کیوبا (جیوڈیسک) کیوبا کے انقلابی رہنما اور سابق صدر فیڈل کاسترو 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ کیوبا کے موجودہ صدر اور چھوٹے بھائی راول کاسترو نے موت کی تصدیق کر دی ہے۔
فیڈل کاسترو نے 1953 میں مونکاڈاملٹری بیرکس پر حملے میں حصہ لیا تھا۔ انہیں ناکام حملے میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں فیڈل کاسترو کیوبا سے باہر چلے گئے اور 6 برس جلا وطنی ختم کر کے گوریلا جنگ شروع کر دی۔
سن 1959 میں انہوں نے کیوبا کا اقتدار حاصل کیا اور 5 عشروں تک اقتدار میں رہے۔وہ چھ سو سے زائد ناکام قاتلانہ حملوں کا سامنا کرنے والی اور دس امریکی صدور کو بدلتے ہوئے دیکھنے والی تاریخ ساز شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔
انہیں اکیسویں صدی کی عالمی سیاست کا ایک اہم ستون قرار دیا جاتا ہے۔ کیوبا کے انقلاب کی روح رواں کاسترو نے دس برس قبل اقتدار اپنے چھوٹے بھائی راؤل کاسترو کو منتقل کر دیا تھا۔
بیس جولائی کو امریکا اور کیوبا ہوانا اور واشنگٹن میں اپنے اپنے سفارت خانے کھولے۔ 1961ء میں سرد جنگ کے دور میں امریکا نے کیوبا سے سفارتی تعلقات منقطع کر دئیے تھے۔
طویل العمری اور صحت کے مسائل کی وجہ سے فیڈل کاسترو نہ صرف سگار پینا ترک کر چکے تھے بلکہ وہ عوامی منظر نامے پر بھی کم ہی نظر آتے تھے، وہ اپنی قوم کے ایک رہنما اور ہیرو تصور کیے جاتے ہیں۔
فیڈل کاسترو نے جب سن انیس سو تریپن میں مونکاڈا ملٹری بیرکس پر حملے میں شرکت کی تھی تو تب کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ نوجوان ملکی تاریخ کی ایک اہم سیاسی شخصیت بن کر ابھرے گا۔
تب چھبیس سالہ وکیل کاسترو کو اس ناکام حملے میں ملوث ہونے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان کے کئی باغی ساتھیوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا لیکن کاسترو کیوبا کے آمر حکمران فُلخینسیو باتیتسا کی فورسز سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
اس واقعے کے چھ برس بعد جلا وطنی کی زندگی ترک کرتے ہوئے کاسترو ایک مرتبہ پھر ہوانا میں داخل ہوئے، وہ اس وقت صرف بارہ گوریلا جنگجوؤں کے ساتھ ایک بڑے مشن پر تھے۔ کمیونسٹ کاسترو پہلی مرتبہ اس وقت منظر عام پر آئے جب انہوں نے گوریلا کارروائی کے ذریعے باتیتسا اور ان کی اسی ہزار کی فوج کو شکست سے دوچار کر دیا۔
سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں کیوبا میں کاسترو کی اس اچانک اور غیر متوقع کامیابی نے کمیونزم کو امریکا کے سر پر لا کھڑا کیا تھا۔ اسی خوف کے باعث امریکی خفیہ ایجنسی اور کیوبا کے جلا وطن شہریوں کے ایک حلقے نے کاسترو کو ہلاک کرنے کے کئی منصوبے بنائے لیکن تمام ناکام رہے۔
امریکی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ فابیان ایسکلانتے کے مطابق کاسترو کو کم ازکم 634 مرتبہ قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔فیڈل کاسترو خود کو امریکی ’سلطنت‘ کے ایک سخت حریف قرار دیتے تھے۔
کاسترو نے نصف صدی تک کیوبا پر حکمرانی کی اور اس دوران انہوں نے سن انیس سو انسٹھ میں اپنے ہی ایک گوریلا کمانڈو ہوبر ماتوس کو بیس برس کی جیل کی سزا بھی سنائی۔ وہ کیوبا میں منحرفین کو سخت سزائیں دینے سے کبھی نہیں چوکتے تھے۔ کاسترو کے مخالفین انہیں ایک ’جابر آمر‘ کے طور پر بھی یاد کرتے ہیں۔
اپنے دور اقتدار میں کاسترو نے لاطینی امریکا میں بائیں بازو کے گوریلا فائٹرز کی بھرپور حمایت کی۔ انہوں نے ایسے ملکوں میں بھی جنگجو روانہ کیے، جہاں سرد جنگ کے اثرات شدید ہو گئے تھے۔
اس دور میں کاسترو نے کمیونزم کی حمایت کی خاطر انگولا، ایتھوپیا، کانگو، الجزائر اور شام میں مجموعی طور پر تین لاکھ چھیاسی ہزار دستے روانہ کیے تھے۔
کاسترو ساٹھ کی دہائی میں ہی دنیا بھر کی انقلابی تحریکوں اور انفرادی سطح پر مزاحمت کرنے والوں کے ہیرو بن چکے تھے۔ تیرہ اگست کیوبا میں کاسترو کی سالگرہ کی تقریبات کا شاندار انداز میں انعقاد کیا تھا۔