''ہے دُنیا میں کچھ ماں جیسا''

Mother

Mother

ماں کا لفظ اپنے عمومی اور بنیادی مفہوم میں ایک ایسی ہستی کیلئے ادا کیا جاتا ہے کہ جس سے کسی بچے کی ولادت ہوئی ہو یعنی بچے کے والدین میں سے مؤنث رکن کو ماں کہا جاتا ہے۔ کوئی بھی لفظ بذاتِ خود شاید کچھ نہیں ہوتا مگر یہ جب کسی کیلئے مخصوص ہوتا ہے تو پھر اس کی اہمیت میں اضافہ ہو جاتا ہے، ایسا ہی ایک لفظ ”ماں” ہے۔ ہم اِس لفظ کی گہرائی کو سوچیں تو محبت کا سمندر تصور میں آ جاتا ہے۔

ایک ایسا سمندر جس میں ممتا کی بے قرار لہریں اپنی اولاد کیلئے مدوجزر کی کیفیت میں رہتی ہیں۔ کائنات کے نظام کو چلانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اپنی تخلیق کو عورت میں منتقل کیا اور اس کو کئی رشتے عطا کیے جن سے ہماری زندگی کی ڈور بندھی ہے۔ یہ عورت کبھی بیٹی ، کبھی بہو اور کبھی بہن ہے لیکن ماں کے درجے پر فائز ہونے کے ساتھ ہی ہر عورت اپنی ذات کی نفی کر دیتی ہے اور پھر صرف ماں ہی رہتی ہے۔

پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو مائوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اِس دن کو منانے کا مقصد عوام الناس میں ماں کے رشتے کی اہمیت کو اُجاگر کرنا اور اس عظیم ہستی کیلئے عقیدت، شکرگزاری اور محبت کے جذبات کو فروغ دینا ہے۔ ماں جیسی ہستی اولاد کیلئے رونق، زندگی، محبت، ہمت، احساس، حوصلہ، دھڑکن، سکون اور سب سے بڑھ کر جنت ہے۔ اسلامی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے اور ماں کی خدمت کرکے یہ جنت حاصل کی جا سکتی ہے، اس کے برعکس مغربی معاشرے میں والدین بوڑھے ہونے تک کام کرتے رہتے ہیں اور ریٹائرمنٹ تک جو جمع پونجی اُن کے پاس ہوتی ہے

اُس سے اپنی بقیہ زندگی کسی بلڈنگ کے اپارٹمنٹ میں رہ کر گزار دیتے ہیں۔ جن والدین کے پاس جمع پونجی نہ ہو وہ اولڈ ایج ہومز میں داخل ہو جاتے ہیں جہاں پر حکومت ان کے گزربسر کا بندوبست کرتی ہے۔ اس دوران اگر بچوں کو فرصت ملے تو وہ اپنے والدین سے ملنے اولڈ ایج ہومز چلے جاتے ہیں ورنہ فون پر ہی بات کر لیتے ہیں یا پھر کسی تہوار پر کارڈ بھیج کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔

Love

Love

ان ہی محرومیوں کے سبب مغربی معاشرے میں مدر ڈے اور فادر ڈے جیسے تہواروں نے رواج پکڑا ورنہ ماں کیلئے جو جذبہ ہمارے دلوں میں ہے اسے سمیٹ کر کسی ایک دن کیلئے مقرر کرنا ہرگز ٹھیک نہیں ہے۔ یہ ماں ہی ہے کہ جس سے اولاد کی زندگی کی ہر سانس جڑی ہوتی ہے اور اس کے بغیر زندگی ادھوری لگتی ہے۔ دنیا میں جتنے بھی رشتے ہوں اور ان رشتوں میں جتنی بھی محبت ہو وہ اپنی محبت کی قیمت مانگتے ہیں مگر ماں کا رشتہ دنیا میں واحد ایسا رشتہ ہے جو صرف آپ کو کچھ دیتا ہی ہے اور اس کے بدلے میں آپ سے کچھ نہیں مانگتا۔ اگر کوئی انسان دنیا میں جنت پانا چاہتا ہے

تو صرف ایک بار ماں کی عزت، بڑائی اور پاکیزگی کو سمجھ لے تو تاحیات اپنی ماں کے احسانوں کا بدلہ نہ چکا سکے گا۔ کبھی میں سوچتا ہوں کہ دُنیا میں سب سے قیمتی شے کیا ہے تو خیال آتا ہے کہ دُنیا کی خوبصورت ترین ہستی صرف ایک ماں ہی ہے جو بے حد پاکیزہ اور محبت کرنے والی ہوتی ہے۔ رب العزت نے ایک ماں کو شاید یہ سوچ کر بنایا ہے کہ جب اولاد کو دنیا میں کہیں بھی سکون نہ ملے تو وہ اپنی ماں کی آغوش میں آ کر سوچوں، آہوں اور دُکھوں کو نثار کر دے، اس وقت وہ ایسی راحت محسوس کرے گا جواُسے کہیں بھی نہ ملی ہوگی۔ ویسے تو کوئی شخص یہ نہیں چاہتا کہ وہ مغرور ہو اور لوگ اسے ناپسند کریں لیکن ماں ایک ایسی دولت ہے

جسے پانے کے بعد انسان مغرور رہنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ یورپی معاشرے میں تو بوڑھے والدین اپنی اولاد کیلئے کچرے کا مال بن جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہاں جگہ جگہ نرسنگ ہومز موجود ہیں جہاں سرکاری خرچ پر بوڑھوں کی کفالت ہوتی ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ اب یہ کلچر آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے میں بھی فروغ پا رہا ہے۔

اس سلسلے میں کام کرنے والے افراد قابل تحسین ہیں کیونکہ اُن کا مقصد یقیناً انسانیت کی خدمت ہوگا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں اولڈ ایج ہومز قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ہمارے معاشرے میں اس کا رواج پانا یہی تاثر دیتا ہے کہ یہاں بھی بہت سے بوڑھے والدین اپنی اولاد کی نافرمانی کا شکار ہیں۔ ایک اسلامی معاشرے میں اپنے والدین کو بڑھاپے میں اولڈ ہومز کی راہ دکھانا یقینا اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

Najeem Shah

Najeem Shah

تحریر: نجیم شاہ