تحریر : محمد اشفاق راجا وزیراعظم نواز شریف کے خطاب سے اپوزیشن تو مطمئن نہیں ہوئی اور بقول قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ انہوں نے ہمارے سیدھے سادے سات سوالات کے جوابات نہیں دیئے اب بات ستر سوالات تک پہنچ گئی۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چودھری اعتزاز احسن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر ہمارے 70 سوالوں کے جوابات نہ ملے تو وزیراعظم کو کمیشن میں سات سو سوالوں کے جوابات دینے پڑیں گے گویا ایسے محسوس ہوتا ہے: بات چل نکلی ہے، چلنے دو جہاں تک پہنچے والی کیفیت پیدا ہوگئی ہے، اب اپوزیشن کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا یہ ابھی معلوم نہیں۔ وزیراعظم اب سات سوالوں کے جواب دیتے ہیں، ستر کے یا سات سو کے، یہ تو وہ جانیں، ہمارا تو اپوزیشن سے صرف ایک ہی سوال ہے کہ اس نے بائیکاٹ کرکے کیا کمالیا؟۔
وزیراعظم نوازشریف نے جونہی تقریر ختم کی، سپیکر نے فلور قاعدے کے مطابق قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے حوالے کردیا جنہوں نے وزیراعظم کا جواب ڈیڑھ منٹ دے دیا اور کہا ہمارے سات سوالوں کا جواب نہیں ملا اور اب ستر سوال ہوں گے۔ یہ کہہ کر وہ شاید ابھی بیتھے بھی نہ تھے کہ سپیکر نے فلور عمران خان کے حوالے کردیا۔ کارروائی ٹی وی پر لائیو دکھائی جا رہی تھی جب عمران خان خطاب کیلئے کھڑے نہ ہوئے اور سکرین پر وزیراعظم کی ایوان میں آمد سے پہلے کے مناظر چلنے لگے تو ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ کوئی گڑبڑ ہوگئی ہے، جلدی جلدی چار پانچ چینل تبدیل کئے تو سب پر یہی کیفیت تھی اچانک ایک چینل سے پتہ چلا کہ اپوزیشن واک آؤٹ کرگئی ہے اور تھوڑی دیر بعد میڈیا سے بات چیت ہوگی۔
میڈیا پر خورشید شاہ نے تو وہی باتیں کردیں جو انہوں نے اپنے خطاب میں کہی تھیں پھر چودھری اعتزاز ابھی کچھ کہنے والے تھے کہ عمران خان نے خطاب شروع کردیا اور وہ باتیں کہہ دیں جو شاید وہ ایوان میں کرنے کیلئے تیار ہوکر آئے تھے لیکن اپوزیشن کے اچانک واک آؤٹ کی وجہ سے انہوں نے یہ اظہار خیال میڈیا میں کردیا۔ خطاب تو آپ سارے سن چکے اور دیکھ چکے، بائیکاٹ کا عمل بھی آپ کی نظروں کے سامنے ہے، اب سوال یہ ہے کہ وزیراعظم کو پارلیمنٹ میں خطاب کی دعوت مسلسل کیا اسی لیے دی جا رہی تھی کہ وہ خطاب کرکے فارغ ہوں تو اپوزیشن بائیکاٹ کرکے ایوان سے نکل جائے۔سچی بات ہے اس کی حکمت ہمیں تو سمجھ نہیں آئی اور اس معاملے میں ہمیں اپنے عجز کا اعتراف ہے۔
Khursheed Shah
