اتحادِ اُمت کا نقیب صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی

World

World

کسی سیانے نے سچ کہا ہے کہ دنیا میں نیلے آسمان تلے، خاکی زمین اوپر دو طرح کے آدمی رہتے ہیں ایک وہ جو مٹی میں مل کر خاک ہو جاتے ہیں ایک وہ جو کبھی نہیں مرتے ، ہر فرد زندگی کے سٹیج پر اپنا تماشا دکھا کے چلا جا تا ہے کسی کی ادا کاری دل پر نقش چھوڑ جاتی ہے اور کسی کے سامنے سے گزرنے کا احساس بھی نہیں ہو تا روز نئے لوگ پیدا ہوتے ہیں پرانے مر جاتے ہیں لیکن چند لوگوں کے نام باقی رہ جاتے ہیں عربی کا مقولہ ہے۔
اَلموتُ قَد حُُ کُلُ نفسِِ شَارِ بُو ھَا
وَالقَبرُ بابُُ کُلُ نفسِِ دَا خِلُو

دنیا میں کہیں کوئل کی کو ہے ، کہیں پر سکون بادِ صبا ، کہیں نکہتِ گُلِ بر دوشِ ہوا ، کسی جگہ سر سبز و شاداب وادیاں ، کہیں پھولوں اور پھلوں سے لدے شجر ہائے رنگا رنگ ، کہیں قُمری کی ہو ، کہیں حُسن ہے ، جمال ہے ، کیف و سرور ہے ، فضا فرحت آگیں ہے نشاط و انبساط ہے ، کہیں نسیم ِ رحمت چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے تو کہیں منجمد کر دینے والی سرد ہوائیں ، کسی جگہ بھیانک چٹانیں ، کہیں خونچکاں درندے لیکن ایک دن ان سب چیزوں نے فنا کا جام نوش کرنا ہے ، لباسِ حیات انسان مستعار ہے ، اس چمنستان ِ جہاں میں جس سرو سہی نے چمن وجود میں بلندی حاصل کی ہے اسے آرہ فنا نے بیخ و بُن سے کاٹا ہے۔

یہاں پر جس نے بھی رختِ آمال و آمانی عرصہ زندگانی میں لا کر رکھا اس کو لازمی طور پر فریب دے کر اجل نے لوٹا اس جہان ِ فانی میں چند شخصیات ایسی ہیں جو اپنے فکری انقلاب اور مثبت کار ہائے نمایاں کی وجہ سے مرنے کے بعد بھی زندہ و جاوید رہتی ہیں ، انہی معدودے چند میں با کمال ، نیک سیرت اور عظیم انسان، صاحب ِ ایمان و ایقان، مردِ آہن، زندگی کے ہر انقلابی اور فکری پلیٹ فارم کی جان، عشقِ رسول ۖ سے ہنستا ، مسکراتا چمنستان، اتحاد ِ اُمت کی پہچان صاحبزادہ سید خورشید احمد گیلانی کا شمار بھی ہو تا ہے۔

خوبصورت گھنی داڑھی ، مونچھوں کا اپنا منفرد سٹائل ، سر پر سجی سندھی ٹوپی، چمکتا دمکتا چہرہ، امت مسلمہ کے غم میں سوچتا ہوا ذہن، دھڑکتا ہوا دل، گفتار میں مدنی مٹھاس، نفاست و پاکیزگی کا مظہر، خوبصورت لباس، کردار میں نکھار، جب منبر رسول ۖ پر بولتے تو یوں محسوس ہوتا کہ فکر و دانش کی بارش ہو رہی ہو ۔ صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی کو مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے بو لتے وقت آپ کے لفظوں کا انتخاب اور جملوں کی حسن آفرینی سننے والوں کو اپنی طرف جذب کر لیتی تھی جس طرح صبح کے وقت چہکتے، مہکتے گلاب کے پھولوں کو شبنم کے نرم و نازک قطرے ان کی رعنائی و زیبائی میں اضافہ کر دیتے ہیں اسی طرح خورشید احمد گیلانی کا مسحور کُن لب و لہجہ تا روں بھری رات میں قُمری نور کی مانگ بھر دیتا ہے۔

