تحریر : طارق حسین بٹ شان خاندانی اور موروثی سیاست نے پاکستانی سالمیت کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔سارے مارشل لاء محض اس وجہ سے نافذ العمل ہوئے کہ ہمارے جمہوری حکمران آمرِ مطلق اور ڈکٹیٹر بن جاتے تھے جس سے قانون کی حکمرانی میں رخنہ اندازی پیدا ہو جاتی تھی ۔اکتوبر ١٩٥٨ کے مارشل لاء اور اکتوبر ١٩٩٩ کے مارشل لاء کو جتنی پذیرائی ملی وہ سب کے سامنے ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ١٩٥٨ تک ہمارے سیاستدانوں نے جس طرح اندھیر مچایا ہوا تھا وہ بیان سے باہر ہے ۔محلاتی سازشوں میں عوامی فلاح کا کہیں اتہ پتہ نہیں تھا۔
ذاتی اقتدار کی حواہش عوامی مفادات کو ہڑپ کر رہی تھی اور اقتدار کی جنگ اس شدت سے جاری تھی کہ عوام بد حالی کی تصویر بنے ہوئے تھے لیکن سیاستدانوں کے کانوں پر پھر بھی جوں نہیں رینگ رہی تھی۔ حکومت عملا گورنر جنرل غلام محمد کے پاس تھی اور فیوڈل سیاستدان اس کے نخرے اٹھا تے نہیں تھکتے تھے ۔ اسمبلیوں کو برخاست کرنا اور وزرائے اعظم کو بدلنا ان کا محبوب مشغلہ تھا اسی لئے بھارتی وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نے کہا تھا کہ میں اتنی دھو تیا ں نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیرِ اعظم بدلتے ہیں ۔ جب بھی حکومت برخاست کی جاتی تو عوام خوشیاں مناتے تھے اور شب خون مارنے والوں کو خوش آمدید کہتے تھے ۔ لوگ سیاستد دانوں سے مایوس ہو جائیں تو پھر وہ فوجی جرنیلوں سے امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں اور مارشل لائوں کی ساری کہانی کا یہی نقطہ ماسکہ تھا۔
سیاستدانوں کی ناکامی سے جمہوریت بھی متاثر ہوتی ہے ، نظامِ ریاست بھی معطل ہو جاتا ہے اور دنیا بھر میں رسوائی بھی ہوتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ سیاستدانوں کی لن ترانیاں ہی مارشل لاء کا وجہ جواز بنتی ہیں لیکن افسوس سیاستدان پھر بھی اس سے سبق نہیں سیکھتے۔وہ اپنی دنیا میں مست رہتے ہیں۔جمہوریت کا رونا روتے ہیں لیکن جب بر سرِ اقتدار آتے ہیں تو آمرِ مطلق بن کر دولت سے اپنی جھولیاں بھرنے کی فکر میں غلطان ہو جاتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ عالمی طاقتوں کا اپنا ایجنڈہ ہوتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری رویوں کا فقدان ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ذولفقار علی بھٹو نے عوام کی منشائ،رائے اور طاقت سے پی پی پی کی بنیادیں رکھی تھیں لیکن بعد میں کیا ہو ا؟یہ انقلابی جماعت بھی موروثی سیاست کی جانب چل نکلی۔ ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی ہی وہ مضبوط اساس ہے جس نے ابھی تک پی پی پی کو زندہ رکھا ہوا ہے وگرنہ یہ کب کی بکھر گئی ہوتی۔اپنی فیوڈل سوچ کی وجہ سے یہ جماعت پہلے ہی ایک صوبے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے لیکن اس کے باوجود بھی فیوڈل ڈیما کریسی سے چمٹی ہوئی ہے۔
وصیت کی بنیاد پر پارٹی قیادت کے فیصلے ہوتے ہیں ۔ نہ کہیں پر انتخابات ہیں اور نہ ہی کہیں پر خاندان سے باہر پارٹی کی قیادت منتقل ہونے کا کوئی شائبہ ہے۔باپ کے بعد بیٹی،پھر داماد اور پھر نواسہ یہی پی پی پی کی کل کہانی ہے۔ لیکن اس کے باوجود جیالوں کی قربانیاں اور جمہوریت کیلئے ان کی عظیم جدو جہد کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔اس دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جیالوں کی عظیم جدو جہد کو بھی فیوڈل ڈیمو کریسی ہضم کر گئی ہے۔ پی پی پی کے جیالے بے مراد اور بے نیل و مرام پھر رہے ہیں اور کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں۔ اگر کسی کو یاد ہو تو وہ میری راہنمائی فرمائے کہ پی پی پی میں آخری بار انتخابات کب ہو ئے تھے؟سینئر ترین قائدین ایک نو عمر لڑکے کے سامنے دو زانو ہو جاتے ہیں۔کیا بیرسٹر اعتزاز احسن نے سینیٹ کی نشست کیلئے اپنے نظریات سے توبہ نہیں کی ؟کیا اس نے آصف علی زرداری کے سامے خود کو سر نگوں نہیں کیا؟کیا اس نے دانشور ہونے کے باوجود اصولوں کا نہیں بلکہ ذاتی مفادات کا سودا کیا ؟اگر اعتزاز احسن جیسے سینئر قائدین فیوڈل ڈیماکریسی کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہو سکتے ہیں تو پھر اس ملک میں جمہوریت کا مستقبل کیسے روشن ہوگا؟ سوال فوجی شب خون کا نہیں ہے بلکہ سوال اس جمہوری روح کے فقدان کا ہے جس میںملک آمریت کی آماجگاہ بن چکا ہے۔برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون ریفرینڈم میں شکست کے بعد وزارتِ عظمی سے مستعفی ہوجا تے ہیں جبکہ ہمارے ہاں بد ترین انتخابی شکست کے باوجود بھی پارٹی قیادت استعفے نہیں دیتی کیونکہ فیوڈل ڈیما کریسی میں ایسا ممکن نہیں ہوتا۔یہی حال نیشنل عوامی پارٹی کا بھی ہے جو باچہ خان،ولی خان، بیگم نسیم ولی خان اور اسفند یار ولی کی شکل میں خیبر پختونخواہ میں اپنا سکہ جمائے ہوئے ہے۔
