اب وہ وقت نہیں ہے ،یہ وہ جملہ ہے جوعمر کے ہر حصے میں سماعتوں کی زینت بنتا ہے کبھی تلخ لئے ہوتا ہے تو کبھی طنز کے زہر میں بجھا ہوا ہوتا ہے اور شائد کبھی خوشگوار احساس بھی لے آتا ہے۔ اب وہ وقت نہیں ہے یہ وہ جملہ ہے جو ہوش سنبھالنے سے لیکر اپنے والد کے حیات رہنے تک ہماری سماعتوں کی زینت بنتا رہا ۔ عمر کی ناپختگی اور نا تجربہ کاری سمجھ لیجئے کہ ہمیشہ اس جملہ کی مخالفت کی، کبھی اعلانیہ اور کبھی بس دل میں ہی۔ اس جملے کیساتھ بیشمار لاحقے بھی ہوا کرتے جیسے اب وہ وقت نہیں جب خلیفہ جی فاختہ اڑایا کرتے تھے ، اب وہ وقت نہیں جب چار آنے میں بہت سارا سودا آجایا کرتا تھا وغیرہ وغیرہ اور آج یہ جملہ ہم بہت حسرت کیساتھ ادا کر رہے ہیں کہ اب وہ وقت نہیں جب بچے اپنے بڑوں کے آنکھوں کے اشارے سے ڈر جایا کرتے تھے۔ ان ہی بچوں نے اس جملے کو بھی جدیدیت بخشی ہے ایک دادا نے اپنے پوتے سے کہا کہ ہمارے وقت میں تو تھوڑے سے پیسوں میں بہت سارا سامان آجایا کرتا تھا تو پوتے نے دادا سے کہا کہ دادا اب دکانوں میں کیمرے لگے ہوتے ہیں۔
ابھی دس پندرہ سال پرانی بات ہے کہ ہم دس پندرہ دوست روزانہ گھنٹوں ساتھ بیٹھا کرتے تھے (ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ہمارے پیروں میں سفر بندھے ہیں)اور دنیا جہان کے معاملات زیر بحث آتے تھے ، اختلافات بھی ہوتے تھے اعتراضات بھی اٹھائے جاتے تھے لیکن وقت ایک ساتھ ہی گزرتا تھا ۔ وہ وقت بھی تھا جب بے خوف بچے گلیوں میں کھیلا کرتے تھے ، دوپہر کے وقت تیز دھوپ میں مسجدوں میں قران پڑھنے بچوں کے غول کے غول جایا کرتے تھے کوئی غول کسی مسجد میں جاتا تھا اور کوئی غول کسی مسجد میں کبھی کبھی دوڑیں لگا کرتی تھیں کہ مسجد میں پہلے کون داخل ہوگا اور پھر جب مسجد سے چھٹی ہوتی تھی تو شور مچاتے بھاگتے مسجد سے باہر نکلتے ، کبھی کبھی ٹڈیوں کو جنہیں ہیلی کاپٹر بھی کہا جاتا تھا پکڑنے کھڑے ہوجاتے کوئی کسی کو اپنا سامان پکڑواتا اور ہیلی کاپٹر پکڑکر دینے کا وعدہ کرتا ایسے ہی سب اپنے اپنے گھر چلے جاتے گھر میں کیا ہے کیا نہیں کوئی فکر کی بات نہیں تھی ۔ کچھ دیر کیبعد ٹیوشن جانے کا وقت ہوجاتا تھا اور اسی طرح سے ایک دوسرے کو جمع کرتے ٹیوشن پڑھنے پہنچ جاتے تھے کس نے کیا پہنا کس نے کیا کھایا کو معنی نہیں رکھتا تھا۔ ٹیوشن میں ایک ہنگامہ برپا کرکے رکھتے تھے پٹائی بھی ہوتی تھی مرغے بھی بنتے تھے لیکن جب چھٹی ہوتی تھی پھر وہی شور کرتے ہوئے اپنے اپنے راستے ناپتے بھاگتے گھروں کو پہنچ جاتے تھے ، ان ساری مصروفیات کے باوجود دن میں کچھ وقت آرام کا بھی مل جاتا تھا جسکا کسی کو کوئی ہوش نہیں ہوتا تھا مگر امی کی ڈانٹ ڈپٹ کی وجہ سے کرنا پڑتا تھا۔ اتنی بے قاعدگی کے باوجود سب کچھ قاعدے سے ہوتا جاتا تھا۔ دن گزر جاتا تھا دن گزرگئے لیکن اب وہ وقت نہیں ہے ۔ ایسا نہیں کہ آج بچے نہیں ہیں بچے تو بہت ہیں لیکن بچپن نہیں ہے وہ بچوں کی معصومیت نہیں ہے۔
