تحریر: انجم صحرائی سانحہ چک 105 لیہ کے تناظر میں لکھی گئی ایک نا مکمل تحریر موت نے اتنا کبھی نہیں دہلایا جتنا پچھلے چند دنوں سے اس نے اپنے سائے گہرے کئے رکھے ، غضب خدا کا خو شی کے لڈووں نے پوری بستی میں سکوت مرگ طاری کریا ۔ دو ہفتوں سے زیادہ ہونے کو ہے کوئی دن ایسا نہیں گذرا جب بستی والوں نے اپنے پیاروں کا جنازہ نہ پڑھا ہو اب تو لوگ قبریں کھود کھو د تھک گئے ہیں ۔ پتہ ہے پ کو اب تک بستی والے کتنے جنازے اٹھا چکے ہیں پورے اٹھا ئیس نہیں پورے تیس ۔ میں نے دیکھا کہ تیس کا لفظ کہتے ہو ئے اس کے جبڑے بھنچ گئے آنکھیں پھیل گئیں گردن کی رگیں ابھر آئیں اور سانس بے ربط ہو گیا ۔ مجھے یوں لگا کہ جیسے اس کے چہرے پر موت کی سفیدی پھیل گئی ہو ۔ وہ چپ تھا اور اپنی پھو لی ہو ئی سانس سنبھالنے کی کو شش کر رہا تھا چلتی کار میں ایک دم کربناک خاموشی چھا گئی اور ہم سب ایسے چپ ہو گئے جیسے موت کا جن گاڑی میں گھس آ یا ہو ۔ تھوڑی دیر بعد وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور اپنی دو نوں ہتھیلیوں سے آ نکھوں کو بے دردی سے مسلتے ، رخساروں پر بہتے آ نسو صاف کرتے ہو ئے بولا صاحب اس چک کے ہم سب لوگ مر گئے ہیں ہر گھر مں جنازہ ہے میں کیا بتائوں کہ کتنے مرے؟
وہ ہمیں راستے میں ملا تھا ،گیارہ موڑ سے چک 105 کی طرف جانے والے سولنگ کی طرف ہماری گاڑی مڑی تو وہ بائیں جانب ایسے ٹھہرا تھا جیسے اسے کسی نے زبر دستی کھڑا کیا ہوا ہو۔۔ بیزار سا۔۔ لا تعلق ۔میں نے طارق سے کہا کہ عمر حیات کے گھر کا پتہ نہ پو چھ لیں ؟ ڈرائیور نے کار اس کے قریب روک لی میںنے سا ئیڈ شیشہ نیچے کیا اور پو چھا چک 105کو یہی راستہ جاتا ہے اس نے ہلکے سے ہاں میں گردن ہلائی عمر حیات کو جانتے ہو اس نے کہا ۔۔۔ جی اس کا گھر کہاں ہے َ؟ اس نے “چلو میں بتاتا ہوں ” کہتے ہو ئے کار کا پچھلا دروازہ کھو لا اور پوچھے بغیر گاڑی میں بیٹھ گیا۔
گاڑی چلی تو میں نے پو چھا یہ سب کیا ہوا۔ اس نے میرے سوال کا جواب تو دیا مگر اس کے جواب اور بکھرے رد عمل نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اب وہ ہچکیاں لے رہا تھا میں نے اسے رونے دیا مجھے علم تھا کہ دکھ غم اور کرب کی اس آ گ کو آ نکھ کا پانی ہی بجھا سکتا ہے ۔ کار میں خاموشی گہری ہو گئی تھی تھوڑی دیر بعد وہ نارمل ہو گیا اور بھرائی ہو ئی آ واز میں بو لا ۔ وہ سامنے ہے عمر حیات کا گھر۔ ڈیڑھ دو سو کچے پکے مکا نوں پر مشتمل چک 105 کے تقریبا درمیان میں ایک ٹیلے نما چبوترے پر پکی اینٹوں سے بنا سیاہ ٹین کے دروازے والا ایک کمرہ اور ساتھ چار دیوار ی پر مشتمل عمر حیات کا یہ گھر گیارہ موڑ سے آ نے والے سو لنگ کے عین متھے پر واقع ہے ۔ اس گھر کے مکین اپریل2016 کی انیس تاریخ کو اس وقت ایک بڑی خبر بنے جب عمر حیات کے بیٹے سجاد کے گھر پیدا ہو نے والے بچے کی خو شی میں گائوں میں مٹھا ئی تقسیم کی گئی اور خوشی کے یہ لڈو اس المناک انسانی سانحہ کا سبب بن گئے جس میں30 سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بنے کہتے ہیں مٹھائی میں زہر ملا تھا۔