جمیعت العلمائے اسلام مفتی محمود کی رحلت کے بعد ان کے فرزندِ ارجمند مولانا فضل الرحمان اور مولانا عطا الرحمان کی جاگیر ہے اور وہ اس جاگیر میں اپنی مرضی سے جہاں چاہتے ہیں چرتے رہتے ہیں۔ جنرل ضیا الحق کی قائم کردہ مسلم لیگ (ن) بھی اسی ڈگر کی مسافر ہے جس میں میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز شریف ،بیگم کلثوم نواز، مریم نوازاور دوسرے اہلِ خانہ پارٹی کے اہم فیصلے صادر کرتے ہیں۔اسحاق ڈار میاں محمد نواز شریف کے سمدھی ہونے کے ناطے خصوصی اختیارات کے حامل ہیں جبکہ دوسرے ممبرانِ اسمبلی محض ڈھنڈو رچی کے فرائض سر ا نجام دیتے ہیں ۔ پیر پگاڑا ،غلام مصطفے جتوئی ، چوہدری برادران ،محمود خان اچکزئی ،عطاللہ مینگل ،نواب اکبرخان بگٹی،آفتاب احمد شیر پائو اور بہت سے دوسرے اہم سیاسی راہنما سیاسی جماعتوں کو اپنے گھر کی لونڈی بنائے ہوئے ہیں ۔ حکومت ان کا مناسب خیال رکھتی ہے کیونکہ جب وہ بر سرِ اقتدار ہوتے ہیں تو وہ ان کا خیال رکھتے ہیں۔پاکستان میں جمہوریت ایک دوسرے کو تحفظ دینے کا نام ہے جبکہ عوامی تحفظ کا کہیں نام و نشان نہیں ہے۔،۔
یہ سچ ہے کہ فیوڈل ڈیماکریسی کی لعنت کے باوجود پنجاب میں میاں برداران اور سندھ میں پی پی پی اپنا سکہ جمائے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود عوام جواب دہی اور احتساب کے حواہش مند ہیں اور اسے یقینی بنتا دیکھنا چا ہتے ہیں ۔ عوام کرپشن اور لوٹ کھسوٹ سے پاک اور شفاف نظامِ حکو مت کے خواہاں ہیں لیکن ان کی آرزوئوں کو کوئی بھی سیاسی جماعت در خورِ اعتنا سمجھنے کیلئے تیار نہیں۔ ڈاکٹر علامہ طاہرالقادری اور عمران خان نے شفایت اور کرپشن سے پاک معاشرے کے قیام کا نعرہ لگایا تو دیکھتے ہی دیکھتے وہ عوام کی توجہ کا مرکز بن گئے لیکن ان کی باتوں میں جب اصولوں کی بجائے اقتدار کی خواہش زیادہ نمایاں ہونے لگی اور حقیقی تبدیلی کے نعرے پر زور کم ہونے لگا تو عوام کے دلوں میں تحفظات نے جنم لینا شروع کر دیا جس سے ان دونوں قائدین کی مقبولیت میں کمی واقع ہونا شروع ہو گئی ۔دونوں جماعتیں میرے تجزیے سے اتفاق نہیں کریں گی کہ ان کی مقبولیت میں اگست ٢٠١٤ والا دم خم نہیں ہے بلکہ وہ اسی بات پر اڑی رہیں گی کہ ان کہ مقبولیت کاگراف کم نہیں بلکہ بلند ہوا ہے کیونکہ سیاست میں ہٹ د ھرمی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اس وقت ہٹ دھرمی اور زیادہ ابھر کر سامنے آ رہی ہے جبکہ تبدیلی کی خواہش ضمنی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
ہمیں ہٹ دھرمی کی نہیں بلکہ اس تبدیلی کی ضرورت ہے جس سے پاکستانی معاشرہ فیوڈل جمہو ر یت کی بجائے حقیقی جمہوریت سے روشناس ہو جائے۔مجھے یقین ہے کہ جو کوئی ایسا کارنامہ سر انجام دیگا وہ ذولفقار بھٹو کی طرح تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیگا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہو ہے کہ وہ شخص کون ہو گا جو فیوڈل ڈیمو کریسی کے شکنجے سے عوام کا نجات دہندہ بن کرابھرے گا؟ تاریخ کا سفر کبھی نہیں رکتا ۔ارتقاء وقت کا سب سے بڑا سچ ہے اور ہمارا معاشرہ اسی ارتقاء کی جانب گامزن ہے ۔کسی زمانے میں یورپ نے بھی اسی ارتقا سے اپنے نظامِ حکومت کو شفاف بنایاتھا لہذا پاکستان میں بھی شفافیت جنم لے کر رہیگی جسے کوئی روک نہیں پائیگا ۔عوام کو یقین ہے کہ کوئی قد آورشخصیت فیوڈل لارڈز جیسے بازی گروںکو کچل کر موجودہ کرپٹ نظام کے خاتمے کی نوید بنے گی اور عوام اس کے گرد جمع ہو کر نظامِ کہنہ کی بساط الٹ دیں گے اور پھر وہ انقلاب رونما ہونے میں دیر نہیں لگے گی جس کا خواب قائدِ اعظم اور علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال