خوبصورت لب ولہجے کے معروف ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کی آج چوتیسویں برسی منائی جارہی ہے وہ علامہ اقبال، مرزا غالب کے بعد اردو ادب کے عظیم شاعر تھے۔حلقہء فکروفن انہیں زبردست خراج تحسین پیش کرتا ہے۔
جو رُکے تو کوہ گراں تھے ہم جوچلے تو جاں سے گزر گئے
ڈاکٹر محمد ریاض چوہدری صدر حلقہء فکروفن نے انہیں زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلاشبہ اس عہد کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ ایسے شاعر اور ایسے انسان روز روز پیدا نہیں ہوتے۔انہوں نے ساری زندگی ظلم، بے انصافی اور جبر و استبداد کے خلاف جدوجہد کی اور ہمیشہ شاعر کا منصب بھی نبھایا۔ وہ اردو شاعری کی ترقی پسند تحریک کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ ان کی فکر انقلابی تھی، مگر ان کا لہجہ غنائی تھا۔انہوں نے اپنی غیر معمولی تخلیقی صلاحیت سے انقلابی فکر اورعاشقانہ لہجے کو ایسا آمیز کیا کہ اردو شاعری میں ایک نئی جمالیاتی شان پیدا ہوگئی اور ایک نئی طرز فغاں کی بنیاد پڑی جو انہی سے منسوب ہوگئی۔۔ اس میں نرمی اور خواب آور کیفیت ہے ۔سیاسی اعتبار سے وہ مارکسی نظریات و خیالات کے ہمنوا ہیں ۔ اور ان کی شاعری پر اس کی گہری چھاپ ہے۔
حلقہء فکروفن کے جنرل سیکریٹری وقار نسیم وامق نے اپنے بیان میں کہا کہ فیض نے اردو کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کرایا اور انہی کی بدولت اردو شاعری سربلند ہوئی۔ فیض نے ثابت کیا کہ سچی شاعری کسی ایک خطے یا زمانے کے لئے نہیں بلکہ ہر خطے اور ہر زمانے کے لئے ہوتی ہے۔
نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، سروادی سینا، شام شہریاراں اور مرے دل مرے مسافر ان کے کلام کے مجموعے ہیں اور سارے سخن ہمارے اور نسخہ ہائے وفا ان کی کلیات۔ اس کے علاوہ نثر میں بھی انہوں نے میزان، صلیبیں مرے دریچے میں، متاع لوح و قلم، ہماری قومی ثقافت اور مہ و سال آشنائی جیسی کتابیں یادگار چھوڑیں۔ فیض شاعری کے رموز اور شاعر کے منصب سے اچھی طرح واقفیت رکھتے ہیں فیض احمد کے مجموعات انگریزی، فارسی، روسی، جرمن اور دیگر زبانوں میں تراجم شائع ہوچکے ہیں۔
فیض کی شاعری کا انقلابی پہلو نہایت اہم ہے ۔ ان کی اجتماعی بصیرت اور احساس ذمہ داری لائق تحسین ہے ۔ فیض کی شاعری میں گہری انسانیت کے ساتھ یہ احساس نہایت شدت کے ساتھ ابھرتا ہے ۔ انھوں نے محبت اور سیاست کو ایسا شیر و شکر کیاہے اس آمیزے کی د وآتشہ چاشنی آج کے انسان کے کام و دہن کو بے اختیار اپیل کرتی ہے۔