اب وہ وقت نہیں ہے، اب ہم تمام دوست پیروں میں سفر لئے کہیں کہیں پہنچ چکے ہیں اور یہ سفر ابھی جاری ہے اب ہم سالوں میں کبھی بیٹھتے ہیں لیکن شائد ہی کبھی پورے ہوئے ہوں جب بھی جوبھی دستیاب ہوتا ہے مل کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر سے اپنے آپ کو پندرہ سال کم عمر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ آج دنیا کی ترقی انتہائی بلندی پر پہنچ چکی ہے ملاقاتوں کے لاتعداد ذرائع ہمارے پاس موجود ہیں اور گاہے بگاہے رابطے ہوتے ہی رہتے ہیں ۔لیکن اس جملے کی حقیقت اور بہت ساری باتوں کی طرح اپنے وقت پر ہی سمجھ آئی ، جب پہلی دفعہ اپنے بچے کو کہا کہ بیٹا زیادہ وقت باہر نا رہا کرو حالات ٹھیک نہیں ہے کیونکہ اب وہ وقت نہیں رہا۔
آخر یہ وہ وقت کون سا ہے جس کا ذکر ہر دور میں اور تقریباً ہر فرد ہی کرتا سنائی دیتا ہے کہیں یہ وہی وقت تو نہیں ہے جس کا ذکر اللہ رب العزت نے زمانے کی قسم کھا کر بتایا ہے کہ انسان خسارے میں ، اپنے اس خسارے کو چھپانے کیلئے الزام زمانے یا وقت پر ڈال دیتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جو وقت گزر چکا ہوتا ہے وہ اچھا دیکھائی دیتا ہے (انسان کو ہر اس شے سے ہمدردی ہوجاتی ہے جو اسکے پاس سے جا چکی ہوتی ہے )۔ پھر وقت کا گزر جانا تو بہت ہی تکلیف دہ عمل ہے گزرتا ہوا وقت اس بات احساس اجاگر کرتا جارہا ہوتا ہے کہ دنیا کی زندگی مختصر ہوتی جا رہی ہے اس لئے انسان اپنے ساتھ والوں یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ جس وقت میں وہ خود چھوٹا تھا وہ وقت بہت اچھا تھا ، اگر حقیقت پر مبنی تجزیہ کیا جائے تو جس سے کہا جا رہا ہے اس وہ گزرتا ہوا وقت اچھا ہے کیونکہ یہی وہ وقت ہے جب اسے اس بات احساس کرنے کا بھی وقت نہیں ہے۔
اس ایک جملے کا تعلق اس دور کے معاشرتی، معاشی ، سیاسی اور نجی حالات سے ہے ۔ اگر سب معاملات توازن میں چلینگے تو کسی کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی اب وہ وقت نہیں رہا۔اس جملے سے جان چھڑانے کی کوشش کر کے دیکھ لیں ، بہت مشکل ہے کہ یہ ساتھ چھوڑ دے۔ایسے بہت سارے معاملات ہم نے اپنے اور لادے ہوئے ہیں جسکی ناکوئی مذہبی حیثیت ہے اور معاشرتی صرف اسلئے کہ لوگ کیا کہینگے ہم بدل نہیں سکتے رد نہیں کر سکتے۔
مضمون کا اختتام کرنے لگا تھا کہ کرائسٹ چرچ ، نیوزی لینڈ کے اندوہناک سانحے کی وڈیو موصول ہوئی دل غم سے نڈھال ہوگیا ہے کس بے دردی سے عبادت گاہ میں گھس کر اندھا دھند گولیاں چلائی ہیں اور سربسجود لوگ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں ۔ یہ بھی ایک فرد کی تاریخی دہشت گردی ہے جس نے مسلمانوں سے نفرت کا اظہار اتنی بے دردی سے کیا ہے کہ الفاظ بیان کرنے سے قاصر ہیں۔افسوس اس بات کا ہے کہ دنیا مسلمانوں کے خون کو خون ماننے کیلئے تیار نہیں ہے اس طرح تو یہ دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گی۔ ہر قسم کا میڈیا اس منفی عمل کو اس دہشت گرد اور اسکی دہشت گردی کو بھر پور طریقے سے مذمت کرے ۔ایسے واقعات کو روکنے اور مذہبی ہم آہنگی کی راہ ہموار کرنے میں اپنا قلیدی کردار ادا کریں۔ اللہ تمام شہداء کے لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔ آمین یا رب العالمین