تحریر: وقارانسا وہ پریشان پریشان اور بوکھلائی ہوئی اپنے چھوٹے بھائی کا ھاتھ تھامے چل رہی تھی یہ نانی جان کی طبیعت آج ہی خراب ہونی تھی کیا ؟ صدف سوچ رہی تھی تب ہی تو پچھلی گلی میں آنے والے نئے پڑوسیوں کے گھر اسے ابو نے زبردستی بھیج دیا اسی گلی میں اس کی دوست گلرخ بھی رہتی تھی جسے سب پیار سے گل کہتے تھے لیکن ان کے درمیان کوئی ناراضگی چل رہی تھی اسی لئے توافشین جو اب ان دونوں کی دوست بن گئی تھی ان کے گھر بھی وہ نہیں جانا چاہ رہی تھی ایک تو ویسے بھی انہوں نے گھر کی پارٹی میں سب رشتہ داروں پڑوسیوں کو مدعو کر رکھا تھا – اورصدف کی جان اپنے سے بڑی آنٹیوں کے ساتھ بیٹھتے ہوئے نکلتی تھی معاملہ پڑوس کا تھا اس لئے امی نے تاکید کی تھی کہ وہ ضرور جائے – اکیلے جاتے ہوئے گھبرا رہی تھی اس وجہ سے واصف کو وہ اپنے ساتھ لے آئی تھی- جیسے ہی وہ افشین کے گھر داخل ہوئی دوڑتے بھاگتے بچوں کی چیخ وپکار کے ساتھ میوزک کی آواز باہر تک سنائی دی وہ تو سمجھ رہی تھی کہ زیادہ لوگ نہیں ہوں گے لیکن یہاں تو معاملہ اس کے برعکس تھا وہ اپنی سوچ میں گم گھر کے لان کی طرف بڑھی جہاں ٹینٹ لگے ہوئے تھے گول میز کے گرد کرسیاں لگی ہوئی تھیں
اس نے افشین کو ڈھونڈھنے کی کوشش کی تو اسے افشین نے دیکھ لیا – بڑے تپاک سے ملی واصف کو پیار کیا آ صدف یہاں سب خواتین بیٹھی ہیں مرد اندر ہال میں ہیں- ویسے بھی یہ سب ھمارے کلوز فیملی فرینڈز ہیں یا پھر رشتہ دار – میں تمہیں سب سے ملواتی ہوں- صدف یہاں آ یہ میری شگفتہ خالہ ہیں ان سے ملو – صدف آگے بڑھی تو اس کا پاں شگفتہ خالہ کے پاں پر آگیا اوہو نظر نہیں آرہا کیا ؟ پاں کچل دیا نام کی شگفتہ خالہ نے دھاڑ کر کہا – صدف معذرت کرنے لگی افشین بھی شرمندہ ہو کر اسے اگلی میز کی طرف لے آئی- چلو صدف یہاں بیٹھو میں اپنی امی اور آپی سے تمہیں ملواتی ہوں- وہ ان کو بلانے چلی گئی اسی اثنا میں کسی نے اس کے کندھے کو پکڑ کر زور سے موڑا اس نے مشکل سے اپنی چیخ دبائی بی بی تم کہاں سے آٹپکی ہو میرا پرس یہاں رکھا ہے -میری جگہ ہے یہ ایک بھاری جسے کی خاتون ہونٹوں کو سرخی سے لال کئے اس سے گویا ہوئیں اف !!! وہ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی خاتون اس طرح دیکھ رہی تھیں کہ جیسے اس کا خون پی جائیں گی اور ان کے ہونٹوں کی سرخی یہی بتا رہی تھی جیسے وہ واقعی کسی کا خون پی کر آئی ہیں
افشین کہیں نظر نہیں آرہی تھی البتہ ایک لڑکی نے کہا نازنین آنٹی کوئی بات نہیں اس کو بیٹھا رہنے دیں آپ ھمارے ساتھ آ جائیں- نازنین نام ہے ان کا؟ اس نے حیرت سے سوچا- اور اس کی نظریں ان کا جائزہ لینے لگیں اتنی دیر میں افشین کی امی اور آپی ملنے آگئیں – آپ کھڑی کیوں ہو ادھر اگلی ٹیبل پر بیٹھ جا آپی نے کہا نہیں میں ٹھیک ہوں میں اب جلدی چلی جاں گی امی گھر پر نہیں ہیں دوسرے بہن بھائی گھر ہیں صدف نے یہاں سے نکلنے کا بہانہ بنایا ابھی گل بھی آتی ہو گی پھر بیٹھ کر گپ شپ کر لینا ابھی ادھر بیٹھو افشی نیکہا میں ذرا دوسرے مہمانوں کو دیکھوں وہ اپنی امی اور آپی کے ہمراہ چلی گئی میزوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے وہ ایک خالی میز کی طرف جانے لگی-
