بد قسمتی سے اس وقت یہ ہمارا خاصہ بن چکا ہے کہ جو کام بھی اہل مغرب کریں چاہے وہ صحیح ہو یا غلط ہم اسے من وعن تسلیم کرکے اپنے اوپر رائج کرلیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم نے انہیں اپنے ذہنوں پر سوار کر رکھا ہے۔ گو کہ وہ ہم سے زیادہ معاشی طور پر مستحکم اور ترقی یا فتہ ہیں لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہم اپنی روایات، تہذیب و تمدن، طور طریقوں اور معاشرتی اصولوں کو ترک کرکے دوسروں کی سنی سنائی باتوں پر عمل پیرا ہو جا ئیں۔ کہتے ہیں کہ جو قومیں اپنی تہذیب و تمدن اور روایات کو کھودیتی ہیں اور دوسروں کی تہذیب و تمدن اور طور طریقوں کو اپنالیتی ہیں وہی قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں۔ حالاں کہ ہمیں مغرب سے سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور اسلام ایک مکمل دین ہے۔ اخلاقی زندگی ہو، سیاسی یا معاشرتی زندگی اسلام ہمیں ان کی واضح ہدایات مہیا کرتا ہے اور انہی میں ہماری نجات ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے، ”اے ایمان والو !اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاﺅ اور شیطا ن کے قدم پر مت چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے“۔
اس کے باوجود بھی یہود و نصاری کی شیطانی رسوما ت ہمارے اندر رائج ہو تی جا رہی ہیں۔ انہی میں سے ایک تہوار”اپریل فول“ بھی ہے۔ لفظ اپریل لاطینی زبا ن کے لفظ اپریلس ((Aprilisیا اپرائر((Aprireسے ما خوذ ہے جس کا مطلب کو نپلیں پھوٹنا، پھولوں کا کھلنا ہے جب کہ لفظ فول سے مراد نادان ،سادہ لوح اور بے حماقت جیسے معانی میں مستعمل ہے۔ بطور تہوار اپریل فول سے مراد جھوٹ بول کر ایک دوسرے سے مذاق کرنا اور بےوقوف بناناہے۔ یکم اپریل کو رومی قوم اپنے شراب کے دیوتا کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے اور عجیب و غریب حرکات کرتے تھے۔انسائیکلوپیڈیا انٹرنیشنل کے مطا بق یکم اپریل کو جھوٹ کے عالمی دن کے طور پر منا یا جا تا ہے۔
یہ یورپ سے شروع ہوا اور اب تقریبا ساری دنیا میں کینسر کی طرح پھیلا ہوا ہے۔1508 سے1539کے دلندیزی اور فرانسیسی ذرائع ملتے ہیں جن سے یہ پتا چلتا ہے کہ یورپ کے ان علاقوں میں یہ تہوار پا یا جا تا تھا۔برطانیہ میں اٹھارہویں صدی کے شروع میں اس کاعام رواج ہوا۔ کہاجا تا ہے کہ یہ تہوار سب سے پہلے بہادر شاہ ظفر سے منا یا گیا۔ بہادر شاہ ظفر جب انگریزوں کی قید میں تھا تو انگریزوں نے انہیں صبح ناشتے کا کہہ کر بلایا لیکن جب اس نے دیکھا تو اس کے بیٹے کا کٹا ہوا سر اسے پیش کیا گیا جس پر اسے شدید صدمہ ہوا جس پر انگریزوں نے اس کا مذاق اڑیا۔پہلے یہ تہوار صرف انگریزوں تک محدود تھا لیکن اب یہ تہوار مسلمانوں میں بھی رائج ہوچکا ہے۔ اسلام میں جھوٹ بولنے کی بڑی سخت ممانعت ہے جبکہ قرآن پاک میں واضح ارشاد ہے کہ، ”جھوٹ بولنے والے پر اللہ کی لعنت ہے “
