ہوئے بلکہ بلڈنگ کمیٹی کی سفارشات پر ایف پی سی سی آئی ہیڈ آفس کراچی سے آفس بیئررزاور سیکریٹری جنرل کے دستخطوں سے جاری ہوئے۔

افتخار علی ملک نے کہا کہ انہوں نے عمارت کیلیے پلاٹ حاصل کرنے کیلیے سی ڈی اے کو 1 کروڑ روپے کی ذاتی طور پرکیش گارنٹی فراہم کی تھی۔انہوں نے صدر فیڈریشن زکریا عثمان سے کہا کہ آپ کے لیٹر میں میرے اقدامات کو ایف پی سی سی آئی کیلیے بدنامی کا باعث قرار دیا گیا جو بہت زیادتی اور حقائق کے منافی ہے، حکومت کی طرف سے عمارت کیلیے 5 کروڑ روپے کی سبسڈی کی رقم ٹی ڈی اے پی کے ساتھ مشترکہ اکاؤنٹ میں رکھی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ انٹر ووڈ یا دوسری کمپنیاں جنھیں ٹھیکے اور ایڈوانس ادائیگیاں کی گئیں ان کو انہوں نے ہائر کیا نہ ایڈوانس رقوم دیں بلکہ ایف پی سی سی آئی کے صدر، نائب صدر، کنسلٹنٹس و دیگر پرمشتمل کمیٹی نے 27 نومبر 2012 کو اسلام آباد میںاجلاس کے دوران منظوری دی تھی تاہم گارنٹی انجینئر نامی کمپنی کے متعلق جواب نہیں دیا اور کہا کہ یہ معاملہ پہلے سے ہی بلڈنگ کمیٹی کے پاس ہے، اسی طرح فورٹ پاکستان نامی کمپنی کے حوالے سے بھی جواب نہیں دیا اور موقف اپنایاکہ یہ معاملہ بھی کمیٹی کے ساتھ اٹھایا جائے تاہم ایف پی سی سی آئی کے صدر زکریا عثمان نے رابطہ کرنے پرکہا کہ جن سپلائرز اور ٹھیکیداروں کو ایڈوانس ادائیگیاں کی گئی وہ افتخار علی ملک کے ساتھ بیٹھے ہیں،افتخار علی ملک ان سپلائرز سے رقوم واپس کروائیں۔

انہوں نے بتایا کہ قومی احتساب بیورو نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کی ہیں اورلیٹر بھی لکھا ہے مگر یہ حکومت کا معاملہ نہیں ہے کیونکہ حکومت نے جو 5 کروڑ روپے منظور کیے تھے وہ ابھی تک نہیں ملے، عمارت پر 15 سے 20 کروڑ روپے خرچ ہوچکے ہیں، یہ تاجروں و صنعت کاروں کا اپنا پیسہ ہے لہٰذا ہماری حکومت سے درخواست ہے کہ وہ 5 کروڑ روپے جاری کرے تاکہ عمارت کو مکمل کیا جاسکے، جو ایڈوانس ادائیگیاں کی گئی ہیں وہ ہم ریکور کر لیں گے۔