آس پاس کی تقریب اور یار لوگ

BRT

BRT

تحریر : وقار احمد اعوان
پشاور میں جاری بی آر ٹی نے نہ صر ف پشاوریوں بلکہ دیگر علاقوں سے آنے والوں کے بھی اچھے خاصے ہوش اڑا دیے ہیں،اس پر اپریل کی جھلسا دینے والی گرمی آدم زاد کو کہیں آنے جانے سے یکسر روکے رکھتی ہے،لیکن بے چارہ پشاوری کرے تو کیا کرے کیونکہ پاپی پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے اسے موجودہ حالات سے سمجھوتا کرناہی پڑا،ساتھ یار لوگ کی یاد اور ان کی دید بھی ضروری ہے،اسلئے گزشتہ روز ہم نوجوان صحافی ،کالم نگار اور ادیب جناب آصف خان ترک کے پہلے کالموںکے مجموعہ ”آس پاس”کی تقریب رونمائی میں شریک ہوئے،آصف خان ترک ایک متحرک صحافی ہیں،جو گزشتہ چند سالوںسے شعبہ صحافت سے باقاعدہ وابستہ ہیں۔

ہم حسب معمول تقریب والی جگہ دیر سے پہنچے تاہم ابھی تقریب شروع ہونا باقی تھی،اس لئے ہم اپنے اساتذہ سے سلام کلام میں مشغول ہوگئے،تقریب پشاور پریس کلب پشاور صدر میں بپا کی گئی تھی،ہال ہی میں داخل ہوتے ہی اپنے استا دمحترم اور سینئر صحافی و کالم نگار جناب شمیم شاہد نے دور سے آواز دی،یاد رہے کہ شمیم شاہد ہی کی بدولت آج ہم کچھ لکھنے کے قابل ہوئے ہیں،ہمیں اچھے سے یادہے کہ جب ہم نے روزنامہ ”آئین ”پشاور جوائن کیا تب شمیم صاحب وہاں بطور ایڈیٹر اپنی خدمات انجام دے رہے تھے ،اور جن کی سرپرستی میں ہم نے بہت کچھ سیکھا،ان سے آگے بڑھے تو معروف کالم ڈاکٹر صلاح الدین بغل گیر ہوئے،انہی کے ساتھ معروف کالم نگا ر روشن خٹک،حضرت خان مہمند وغیرہ بھی تشریف فرما تھے،ان حضرات سے فارغ ہوئے تو ہم جناب آصف خان ترک کی طرف بڑھے کیونکہ ہم نے ان سے تقریب میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا نا کہ غیروں کی طرح آکر صرف تالیاں بجائی اور چل دیے،یہاں ایک بات نہایت افسوس کے ساتھ کہ جب جب کوئی نوجوان کسی بھی شعبہ میں کارنامہ انجام دیتا ہے تو بجائے اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے اسے دلبراشتہ کردیا جاتاہے،آصف خان ترک انتہائی سادہ مزاج ،ملنسار اور غریب طبع نوجوان ہے،جب دیکھو ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ بکھیرے رہتا ہے۔

بھلا ایسا نوجوان کسی کا کیا بگاڑسکتاہے،مگر مجال ہو کہ ہمارے بڑے اس کی پیٹھ پر شفقت سے ہاتھ ہی پھیر دیں اور اس کا حوصلہ بلند کردیں۔تقریب میں اباسین کالمز رائٹر ز ایسوسی ایشن کے صدر ،چیئرمین اورکئی ممبران موجود نہ تھے جس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ ہمارے ہاں نوجوانوں کی صلاحیتیں کوئی معنی نہیںرکھتیں ،وہ لاکھ کوشش کریں کوئی انہیں شاباش کے دو بول نہیں کہے گا ،خیر تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا ،تلاوت کے بعد جن حضرات سے اظہار خیال کیا ان میں ڈاکٹر اجمل خٹک،سینئر صحافی حضرت خان مہمند،ڈاکٹر ہمایون ہما،اشرف خان گدون ایڈوکیٹ وغیرہ قابل ذکر تھے۔یادرہے کہ آصف خان ترک نے طالب علمی ہی کے زمانے سے مختلف رسالوں اور اخباروں کے لئے کام کرنا شروع کردیا تھا۔

پہلے پشاور کے ایک موقر جریدے اخبا رخیبرپشاور سے وابستہ ہوئے جس کے بعد کچھ عرصہ کے لئے روزنامہ مشرق کے ساتھ منسلک رہے ،اور اب پاکستان کے ایک معروف اخبار روزنامہ جنگ میں رپورٹر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔آصف خان ترک نے اپنی مختصر صحافتی زندگی میں ایک بے باک اور حقیقت پسند صحافی کے طور پر اپنی پہچان قائم کرنے میں بہت حد تک کامیابی حاصل کی ہے،آصف خان اردو کے علاوہ انگریزی جرائد میںبھی سماجی موضوعات پر قلم طرازی کرتے ہیں،ترک نے اپنے کالموں میںبحیثیت ایک محب وطن پاکستانی کی طرح وطن کی مٹی سے پیار کے جذبے کو ابھارنے کی کوشش کی ہے،وہ ڈنکے کی چوٹ پر لکھتاہے،اسے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ صرف پاکستانیت ہی ہماری بقاء کا واحد راستہ ہے۔بہرکیف آصف خان ترک جیسے نوجوانوں کو دیکھ یقینا کوئی بھی پاکستانی فخر سے کہہ سکے گا کہ پاکستانی نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ،باصلاحیت،سمجھد ار ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ حالات پر بھی گہری نظر رکھت اہے۔

آصف خان ترک پاکستانی معاشرہ کا اثاثہ ہیں،پاکستان کا فخر ہیں آج مجھے یہ لکھتے ہوئے انتہائی خوشی ہورہی ہے کہ آصف خان جیسا کم عمر نوجوان اپنی پختہ لکھاوٹ کی بدولت ان تمام لکھاریوںکو مات دے چکاہے جو ایک عرصہ سے لکھ تو رہے ہیں تاہم ان کا لکھنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ وہ ثابت کرچکاہے کہ اگر انسان چاہے تو معاشرہ میں اپنا مقام خود پید اکرسکتاہے،اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت ملک وقوم کے لئے سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔

Waqar Ahmad

Waqar Ahmad

تحریر : وقار احمد اعوان