Mansion
عمر حیات کے گھر کی بیٹھک کا دروازہ کھلا تھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا گلی سے گذرنے والے ایک شخص نے اشارہ کرتے ہو ئے ہمیں بتایا سارے لوگ اکرم جٹ دی حویلی میں بیٹھے ہیں آج وزیر اعلی آ ئے تھے ناں ابھی گئے ہیں اس لئے سارے اوتھے ای بیٹھے نیں اکرم جٹ کی بڑی سی حویلی کے بڑے گیٹ کے سامنے ایک دو جانور بندھے تھے ہم اندر داخل ہو ئے تو دیکھا کہ مغرب کی طرف دیوار کے ساتھ بنے ایک چھپر تلے ایک جھلنگا سی چارپائی پر ایک بزرگ بستر سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے مگر وہ عمر حیات نہیں تھے منجے کے ساتھ دو نوں اطراف میں رکھی قطاروں میںٹینٹ والوں کی فوم والی دس بیس کرسیاں رکھی تھیں ایک کرسی پر ایک بوڑھا سانوجوان بیٹھا تھا۔ ہم خاموشی کے ساتھ کر سیوں پر جاکر بیٹھ گئے بزرگ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور ہم بھی دعا میں شا مل ہو گئے ۔ عمر حیات نہیں ہیں کیا ۔ طارق نے خامو شی کا بت توڑا نہیں اوہ ہنیں باہر نوں گیا گیا ہے ، بزرگ کے ساتھ بیٹھے نو جوان نے جواب دیا کتھے ؟ میں نے آ گے بات بڑ ھا ئی بزرگ نے مجھے غور سے دیکھا اور پو چھا تسی کون ہو؟
میرے تعارف کرانے پر ان کے چہرے کا تنائو قدرے کم ہوا اور کہنے لگے او دفتر گیا ہے کو ئی چیکاں شیکاں دا کم سی ۔ ڈی سی او دے دفتر ہوں ۔میں منمنایا کس طرح ہو گیا اے سب کچھ میں نے بستر سے ٹیک لگائے بابے غلام مصطفے سے پو چھا وہ کسمسا یا اور دھیمی آواز میں بو لا ۔۔ایہی گل تے سانوں وی سمجھ نہیں آ ئو ندی کہ ایہہ سب کچھ کس طرح ہو گیا یہ کہتے ہو ئے بزرگ غلام مصطفے کی آ نکھوں میں چھپی برسات مچلنے لگی اور پھر اس نے بات مکمل کئے بغیر چپ سادھ لی تھوڑے وقفے کے بعد وہ سنبھلا اور بولا سب سے پہلے میں اور اقبال عرفان کو لے کر ملتان گئے تھے نشتر سے ایک کلہ پہلے ہی عرفان مر گیا ۔ہم اسے لے کر واپس آ ئے ابھی میت کو غسل دے کر کفن ہی پہنایا تھا کہ دوسری میت آ گئی بس پھر ایک کے بعد ۔۔ایک کے بعد میتیں آ تیں گئیں اور ہم بس میتیں نہلاتے رہے اور کفن پہناتے رہے ۔۔ کیا یہ مٹھا ئی خاص طور پر بنوائی تھی آ پ لو گوں نے میں نے بو جھل لہجے میں پوچھا؟