اپوزیشن خطاب سے مطمئن نہ تھی تو اس پر عدم اطمینان کا اظہار ایوان میں بہتر طور پر کیا جاسکتا تھا۔ سید خورشید شاہ وزیراعظم کے خطاب کا نقطہ بہ نقطہ جواب دے سکتے تھے، پھر ان کے بعد عمران خان اپنی حکمت و دانش کے موتی رول سکتے تھے اور یوں وزیراعظم کے خطاب کے پرزے اڑا کر ثابت کیا جاسکتا تھا کہ انہوں نے سوالوں کے جواب نہ دے کر اچھا نہیں کیا، لیکن یہ سب کچھ نہ ہوا۔ ایسے محسوس ہوتا ہے بائیکاٹ کا فیصلہ اچانک نہیں تھا، عمران خان لندن گئے ہوئے تھے، وہ بھاگم بھاگ اسلام آباد پہنچے تاکہ اجلاس میں شریک ہوں۔ اگر انہوں نے وہی باتیں کرنی تھیں جو انہوں نے بائیکاٹ کے بعد میڈیا کے روبرو کیں تو اس کیلئے ان کا لندن سے اسلام آباد آنا بھی ضروری نہ تھا، وہ وہیں وزیراعظم کی تقریر سنتے اور ردعمل میں جو کہنا تھا وہیں سے کہہ دیتے۔ اول تو اس کیلئے خطاب سننا بھی ضروری نہ تھا۔ وہ اپنے پوائنٹ پہلے سے تیار کرکے رکھتے اور وزیراعظم کا خطاب ختم ہوتے ہی ٹویٹ کردیتے۔ وہ اگر لندن سے آئے تھے چند منٹ اجلاس کو بھی دیتے تو مضاقہ نہ تھا لیکن ان کی مرضی ہے۔ جو چاہے ”اْن” کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
ایک تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ متحدہ اپوزیشن نے عمران خان سے ہاتھ کردیا اور پیپلز پارٹی نے کمال ہوشیاری سے کھیل عمران خان کے پاس نہیں جانے دیا۔ اجلاس سے نکل کر اپوزیشن نے میڈیا سے بات کی تو جواب میں تین وفاقی وزراء ، سینیٹر پرویز رشید، خواجہ محمد آصف اور خواجہ سعد رفیق بھی میدان میں آگئے۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اپوزیشن کو چار شخصیتوں نے یرغمال بنالیا ہے، ان شخصیات کے اپنے اپنے دکھ ہیں اور اپنی اپنی تکلیفیں ہیں۔وزیراعظم کی تقریر تو اپوزیشن نے مسترد کردی لیکن انہوں نے جامع نظام احتساب کیلئے جو پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز دی ہے کیا اسے بھی اسی طرح بیک جنبش قلم مسترد کیا جاسکتا ہے؟ اگر یہ تجویز بھی مسترد کردی گئی ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے اب کیا ہوگا؟ جو احتساب بل دس سال سے قائمہ کمیٹی کے سپرد ہے کیا وہ اسی سرد خانے کی زینت بنا رہے گا۔
وزیراعظم کے خط کے جواب میں چیف جسٹس نے جو قانون سازی کرنے کی جو بات کی ہے کیا وہ بھی حکو’مت خود ہی کرے گی اور اگر قانون سازی نہ ہوئی تو کیا کمیشن کا معاملہ لٹک جائے گا؟ ان سوالات کا جواب ابھی چند دن بعد ملے گا جب اپوزیشن ٹھنڈے دل سے سود و زیاں کا حساب کرے گی ممکن ہے وہ دوبارہ غور کرے تو اس نتیجے پر پہنچے کہ بائیکاٹ کرکے اس نے غلطی کردی لیکن ابھی تک تقریر مسترد ہے اور فریقین پہلے کی طرح ایک دوسرے پر الفاظ کی چاند ماری کر رہے ہیں۔ اب دیکھیں یہ چاند ماری کتنے دن جاری رہتی ہے۔ اپوزیشن وزیراعظم کی تقریر سے مطمئن ہے یا نہیں، لیکن تقریر میں ان کے لب و لہجے میں بعض فیصلہ کن باتیں ایسی تھیں جو آنے والے دنوں میں زیر بحث رہیں گی۔ مثلاً انہوں نے کہا ”یہ معاملہ اب یوں ختم نہیں ہوگا، اب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگا”۔ وزیراعظم کی تقریر سے پہلے بھی اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا، تقریر کے بعد بھی واک آؤٹ کردیا۔ تو کیا اس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ اب پاناما لیکس پر لڑائی کا میدان پارلیمنٹ کے باہر سج گیا ہے۔