آپ کا یہ بھی خاصہ تھا کہ عشق ِ رسول ۖ کی مستی میں سر مست تھے آپ کی باتیں عشق رسول ۖ کی خوشبو کا پتہ دیتی تھیں، آپ کی زندگی کا ہر قدم اسلام کی سر بلندی ، ملک و قوم کی بہتری اور اتحاد و اُمت کے لیے ہی تھا، کریم بلاک علامہ اقبال ٹائون میں واقع آپ کا خوبصورت دفتر اتحاد اُمت کے حوالے سے ایک مرکز کی حیثیت رکھتا تھا صاحبزادہ خورشید گیلانی نے طویل عرصہ تک حافظ آباد کے علم و عرفان کے پیاسوں کوجامع مسجد الفتح کے منبر سے حکمت و دانش کے کٹورے بھر بھر کے پلائے اور حافظ آباد کو جب خُدا حافظ کہہ کر داتا کی نگری کے باسیوں کو علم و عرفان سے روشناس کرانا شروع کیا۔

Data Saab

Data Saab

تو داتا کی نگری کے دیوانے آپ کے گرد ایسے منڈ لانے لگے جیسے شمع کے گرد پروانے گردش کرتے ہیں اور صاحبزادہ صاحب ایسی شمع تھے جو بھی آپ سے وابستہ ہو تا گیا حیاتِ جا وداں حاصل کرتا گیا ، راقم الحروف کا رشتہ صاحبزادہ صاحب سے ایک استاد اور شاگرد والا تھا مگر انہوں نے ہمیشہ مجھے اپنا چھوٹا بھائی ہی سمجھا ، انتہائی شفقت فر ماتے تھے مجھے اس بات کی سعادت حاصل ہے کہ اکثر اوقات جتنا وقت آپ کے پاس ہوتا مجھے اپنی راہنمائی سے نوازتے صاحبزادہ صاحب میرے فکری مرشد ہیں جھوٹ سے آپ کو سخت نفرت تھی حق بات کہنے سے آپ کبھی بھی نہیں گھبرائے۔

صاحبزادہ خورشید گیلانی نے علم و فکر اور گفتار و کر دار کی تطہیر کے اصول بنائے پھر ان اصولوں کی روشنی میں زندگی گزاری سچ کہا کسی نے کہ ”ان کی وفات کے بعد اصولی اور فکری سوچ کا باب بند ہو گیا ” ایک ایسی عظیم شخصیت تھے جن کا چہرہ قسم قسم کے پہلو ئوں میں بڑا ہی روشن تھا اس خدا مست درویش نے مسلمانوں کو زندگی کی صحیح قدر و قیمت اور ایمان کی حقیقت سے روشناس کرایا۔

خورشید گیلانی صاحب کا طرزِ زندگی بند گان ِ سیم و زر کے لیے موت کا پیغام تھا صاحبزادہ صاحب کے اندازِ حیات نے دین کے پردے میں دنیا پرستی ، ہوس پرستی ، تبلیغ و تعلیم کے پردے میں زر اندوزی اور جاہ طلبی کو بے نقاب کیا ، خورشید گیلانی کی غیرت فقر نے بڑے بڑے کاسہ لیسوں کو شرمندہ کیا ، ان کی رواداری نے مذہبی شعبدہ بازوں کا پول کھولا ، ان کی خاک نشینی نے تخت و تاراج والوں کو چیلنج کیا آپ نے ہمیشہ آمر و فاسق و فاجر حکمرانوں کو للکارتے ہوئے ابنِ تیمیہ کے اس کڑک دار جملے کو جو انہوں نے با جبروت منگول حکمران کو اسی کے دربار میں مخاطب ہو کر ادا کیے تھے۔

تمہاری سلطنت اور خود تمہاری ذات میری جیب میں پڑے ہوئے چھوٹے سے سکے کے برابر بھی نہیں ” کو حرزِ جاں اور وردِ زباں بنائے رکھا کسی بھی عہد حکمران میں قائم ”نیب ” نما سرکاری ادارہ یا الزام تراش درباری کمپنی گیلانی صاحب پر الزام اور بہتان نہیں لگا سکی کہ انہوں نے کبھی بھی ملکی خزانے سے اپنے قلم کا نا جائز استعمال کرتے ہوئے ایک پائی بھی وصول کی ہو ، گیلانی صاحب نے ہمیشہ اپنے قلم کو ملک و قوم کی تعمیر و ترقی اور اسلام کی سر بلندی کے لیے استعمال کیا انہوںنے ہر دور میں اپنے آپ کو داغِ ندامت سے محفوظ رکھا ہے۔