نہ جی نہ ، ہو یا ایہہ سی کہ سجاد جید ھے گھر منڈا ہو یا اس کا بھا ئی ارشاد پڑوس والے چک تین کے اکبر کے سانجھا کاروبار کرتا ہے ، رات کو بیٹا پیدا ہوا تو سجاد اسکی بیوی اور سارے گھر والے بہت خوش تھے سب مبارکاں دینے والے مٹھا ئی مانگ رہے تھے اگلی صبح سجاد نے ارشاد سے کہا کہ چلو میں تمہیں تین چک بھی چھوڑ آ تا ہوں اور وہاں سے مٹھا ئی بھی لیتا آ ئوں گا گائوں والوں کا منہ میٹھا کرادیں گے ۔ بس جی سجاد ارشاد کو چھوڑ نے گیا تو وہاں اکبر نے بھی بیٹے کی مبارک باد دیتے ہو ئے منہ میٹھا کرانے کی بات کی ، سجاد نے کہا چلو یہیں سے مٹھائی لے لیتے ہیں اکبر بو لا نہیں یار گیارہ موڑ پر جو دکان ہے نا مٹھا ئی وہاں کی اچھی مٹھا ئی ہو تی ہے وہاں سے کیوں نہیں لیتے ؟ سجاد نے کہا وہاں سے لے لیتے ہیں وہ اور اکبر اکٹھے گیارہ موڑ آ ئے اور وہاں سے سجاد نے پورے ساڑھے چار کلو مٹھا ئی خریدی ۔آ دھا کلو مٹھا ئی سجاد نے اکبر کو دے دی اور باقی چار کلو لے گر گھر آ گیا ۔
Sweets
پھر؟پھر کیا ہونا تھا جی مٹھائی گھر والوں نے بھی کھائی محلے داروں رشتہ داروں میں بھی تقسیم کی جو کھاتا گیا اس کی طبیعت خراب ہو تی گئی سب سے پہلے عرفان کی طبیعت خراب ہو ئی چک میں ایک ڈسپنسر ہے وہ اس کے پاس چلا گیا اسے بتایا کہ طبیعت میں بوجھ ہے دل گھبرا رہا ہے حلق خشک ہو رہا ہے پسینے آ رہے ہیں اس نے اپنی سمجھ کے مطا بق کو ئی دوائی دی کچھ افا قہ ہوا مگر رات گئے اس کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی صبح ہو ئی تو میں اور اقبال اسے لیہ ہسپتال لے گئے ۔ وہاں جو ڈاکٹر تھے انہہوں نے ٹیسٹ وغیرہ کرائے مگر انہیں کچھ سمجھ نہیں یا کہ کیا ہوا ہے آ خر انہوں نے ہمیں کہا کہ مریض کو نشتر لے جا ئو اور ہم اسے لے کر جونہی ملتان نشتر کے قریب پہنچے اس نے دم توڑ دیا ۔بابے نے بات ختم کرکے ایسے لمبا سا سانس لیا جیسے وہ بہت تھک گیا ہو ۔ اکبر نے بھی مٹھائی کھائی ؟ ہاں جی چک تین کے اکبر کے گھر والوں نے بھی لڈو کھائے اس کے بھی تین بچے مر گئے اب بھی اس کی دو بیویاں اور تین بچے ہسپتال میں ہیں اتنے میں ایک لمبے قد کا باریش نو جوان بھی آ کر بابے کے سرہانے بیٹھ گی ۔ یہ اقبال ہے جی عمر حیات کا چھوٹا بھائی بابے نے تعارف کرایا اقبال نے ہاتھ ملایا اور پوچھا کس ایجنسی سے تعلق ہے آپ کا ؟
میں نے اپنا تعارف کرایا تو اس نے زور سے سر ہلایا اور سوالیہ نظروں سے ہمیں دیکھنے لگا اقبال کتنے بہن بھائی ہیں آپ سب لوگ میں اور بھائیا (عمر حیات ) دو بھائی اور چار بہنیں فاطمہ ، ہاجرہ ، ناصرہ اور صابرہ عمر حیات کے بارے کچھ بتا ئو مجھے اپنے سوال بڑے کھو کھلے محسوس ہو رہے تھے بھا ئیا ابھی چھو ٹا تھا جب اسے بڑا بخار ہوا کہتے ہیں اسے ٹائیفا ئیڈ ہوا تھا جس سے اسکی ٹانگیں کمزور ہو گئیں ، بندہ بڑا ہمت والا ہے جی اقبال دور کہیں خلا میں کچھ ڈھو نڈھتے ہو ئے بولا بھا ئیا نے شادی کی تو اللہ نے اسے آ ٹھ لڑکے اور دو لڑ کیاں دیں اب ان میں سے بس ایک بیٹی فرزاننہ بی بی زندہ ہے جی ۔۔ بس جی اللہ کی حکمت اللہ ہی جانے۔