Aspiration
ساتھ بیٹھی خاتون کا لٹکتا ہوا دوپٹہ اس کے پاں تلے آگیا عین اسی وقت وہ اٹھ رہی تھیں گلا گھٹا تو انہوں نے مڑ کرایک دوہتھڑ اسکی کمر پر دے مارا میرا گلہ دب گیا نیچے دیکھ کر تو چلو – تہذیب بھابھی کتنی دیر سے بلا رہی ہوں ادھر تو آئیں کسی نے ان کو آواز دی ان کو تو تہذیب چھو کر بھی نہیں گزری نام تہذیب ہے وہ بڑبڑائی ارے آرہی ہوں گلا گھونٹ دیا اس لڑکی نے لوگوں کو تمیز ہی نہیں ہوتی کہیں جانے بیٹھنے کی اس نے اپنا گلا سہلایا اور اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟ صدف نے دل ہی دل میں کہا خدا خدا کر کے وہ ایک میز کے پاس پہنچ کر کرسی پر بیٹھ گئی – واصف کو ساتھ بٹھا لیا اور ہال کا جائزہ لینے لگی ریشم تمہاری بیٹی نے آرزو کی پارٹی کی خوب رونق بڑھا دی آج بھی کہو ناں اس سے کہ کچھ سنائے ساتھ بیٹھی خواتین آپس میں بات کر رہی تھیں اب جو ریشم نے ہنسنا شروع کیا تو جیسے گاگر سے بات الٹنے لگا بے ہنگم ہنسی ہنستی ہوئی بھاری بھر کم ریشم نے پورا میز ہی ہلا دیا کولڈڈرنکس بھی اس ہنسی کی تاب نہ لاتے ہوئے کچھ نیچے جا چھتیں اور کچھ میز پر ڈھیر ہوگئیں-
ریشم! اس نے زیر لب دہرایا ارے نہیں ! وہ آج موڈ میں نہیں کبھی پھر سہی یہ لوگ ایسے نام کیوں رکھ لیتے ہیں جو کسی طرح سے بھی ان کی شخصیت سے مناسبت نہیں رکھتے وہ سوچ رہی تھی اتنی بڑی پارٹیوں میں آنے والے لوگ اتنے چھوٹے دل اور ذہن کے ہو ں گے – میں تو سوچ بھی نہیں سکتی اور آئندہ کبھی آنے سے بھی میری توبہ ! دولت کی نمائش سے مزین جسم اور لباس اخلاقیات کے سبق سے بالکل بے بہرہ تھے-ان کی گفتگو چغلی کھا رہی تھی کہ دولت سے امیر ضرور ہیں لیکن سوچ بہت غریب ہے – مال ودولت کی نمائش کرنے والوں میں ہم جیسے سیدھے سا دے انسان عجب ہونق بنے ان کا منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں بزنس کی باتیں کاروں کوٹھیوں کی باتیں
زیورات اور مال و زر کی باتیں ہرمیز پر یہی باتیں ہو رہی تھیں
صدف معذرت چاہتی ہوں گل بھی ابھی نہیں آئی آپ بور ہو رہی ہو گی افشین نے آکر اس کا ھاتھ تھامتے ہوئے کہا کوئی بات نہیں میں گھر جانا چاہتی ہوں وہ منمنائی نہیں ہرگز نہیں ابھی کھانا کھلنے والا ہے کھانا کھائے بغیر ہر گز نہیں جانے دوں گی تمہیں اور اس گل کی بچی کو تو پوچھوں گی آئی نہیں نہ کال ریسیو کر رہی ہے سوچ رہی تھی تم دونوں کی آپس کی غلط فہمی دور کروا دوں گی وہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں بعد میں ہوتی