صحافت میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی ”دیہاڑیوں ”اورسیاست کی خاردار” جھاڑیوں” سے اپنے دامن کو بچا کر صاف ستھرا رکھا ہے وہ کبھی بھی بحمدللہ تعالیٰ جنسِ بازار نہیں بنے جب صحافت ٹکے ٹوکری ہونے لگی تو ایسے میں اہلِ صحافت اور اہل ِ اسلام کے کاروان میںاس مردِ حُر نے پاک سر زمین ، کشور حسین ، مرکز ِ یقین اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے ساتھ ساتھ دینی افکار کی بھی پہریداری اور چوکیداری کا فریضہ خوب نبھایا ہے اور دو قومی نظریہ کو اپنے بھونڈے طریقے سے تار تار کرنے اورنظریاتی دیواروں کو گرانے والوں پر اپنی حُب الوطنی کی کاری ضرب لگا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُن”سُورمائوں ” کے آگے بند باندھا ہے۔

قائد اعظم علیہ الرحمة کی ذات پر رکیک حملے کرنے والے جعلی ”پیر زادے ” ہوں یا جاتی اُمراء کے دستر خواں سے چچوری ہڈیاں چوسنے والے ”نقشِ خیال ” کے فقیر زادے ہوں اِن سب”قاسمی ” چھوکروں اور”دینار پیشہ ” نوکروں کی ”ایثار پیشہ ”اہلِ قلم وفکرو دانش کے پیکر میں ڈھلے اس جینوئن دانشورنے ہمیشہ کلاس لی ہے۔

سیاست کے بے ہنگم ایوان کے بازی گروں اور صحافت کے میدان کے بعض شعبدہ بازوں نے اپنی ملک دشمنی پر مبنی ”سیاسی بصیرت ” اور بے ربط و کج مج صحافتی ”دانش ”کے بل بوتے پر ملک و قوم کی بنیادوں میں گہرا شگاف ڈالنے کی بھر پور کوشش کی ہے ارباب ِ صحافت کے قلم کی روشناہی جب سیاسی پنڈتوں ، مذہبی بر ہمنوں اور فارن فنڈڈ این جی اوز کے خفیہ اور مکروہ گو شوں کو عوام کے سامنے لانے کی بجائے ان کے کار نا موں کو ”خدمت خلق ” اور۔خدمت دین ” کا چُغا و چو لا پہناتی ہے۔

تو مو لانا ظفر علی خان ،مو لانا حسرت مو ہانی ،مو لانا محمد علی جو ہر ،آغا شورش کاشمیری اور صاحبزادہ سید خورشید گیلانی کی روح ماہی بے آب کی طرح تڑپ اُٹھتی ہو گی وہ قلم جس سے خالق کائنات انسان کو علم سیکھنے کا سلیقہ سکھا رہا ہے اسی قلم کی تقدیس و حُرمت کے پر خچے اُڑائے جا رہے ہیں اربابِ صحافت نے جب سے قلم کی حُرمت کا ”اتوار بازار ” سجایا ہے۔

دانش و حکمت ٹکے ٹوکری ہو گئی ہے لیکن صحافت کے اس ”اتوار بازار ” میں ابھی بھی ایسے نگینے باقی ہیں جن کو ماتھے کا جھومر بنانے کو جی کرتا ہے ایسے کالم نگار اور اربابِ صحافت نے ہمیشہ اس گلے سڑے معاشرے میں صندل کا کام دیا ہے اور ان کے قلم سے ہمیشہ وطن کی سا لمیت اور احترام ِ آدمیت کی تحریر ہی رقم ہوتی رہی ہے ، دس نمبرے اربابِ صحافت اور احبابِ سیاست نے بریفو کریسی اور لفافہ کریسی کی زنجیر ِ محبت میں گرفتار ہو کر ملک و قوم کی کشتی کو ساحل ِ مُراد تک پہنچانے کی بجائے ہمیشہ بھنور ہی میں ہچکولے کھانے کے لیے پھنسائے رکھا ہے۔

