تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی میں پا کستان کی مشہور معروف روحانی گدی کے موجودہ ما دیت پرست مو ٹے تا زے جوان سجادہ نشین کو مجسمہ حیرت بنا گہری خا موش نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ میں اِس امید پہ یہاں آیا تھا کہ روحانیت تصوف فقر درویشی مرشد مرید کے پیچیدہ اسرار و رموز پر علمی اور سیر حاصل گفتگو ہو گی کہیں دنیا دار سجادہ نشین روحانیت تصوف پر گفتگو کے بجا ئے اپنی دنیا وی کا میابیوں کے جھنڈے گاڑھ رہا تھا وہ اپنے شاہانہ طرز معا شرت اور لمبی چوڑی سینکڑوں ایکڑوں پر مشتمل جا گیر سے ہمیں لتاڑنے پر بضد تھا ۔ بچپن سے آج تک ہم نے جو پڑھا اور بزرگوں کے با رے میں سنا اُس کے مطابق تو اولیا ء اللہ کی کل متاع حیات حق پرستی غیرت فقر جفا کشی اہل اقتدار سے بے اغنائی اور حقیقی قناعت تھی ۔ ان کی غذا نان، جو، بھُنے ہو ئے چنے خشک روٹی کے ٹکڑے اور لباس ٹاٹ کا جس پر بے شما ر پیوند ہو تے تھے اور رہا ئش کے لیے یہ خا ک نشیں شاہی محلات سے کو سوں دور جنگلوں بیابانوں صحرائوں پہاڑوں اور دریائوں کے کنا روں پر جھونپڑوں میں مقیم ہو تے تھے شاہی لباس کی طرف ایک نظر بھی نہ دیکھا اِسی لیے کبھی بھی اُن کے دامانِ توکل پر کوئی دھبہ نہ لگا اور نہ ہی اِن فرش نشینوں نے کبھی اپنے سامنے مرغ مسلم بکروں اور شکا ری پرندوں کو بھون کر آنے والوں کو متاثر کیا کر ہ ارض کے اِس مقدس ترین گروہ نے کبھی بھی اپنے ذاتی طرز معاشرت کو اعلی بنا نے کے لیے مریدوں کی جیبوں پر لوٹ مار کی اور نہ ہی کبھی اپنے لیے بلند و بالا تا ج محل نما بنگلے کھڑے کئے اور نہ ہی کبھی بھول کر بھی غیرت فقر کا سودا کیا توکل اور فقر کا یہی وہ اعلی مقام تھا کہ اِن خاک نشینوں کی صحبت میں ایک ہی لمحہ سالوں کے زنگ کو دھو ڈالتا تھا ۔ اِن کی صحبت میں تاثیر کلام میں کشش اور کردار میں اصلی اور حقیقی پختگی نظر آتی تھی ۔
قریہ و ویرانہ سے بے نیاز یہ اللہ کے خاص بندے جہاں بھی بیٹھ گئے وہیں رونقیں اُگ آئیں یہی وہ روشن لو گ تھے ۔ جن کی بدولت اشاعت اسلام میں بے پناہ تیزی واقع ہو ئی سالوں کے گنا ہ گا روں فاسقوں فاجروں کو حقیقی تو بہ کی سعادت نصیب ہو ئی بر صغیر پا ک و ہند میں جہاں بھی اہل حق طلوع ہو ئے صدیوں کے جہا لت کے اندھیرے دور ہو ئے ۔تاریخ تصوف کے اوراق ایسے روشن لوگوں سے بھرے پڑے ہیں فیض عالم لا ہور علی ہجویری ہوں یا شہنشاہ ِ ہند خوا جہ معین الدین چشتی ہو ں یا سر ہند کے شیخ احمد مجدد الف ثانی پا ک پتن کے بابا فرید یا سند ھ کے لال شہباز قلندر شاہ عبدالطیف بھٹائی ہوں پیر جما عت علی شاہ صاحب بابا بلھے شاہ صاحب پیر مہر علی شاہ ہو شاہ سلمان تو نسوی ہوں یا خواجہ نو ر محمد مہا روی نظام الدین اولیا خواجہ قطب الدین بختیار کا کی سلطان با ہو ہو ں یا پھر شہنشاہ ِ کو ہسار امام بری ہوں ۔ آپ اِن تمام عظیم بزرگوں کے حالات زندگی سے اپنی بے نور روحوں کو روشن کریں تو یہ واضح ہو تا ہے کہ یہ پر اسرار روشن درویشان خدا مست اور خادمان ِ دین و ملت تھے۔ لا کھوں لوگوں کو جہالت سے روشنی میں لا نے والے اِن عظیم بزرگوں کی زندگیوں کا جب آپ مطالعہ کر تے ہیں تو خوشگوار حیرت ہو تی ہے ۔ کہ نہ ان کی جا گیریں تھیں نہ حویلیاں نہ بنگلے اور نہ کروڑوں کی مہنگی بڑی گا ڑیاں ۔ جس بے نیازی اور آن کے ساتھ یہ دنیا میں رہے اسی شان سے آسودہ خا ک ہو گئے ۔زندہ رہے تو حقیقی کردار کے ساتھ اور دنیا سے گئے تو بھی اصلی کردار اور حقیقی تعلیمات کی دولت چھوڑ کر گئے ۔
Landlord
اور جب آج ملک میں پھیلے ہو ئے سجادہ نشینوں کے حالات ہم دیکھتے ہیں تو عقل دنگ رہ جا تی ہے تقریباً تمام نا مور گدیوں کے سجادہ نشین اور مزارات کے مجاور سب کے سب جا گیردار بن چکے ہیں ۔ جب کہ حقیقی اللہ اللہ کر نے والے آج بھی پردہ گمنامی میں پڑے ہو ئے ہیں ۔ جب کہ سجا دہ نشین اور روحانی راہنما دوسرے جا گیرداروں سے بڑھ کر جا گیر دار ہیں آخر اِس تبدیلی کا سبب کیا ہے ۔ اِن کی جا گیریں ، ہر بڑے شہر اورپو ری دنیا میں پھیلے ہو ئے بنگلے آستانے گاڑیاں ، حویلیاں ، سواریاں اور شان و شوکت دیکھ کر انسان حیرت میں گم ہو جا تا ہے کہ یہ انہیں بزرگوں کی اولاد ہیں جو خو دکو آخری دم تک تزکیہ نفس کے کڑے مجا ہدوں سے گزارتے رہے ۔ جو آخر دم تک جو اَن چھنے آٹے کی روٹی با سی دال نہر کھال یا دریا کا پا نی اور کھدر ٹاٹ کا پرانا لباس پہنتے رہے ۔ جو آخر دم تک فرش نشیں رہے ۔ جنہوں نے مو سموں کی تبدیلیاں گر می سردی کچے جھونپڑوں میں گزاریں جو انسانوں کی اصلاح اور انسان سازی کے لیے میلوں پیدل سفر کر تے اِن بزرگوں کے طرز معاشرت سے سادگی کا نور پھوٹتا اور اگر آپ آج انہیں بزرگوں کے سجا دہ نشینوں کو دیکھیں تو اِن کے دستر خواں سیون سٹار ہوٹلوں کے ڈائینگ ہا لوں کا نقشہ کھنچتے ہیں ۔
اِن کے فریج فریزر اور ڈائینگ ٹیبل منر ل واٹر غیر ملکی جو سسز سافٹ ڈرنکس اور ”خاص” ڈرنکس سے بھرے پڑے ہیں ۔ اِن کے ریشمی مہنگے کپڑوں کی چمک سے آنکھیں خیرہ ہو جا تی ہیں اِن گدی نشینوں کے کپڑوں کا ذوق اور میچنگ دیکھ کر فلمی ہیروز کا خیال آتا ہے ۔ اِن کی ڈریسننگ اور انداز دیکھ کر لگتا ہے کو ئی بہت بڑا فلمی اداکار یا جا گیر دارہے ۔ اِن بنگلوں اور فراٹے بھرتی پجاروں کو دیکھ کر عقل حیران رہ جا تی ہے ۔ اِن کے شاہانہ طرز معاشرت کو دیکھ کر یہ خیال ضرور آتا ہے کہ یہ انہیں روشن بزرگوں کے وارث ہیں جنہوں نے کبھی اِس شاہانہ لا ئف سٹائل کی طرف دیکھا بھی نہ تھا اور یہ بھی خیال آتا ہے کہ یہ اولیاء اللہ کے جا نشینوں کا روحانی کمال ہے لیکن اگر ایسا ہو تا تو اصل بزرگ جن کے ناموں کو یہ کھا رہے ہیں اُن کو یہ مادی سہولتیں میسر کیوں نہ تھیں لاکھوں لو گوں کی زندگیوں کو بدل دینے والے آخر اپنا طرز زندگی بدلنے پر کیوں نہ قادر ہو ئے ۔جن کے ناموں پر یہ آج عیا شیاں کر رہے ہیں وہ خود ساری زندگی فا قہ کشی کا شکا ر کیوں رہے ۔ یہ سوال ہر سمجھ دار آدمی کے دما غ میںضرور مچلتا ہے ۔ لیکن کسی فلسفیا نہ بحث میں الجھے بغیر یہ با ت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج معروف سجا دہ نشینوں میں سے کو ئی ایک بھی ایسا نہیں جو سینکڑوں اراضی کا مالک نہ ہو ۔ اگر یہ سب مریدوں کا دیاہوا ہے تو مریدوںنے تو لنگر اور خدمت خلق اور اشاعت اسلام کے لیے دیا ہو گا ۔
Islam
شیخ یا بزرگ کو ” جا گیردار” اور کا رخانہ دار بننے کے لیے تو نہیں دیا ہو گا کیونکہ اگر جا گیر دار یا مل اونر کو ہی مر شد بنانا ضروری ہو تا تو لوگ خا ک نشینوں کی جگہ کسی جاگیر دار یا مل اونر کو مرشد بنا لیتے ۔ سچ تو یہ ہے تا ریخی حقائق بو لتے ہیں کہ اولیا ء اللہ نے اپنے لیے فقر کو اِس لیے اختیار کیا تا کہ اسلام تو نگر ہو جا ئے خو د کچے گھر میں رہے تا کہ اسلام کا قلعہ مضبوط ہو جا ئے خو د پیوند لگا لباس پہنا تا کہ دامن اسلام گرہِ سے پا ک رہے خو د جنگلوں ویرانوں صحرائوں آبا دیوں سے دور جا کر بسے تا کہ اسلام کی رونقیں بحال رہیں ۔ لیکن یہ جا گیریں اور وراثتیں کہاں سے آگئیں ۔
تو یہ بات ثابت ہو ئی کہ بعد میں آنے والے صوفیا ء کرام یا اولادوں نے اپنے اسلاف کے عظیم الشان کا م کے دام چکا نے اُن کے نام اور کارناموں کو نیلام کیا اُن کی آبرو قنا عت کی قیمت وصول کی اور ان کی خدمت اسلام کا پوراپورا انعام پا یا میرے سامنے بیٹھا ما دیت پرستی میں غرق گدی نشین اپنے دنیاوی کا رناموں اور اثر رسوخ سے مجھے متا ثر کر نے کی کو شش کر رہا تھا تو مجھے حضرت شیخ بہا ئوالدین نقشبند یا د آگئے ۔ خر ق عادات کرا متوں کے صدور کا خو ش عقیدہ حلقوں میں ہمیشہ بہت چرچا رہتا ہے اور اسے ہی بزرگی کی علا مت اور معیار تقوی سمجھا جا تا ہے کسی نے آپ سے کرا مت کے ظہور کی با ت کی توا پ نے فرمایا ”میری یہی کیا کرامت کم ہے کہ اتنے گنا ہوں کے با وجود میں اِس زمین پر چل پھر رہا ہوں ” عاجزی ، خدا خو فی یہ ہے اور اصل بزرگی نہ کہ میرے سامنے فلمی ہیرو نما سجا دہ نشین ۔
Professor Mohammad Abdullah Bhatti
تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: [email protected] فون: 03004352956