علم حاصل کرنا ہر مسلمان مر د اور عورت پر فرض ہے۔ علم شعور کی نت نئی راہیں کھولتا ہے ۔ اور انسان کو صیح معنوں میں اشرف المخلوقات بناتا ہے۔ مسلمانوں کی علمی میدان میں تعلیمی سرگرمیوں کو دیکھا جائے تو بہت سے نا مور اور محقق مسلمان سائینسدان روشن اور چمکتے ہوئے ستاروں کی مانند نظر آتے ہیں۔ بوعلی سینا ، ابن الہثم،ڈاکٹر عبد السلام ،جابر بن حیان ،الفرابی عمر خیام۔ غزالی جیسے نامور اور مشہور سائینسدانوں کی ایک طویل فہرست ہے۔
اسلام نے ہمیشہ تحیقق اور سیکھنے کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔۔ تاکہ اللہ تعالی کے پوشیدہ رازوں کو علم اور تحقیق کی بدولت تلاش کیا جائے ۔ مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ جس بھی مسلم سیائنس دان نے اس میدان میں عملی قدم اٹھایا وہ بادشاہ وقت یا حکمرانوں کے زیر عتاب آیا ۔ کسی کو نام نہاد مولویوں کے کہنے پر جیل کی ہوا کھانی پڑی کسی کو زہر کا پیالہ پینا پڑا تو کوئی زندان میں ہلاک کر دیا گیا ۔ اور یوں علم کے سمندر کو روکنے کے لئے کمزور بند باندھنے کی کوشش کی گئی۔
مگر آفرین ہے ان تمام بہادر اور جیالے علم کے پیاسے مسلم سائینسدانوں پر کہ انہوں نے اپنا مشن جاری رکھا ۔ان سائینسدانوں کی ابتدائی تحقیق اور علم کو لے کر ہی انگریزوں نے اس پر مزید تجربات کئے ۔اور پھر اس میں ترقی کرتے چلے گئے موجودہ دور میں مسلمانوں کے زوال اور پستی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ علم کے حصول کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔ اور جو علم اور تعلیم ان کو دی جارہی ہے وہ ترقی کی منزلیں طے کرنے کی بجائے ان کو پستی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ تعلیم کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ طبقاتی تقسیم ہے جو ذہین اور محنتی طالب علموں کے لئے زہر قاتل بن چکی ہے ۔ ۔ جو طالب علم محنت کرنا اور پڑھنا جانتا ہے اور اس کا شوق بھی رکھتا ہے اس کے ساتھ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کو سکول میسر نہیں سکول ہے تو چھت کے بغیر۔
ظلم کی انتہا دیکھیں کہ پنجاب اور سندھ کے دور افتادہ گاوں میں کہ جہاں بچے علم کا شوق رکھتے ہیں ان کو نبیادی سہولت ہی میسر نہیں ہے ۔ شدید اور چلچلاتی دھوپ میں کھلے آسمان تلے علم کی پیاس بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔بارش ہوجائے تو کھلے آسمان کے نیچے پرچے حل کر رہے ہوتے ہیں ۔ کہیں وڈیرے اور چوہدری یا پھر بااثر افراد سرکاری سکولوں پر قبضہ جما لیتے ہیں اور پھر ان سکولوں میں گائے بھینسیں بندھی نظر آتی ہیں ۔۔ اور اگر کہیں کو ئی پرائیوٹ سکول اچھی کار کردگی دکھا رہا ہوتا ہے تو حکومت اس پر قابض ہوجاتی ہے اور یوں اس سکول کی کارکردگی سرکاری فائلوں کی طرح دبتی چلی جاتی ہے۔
School
اگر بات کی جائے شہری سکول اور ماحول کی تو یہاں تو بات ہی عجیب اور نرالی ہے ۔ طالب علموں کو بہتر سے بہترین سہولیات میسر ہیں ۔ بلکہ اکثر سکولوں میں تو وی آئی پی کلچر کی جھلک نظر آتی ہے ۔مگر وہاں پڑھائی کا جو حال ہے وہ افسوس ناک حد تک مایوس کن ہے ۔ کند ذہن طالب علم سارا سال غیر نصابی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں ۔ کلاس سے غائب رہتے ہیں اور پھر امتحان کے دنوں میں بوٹی مافیا کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں ۔ کہیں پرچہ آوٹ ہو جاتا ہے تو کہیں پورے کا پورا حل شدہ پرچہ مہنگے داموں فروخت ہورہا ہوتا ہے۔
ایک اور افسوس ناک پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ پنجاب حکومت نے یوتھ فیسٹویل کے نام پر طالب علموں کا بہت سا قیمتی وقت ضائع کیا ۔ مضحکہ خیز یا افسوس ناک پہلو اس سب ڈرامے کا یہ ہے کہ ایک حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ تمام بنائے جانے والے ورلڈریکارڈز دھوکہ دہی اور فراڈ تھے جعلی غیرملکی نمائندے بنا کرعوام کے سامنے پیش کیئے گئے اور یوں ایک بڑا فراڈ عوام اور ان تمام طالب علموں کے ساتھ کیا گیا جو اس یوتھ فیسٹویل میں پورے جوش و جزبے کے ساتھ شریک تھے ۔ اور ملک سے محبت کا جزبہ لئے ہوئے تھے ۔ آخر کوئی تو سوچے کہ جس ملک میں تعلیم اور کھیل محض ایک مذاق بن کر رہ جائے وہ قوم کیسے ترقی کی منزلیں طے کر سکتی ہے۔؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب شاید حکومت کے پاس بھی نہیں ہے اس لیے کہ حکومت تعلیم کو عام کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی ، اس سارے گورکھ دھندے میں حکومت یا اس کے نمائندے بھی ملوث نظر آتے ہیں ۔ اب تویہ کہنا بجا ہے کہ اس ملک میں تعلیم کا اللہ ہی حافظ ہے۔