بڑے بڑے پر دھان منتری ، سیاسی پنڈت اور مذہبی برہمن خورشید گیلانی کے گھر اور دفتر کا طواف کرتے دیکھے گئے ایک مرتبہ راقم الحروف کی موجودگی میں ایک بہت بڑا مذہبی برہمن اپنی جھوٹی شخصیت کے حوالے سے گیلانی صاحب کے قلم سے اپنی تعریف و توصیف لکھوانے کی ضد کر رہا تھا اور اس کے عوض بہت بڑی پیشکش بھی کر رہا تھا مگر گیلانی نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ ” میں نے کبھی قلم کی حرمت کو بیچا نہیں ہے۔

میرا اپنا سودا بازار ِ مصطفیٰ ۖ میں ہو چکا ہے آئندہ مجھے زر کے ترازو میں تولنے کی کوشش مت کرنا”بڑے بڑے سیاسی پنڈتوں کی خواہش ہوتی تھی کہ صاحبزادہ صاحب کی زبان اور قلم سے ہمارے لیے تعریفی الفاظ نکلیں مگر ان کی حسرتیں اس وقت دم توڑ جاتی تھیں جب خورشید احمد گیلانی کے قلم سے ان کے کالے کر توتوں کا پردہ چاک کیا جاتا گیلانی صاحب خطیب بھی غضب کے تھے مگر کبھی بھی کسی بادشاہ کے نام کا خطبہ نہیں پڑھا کسی بھی وڈیرے کی نگاہ ِ عنایت کے محتاج نہیں رہے کبھی بھی غیرت فقر نیلام نہیں کی ،ہمیشہ ”دینار پیشہ ” کی بجائے ”ایثار پیشہ ” رہے اور اپنے عقیدت مندوں کو بھی یہی درس دیتے رہے ، قوم کو ہمیشہ وطنیت ، قومیت ، رنگت اور لسانیت کے تنگ دائروں اور تاریک کوٹھڑیوں سے نکال کر ”آفاقیت آشنا ” ہو نے کا درس دیااور خود بھی اس کی عملی تصویر تھے۔

زر اور زمین کو ہی سب کچھ سمجھنے والوں کے ذہنوں میں توکل اللہ کی روح بیدر کی ،حاکمیت ، چودھراہٹ اور مخدومیت پر ہمیشہ خدمت کو ترجیح دی ،آپ نے کینسر جیسے موذی مرض کا انتہائی جرات اور استقامت سے مقابلہ کیا اور با الآ خر اُمت مسلمہ کا یہ عظیم دانشور ، سکالر اور ہمدرد 5 جون 2001ء میں دار الفنا ء سے دار البقاء کی طرف رختِ سفر باندھ گیا۔

آپ کے برادر عزیز صاحبزادہ سید احسان احمدگیلانی نے بیماری کے دنوں میں ان تھک خدمت کرکے حقیقی معنوں میں ایک بھائی کا کردار ادا کیا اور تادم تحریرخورشید گیلانی ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے آپ کی تحریروں اور افکار سے اُمت کو روشنی بانٹ رہے ہیںاور اب حال ہی میں آپ کے قلم سے لکھی گئی پہلی کتاب ”روح ِ تصوف”اور ”قلم برداشتہ ” کے نئے ایڈیشن بھی چھپ کر مارکیٹ میں آچکے ہیں خورشید کی فطرت میں طلوع کے بعد غروب بھی ہو نا ہے میرا خورشیدایسا ”خورشید ” ہے۔

جو کبھی بھی غروب نہیں ہوگا بلکہ اپنی فکر ، دانش اور علم و عرفان کی وجہ سے ہمیشہ انسانیت کو اپنی عنابی اور انقلابی کرنوں سے منور کرتا رہے گا اللہ تعالیٰ ان کی تربت پر کروڑوں رحمتیں نازل فر مائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فر مائے ( آمین)۔

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر ! نعمان قادر مصطفائی