اسی طرح رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرما یا، ”سچائی طمانیت ہے اور جھوٹ عدم اطمینان ہے“۔ یعنی سچ کے اندر اطمینا ن اور سکون ہے اور جھوٹ میں بے چینی ہے۔ ہمیں یہ تلقین کی گئی ہے کہ ہمیشہ سچ بو لو۔ سچ انسان کو نیکی کی طرف لے جا تا ہے اور نیکی انسان کو جنت میں لے جا ئے گی جب کہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جا تا ہے اور گنا ہ جہنم کی طرف لے جائے گا ۔مومن سچائی کا دوسرا نا م ہے ۔آپ ﷺنے ارشاد فرمایا، ”اے صحابہ تمہیں بڑے بڑے گناہوں کی خبر نہ دوں۔ صحابہؓ نے عرض کیا کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا 1۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا2۔ کسی انسان کا قتل کرنا 3۔ اپنے والدین کی نا فرمانی کرنا پہلے آپﷺ ٹیک لگا کر بیٹھے تھے تو آپﷺنے ٹیک چھوڑ کر فرمایا، 4۔ سن لو جھوٹی بات کرنا“۔
یعنی جہنم میں لے جانے والے گنا ہوں میں یہ گناہ ان سے بھی بڑا ہے۔ ہمیں ہمیشہ جھوٹ سے اجتناب کرنا چاہیے اور سچ بو لنا چاہیے کیونکہ اسی میں ہماری راحت ہے۔ ایک بزرگ ابن خراش کبھی جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ ایک دن ان کے دوبیٹے جنگ میں شریک ہو ئے۔ حجاج کے دور میں انہیں شکست ہو گئی تو ان کے بیٹے چھپتے چھپاتے گھر پہنچ گئے ۔حجاج نے اپنے جاسوسوں سے پتاکروایا تو علم ہوا کہ ابن خراش کے بیٹے گھر میں موجود ہیں ۔تو اس نے ابن خراش کو روک کر پوچھاکہ، ”بتا تیرے دو بیٹے کہاں ہیں ؟“تو انہوں نے کہا کہ، ”زندگی مو ت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے میرے دونوں بیٹے میرے گھر میں موجود ہیں“۔ سچ بولنے کی وجہ سے حجاج نے کہا جاﺅ میں تمہیں تمہارے دونو ں بیٹے ہدیہ کرتاہوں۔
اسی طرح ایک اور واقعہ ہے جب انگریزوں کا زمانہ تھا کہ زمین پر مسلمانوں نے قبضہ کرلیا۔ اس زمین پر ہندو مندر بنانا چاہتے تھے اور مسلمان اس پر مسجد بنانا چاہتے تھے۔ جج نے ہندﺅں سے پوچھا کہ کو ئی ایساہے کہ جو گواہی دے کہ یہ زمین ہندﺅں کی ہے یا مسلمانوں کی تو ہندﺅں نے مفتی مظفر حسین کا نام لیا اور مسلمان بھی خوش تھے کہ اپنے ہی عالم دین ہیں اور یہ ہمارے حق میں ہی بات کریں گے۔ جب مفتی مظفر حسین کو عدالت میں بلایا گیا اور ان سے دریافت کیا تو انہوں نے کہ سچ تو یہ ہے یہ زمین ہندﺅں کی ہے ۔تو اس وقت کے جج نے کہا آج مسلمان ہار گئے لیکن اسلام جیت گیا۔
سچ تو ایک عالمی صفت ہے اگر کو ئی اللہ کو نہ بھی مانے لیکن سچ کو پسند کرتا ہے اورسچ تومومن مسلمان کی پہچان ہے۔ ہمارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان اس مناسبت سے حکومت وقت اپیل ہےکہ اس اسلام مخالف تہوار کو پاکستان میں نہ منانے کے احکامات صادر فرما کر ایک غلط رسم کی اور اس کے پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی کریں۔ پاکستان کی عوام کو بھی فرداً فردا ًاس رسم کے خلاف سخت موقف اختیار کرنا چاہیے بلکہ ہمیں اس دن جھوٹ کی بجائے سچ اور سچائی کی اہمیت کے حوالے سے سیمینار ز منعقد کروانے چاہییں۔