رہے گی – صدف نے کہا ارے تبسم پھو پھو آئیے ناں افشین ایک خاتون سے مخاطب ہوئی یہاں بیٹھ جائیں یہ میری دوست ہے صدف صدف نے سلام کیا خاتون نے اس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا وعلیکم سلام کا جواب بھی صحیح نہیں دیا وہ سوچنے لگی پھر بھی اخلاق سے کہا بیٹھیے آنٹی اب میں تمہاری آنٹی کیسے ہو گئی تمہاری ہی عمر کی ہوں گی میں والدین نے شادی جلدی کر دی تو میں آنٹی ہو گئی ؟؟ وہ افشین کی آپ پھوپھو ہیں اس لئے—— اس نے وضاحت کی
خیر وہ تو بھتیجی ہے میری مگر تم تو نہیں ہو ! معذرت چاہتی ہوں اس نے بادل نخواستہ کہا
Roast two seasonings plate
ورنہ دل تو چاہ رہا تھا کہ کہہ دے تبسم تو آپ کے چہرے پر ہے نہیں البتہ باتیں کڑوی ہیں آپ کا نام تو کریلا یا نیم ہونا چاہیے تھا اتنی دیر میں کھانا کھل گیا عورتیں بھاگ پڑیں کھانے کو لینے کی ہر کسی کی کوشش وہ بھی واصف کو بٹھا کر خود کھا نا لینے گئی بھیڑ بھاڑ اور شور وغل ایسے لگ رہا تھا کہ سب کتنے دنوں سے بھوکے ہیں اور بعد میں کھانا ملے گا نہیں – بڑی تگ ودو کے بعد وہ کھانے تک پہنچ پائی اب کوئی کھانا نکالنے کا چمچ رکھنے کو تیار نہیں جس کے ھاتھ میں جو آیا اسی سے بریانی بھی نکالی اور سالن بھی رائتے اور چٹنی میں بھی وہی ڈبو دیا لیکن ھاتھ سے نہ چھوڑا سلاد اور روسٹ تو ھاتھوں سے ہی پلیٹوں میں بھر لیا گیا اس کے ھاتھ میں چمچ پہنچا ہی تھا کہ ساتھ کھڑی آنٹی نے اچک لیا روسٹ کی طرف بڑھی تو ساتھ کھڑی خاتون نے ھاتھوں سے اپنے بچوں کی پلیٹیں بھرنی شروع کر دیں اسنے روسٹ کی دو بوٹیاں پلیٹ میں ڈالیں اور باہر نکلنے کی ناکام کوشش کرنے لگی دونوں ا طراف کی خواتین کی چھینا جھپٹی میں اس کا سانس گھٹنے لگا مشکل سے اپنا دوپٹہ چھڑایا لیکن اس کی لیس ملکہ آنٹی کی چوڑیوں میں الجھ کردوپٹے سے الگ ہو گئی
اللہ یہ ملکہ آنٹی تو واقعی میں ملکہ بن کر آئی تھیں بڑے بڑے جھمکے نیکلس بازوں میں شور مچاتی چوڑیاں اور کنگنایک خاتون جسے سب گڈو آپی کہہ رہے تھے کے دھکے نے روسٹ کی دو بوٹیوں کی ایک رہنے دی ایک اچھل کر زمین پر آگئی اس نے واصف کو پلیٹ دی جیسے کہہ رہی ہو بس بھائی مجھ میں تو اتنا ہی دم تھا -جلدی کرو واصف اگر کھانی ہے تو ورنہ گھر چلیں – اس نے بے بسی سے اپنے دوپٹے کو دیکھا جس پر چکنائی کی زردی کس ساتھ چٹنی اور سالن کے دھبوں نے اس کو دھنک رنگ بنا دیا تھا کھانا کھایا یا نہیں؟ افشین پوچھ رہی تھی ابھی گل آئی ہے میں فارغ ہو کر تم دونوں کی بات کرواتی ہوں -وہ کہہ کر چلی گئی چلو واصف جلدی سے پھر کوئی روک نہ لے وہ تیزی سے بھاگی اتنے میں ڈیک پر گانا چلنے لگا یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو برو کرتے بوکھلائی ہوئی صدف بے اختیار کہہ اٹھی ارے بھیا اپنا کام کرو میں جانو اور گل جانے- اب تم بھی چلے ہمیں روبرو کرنے !!!