اقبال کی بات سن کر دیر تک ہم میں سے کوئی کچھ نہیں بول سکا لگتا تھا کہ کچھ رہا ہی نہیں بو لنے کو ۔۔ خامو شی کی کہر گہری ہو ئی تو با با بڑ بڑانے لگا سمجھ نہیں ئو ندا جیہڑا ہسپتال نہیں گیا اوہ بچ گیا جو ہسپتال گیا تے جنہوں ڈاکٹراں ٹیکہ لا یا اوہ مر گیا ، با بے نے میری طرف دیکھا اور بولا میں جھوٹ نہیں بو لتا ایک بچی کو ہم وینٹی لیٹر سے زبردستی لے آ ئے وہ آج بھی زندہ ہے اور ایک نو جوان جس نے لڈو بھی نہیں کھا ئے تھے اس کی طبیعت میتیں دیکھ دیکھ کر خراب ہو ئی اسے ہسپتال میں ٹیکہ لگایا وہ مر گیا پتہ نہیں کو نسا ٹیکہ تھا وہ کہ جس جس کو لگا وہ سب مر گئے ۔۔پتہ نہیں کیہڑا ٹیکہ سی ۔۔ سا نوں پتہ تے لگے، سانوں پتہ تے لگے ، سانوں پتہ تے لگے بابا زیر لب خاسی دیر تک بڑ بڑاتا رہا۔
Inquiry
اقبال نے بابے کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی اقبال کی آنکھیں بھی مجھے بھری بھری لگیں وزیر اعلی آئے تھے کیا کہہ گئے ؟ انہوں نے کہا ہے کہ انکوائری ہو رہی ہے دو ہفتوں میں تحقیقاتی رپورٹ آ جا ئے گی میں دوبارہ آ ئو ں گا کسی ذمہ دار کو نہیں چھوڑوں گا ، حکومت متا ثرین کے بچوں کو نو کریاں دے گی بس یہی با تیں جی۔ آ پ نے اپنا موقف نہیں بتایا ۔۔ َ بتایا جی ہم نے بتا یا کہ ڈاکٹروں نے ہمارے مریضوں سے کیسا سلوک کیا ، نشتر میں ہمارے ساتھ کیا ہوا ہمارے بندے ٹیکے لگنے سے مرے ۔ سارے وہ مرے جنہیں ٹیکے لگے جو ہسپتال نہیں گئے یا ہسپتال سے بھاگ آ ئے وہ سارے بچ گئے۔
حکو مت نے پیسے بھی تو دیئے ہیں ناں ، ہاں جی مرنے والوں کا معاوضہ ملا ہے ہمیں مگر بھا ئیا سچ کہتا ہے کہ سارا خاندان قبرستان میں چلا گیا پیسوں کا کیا کریں گے میں نے سو چا بھا ئیا عمر حیات سچ کہتا ہے دولت انسا نوں اور رشتوں کا نعم البدل نہیں ہوتی میں سجاد کے بچے کو دیکھ سکتا ہوں ؟ میں نے اقبال سے پو چھا کیوں نہیں جی ضرور ملو اقبال سے پہلے با بے نے اجازت دے دی اور ہم پیدل عمر حیات کے گھر کی طرف چل پڑے ۔ حویلی سے گھر کی طرف جانے والی گلی مڑے تو اقبال بو لا کل پرسوں ایک صاحب آ ئے وہ بھی کو ئی اخبار والے تھے پو چھنے لگے کہ اس بچے کی پیدا ئش پر مٹھا ئی کھا نے سے اتنے لوگ مر گئے کیا گائوں والے اسے منحوس سمجھتے ہیں یہ کہتے ہو ئے اقبال رو ہا نسا ہو گیا دیکھو جی اس میں اس معصوم کا کیا قصور ؟ میں چپ رہا میرے پاس تو کہنے کے لئے کچھ تھا ہی نہیں۔۔
اقبال ہمیں بیٹھک میں بٹھا کر اندر چلا گیا تھوڑی دیر بعد اس نے ایک معصوم سی ننھی منی پا کیزہ روح میرے ہا تھوں میں لا دی وہ سویا ہواتھا میرے ہا تھوں کی جھو لی میں آیا تو اس نے آ نکھیں کھول دیں مجھے لگا جیسے کہہ رہا ہو انکل کیا میں منحوس ہوں ؟ نہیں انکل منحوس میں نہیں یہ سماج ہے یہ سماج جو زندوںکا قبرستان ہے ۔ جہاں مرنے والوں کا سوگ بھی ولیمے جیسا ہوتا ہے زہر ملتا ہے انصاف نہیں ۔۔موت ملتی ہے زندگی نہیں ۔۔میں اس ننھی جان کی پٹپٹا تی چھو ٹی چھو ٹی آ نکھوں کی جلن برداشت نہ کر سکا اور پھر میں نے اعتراف جرم میں اپنی آ نکھیں بند کر لیں۔۔