تحریر: ایم آر ملک تاحد نظر کوہساروں کا لامتناہی سلسلہ پھیلا ہوا تھا کالے ناگ کی طرح بل کھاتی شاہراہ پر عازم سفر ہوئے تو ماضی جو کہر آلود دھند کے سورج کی طرح نظروں سے اوجھل رہتا ہے خیالات کی دھوپ میں اعوان قوم کے سپوت ملک نعیم اعوان کے چہرے کے ساتھ ہمارے سامنے آکھڑا ہوا ایک آمر کی چھتری تلے غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے یہ عام انتخابات تھے
جسے جمہوریت کا نام دیکر جمہور کے حق خود ارادیت کا مذاق اُڑایا گیا ماضی کے وہ تمام داغدار ،موروثی چہرے جو فخر ایشیا کی وفائوں کا دم بھرتے نہ تھکتے تھے اُس کے اقتدار کا سورج غروب ہوتے ہی مفادات کی زنبیل اپنے شانوں پر رکھے ایک آمر کے شانہ بشانہ آکھڑے ہوئے انہی انتخابات نے جہاں بہت سے چہروں کے نقاب اُلٹے وہاں عوامی متاع کو امانت سمجھ کر کئی نوجوان بے داغ کردار کے ساتھ میدان سیاست میں اُترے جنہوں نے سیاست کو عبادت سمجھ کر اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا این اے 51سے ایک نوجوان جس کا شباب سوا نیزے پر تھا
حلقہ کے عوام کے دل و دماغ پرحسن ِ اخلاق کی مجسم تصویر بن کر چھا گیا خوشاب میں اس خوبرو نوجوان نے اپنی انقلابی انتخابی مہم سے موروثی سیاست کا باب ہمیشہ کیلئے مقفل کر دیا وہ روز مجھے آج بھی یاد ہے جب ملک نعیم اعوان کے خطاب کیلئے خوشاب کے نواحی گائوں ”چوآ”میں سٹیج سجایا گیا اپنے الفاط کی سچائی سے ملک نعیم اعوان نے پنڈال میں بیٹھے عوا م کے دل یوں موہ لئے کہ مجھے اقرار کرنا پرا اُس کی باتوں میں چاشنی ہے بہت روز اُس شخص سے ملا نہ کرو انتخابات کا تسلسل ہمارے ہاں بد قسمتی سے یوں آتا ہے کہ مقررہ مدت پوری کئے بغیر اسمبلیاں ٹوٹنے کی بازگشت ہماری سماعت سے اچانک ٹکراتی ہے کہ ہم ششدر رہ جاتے ہیں وطن عزیز کے دیگر حلقہ جات میں کسی کی جیت اُس کا جاگیردارانہ پس منظر بنتی ہے تو کوئی نو دولتیہ اپنی دولت کے بل بوتے پر عوام کے حقِ خود ارادیت پر ڈاکہ ڈال کر اپنی جیت کی حتمی راہ ہموار کرتا ہے مگر ملک نعیم اعوان نہ تو یہ جاگیر دارانہ خاندانی پس منظر رکھتا تھااور نہ ہی علاقہ مہاڑ کے تاحد نظر پھیلے کوہستانی سلسلہ کی طرح دولت کا لامحدود بنک اکائو نٹ، اُس کے پاس اگر کچھ تھا تو وہ این اے 51کے عوام کا وہ اعتماد تھا
جسے ملک نعیم اعوان نے اپنی سچائی اور کردار کی طاقت سے ٹوٹنے نہ دیا ضلع کا کوئی گائوں ،بستی ،لوک ،گراں ایسا نہ تھا جہاں کسی بھی فرد پر دکھ کی کیفیت طاری ہوئی اور ملک نعیم وہاں اُس کے قریبی عزیزوں سے پہلے نہ پہنچا ہو اُس کے حسن اخلاق ،محبت اور عوام کے دکھ میں شرکت کا اعجاز تھا کہ ملک نعیم جب تک سیاست کے میدان میں موجود رہا شکست نے اپنا چہرہ پھیر لیا ورنہ ہمارے ہاں تو سیاست دانوں کا چلن دیکھتے ہوئے عوام ایک الیکشن کے بعد اگلے الیکشن میں نیا چہرہ تلاشتے ہیں
وقت کا پہیہ نہ رکا اور اسے کب رکنا ہوتا ہے سیاسی حریفوں کے منصوبے ملک نعیم اعوان کی کامیاب سیاسی حکمت عملی اور فکرو تدبر کے سامنے دم توڑتے رہے اعوان قوم کی لیڈر شپ کا دعویٰ کرنے والے بھی بے نیل و مرام رہے کہ قوم نے باور کر لیا تھا اُن کا سچا مسیحا ملک نعیم اعوان ہی ہے جس روز سابق صدر اسحاق خان نے اسمبلی توڑی تو ملک نعیم اعوان کا تبصرہ بڑا خوبصورت تھا کہ ”جو شخص بادام نہیں توڑسکتا اُس نے اسمبلی توڑ دی ”مہاڑ کی دھرتی پر بسنے والے ہر باسی کی یہ خاصیت ہے کہ وہ شکست کو قبول نہیں کرتا ملک نعیم اعوان کو ایک ان دیکھی بیماری نے آن گھیرا ،زندگی ویسے بھی امتحان لیتی ہے
Elections
این اے 51 کے عوام کی محبتوں کا قرض اُتارنے کیلئے ڈور ٹو ڈور دستک جاری رہی 1993 کے عام انتخابات میں یہ شخص آخری بار عوام کی عدالت میں آیا تو اُس کی ایک ٹانگ کام نہیں کر رہی تھی وہ لاٹھی کے سہارے چلتا ہوا میرے آبائی گائوں آیا یہ منظر خود میرے لئے بھی بڑا کربناک تھا مجھے اُس کا گلاب کی طرح کھلتا ہوا چہرہ اور لبوں پر مسکراہٹ آج بھی اُسی طرح یاد ہے اقتدار کا سورج غروب ہوتا دیکھ کر اور احسانات پر پائوں رکھ کر اپنے مفادات کو اپنی دسترس میں لینے کیلئے ماہی بے آب کی طرح بے تاب اور ایک احسان فراموش کردار صالح محمد گنجیال کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر کہے گئے
ملک نعیم اعوان کے الفاظ خوشاب کی فضائوں میں جیسے معلق ہو کر رہ گئے کہ ”مجھے آپ ووٹ دیں یا نہ دیں الحاج ملک صالح محمد گنجیال کی جیت کو یقینی بنائیں ”ملک نعیم نے صالح محمد گنجیال کی جیت کو بھی اپنے ساتھ یقینی بنایا مگر مقدر کے اس سکندر کو علالت کے پنجوں نے جکڑلیا کہ اُس کی طوالت کا دورانیہ برسوں پر محیط ہو گیا 21برس سے ڈیفنس لاہور میں بستر علالت پر پڑا یہ شخص میدان سیاست کا ناقابل شکست کردار رہا وفا کی انتہائوں پر کھڑے اس شخص نے ہر بار عوامی اعتماد کو رائے ونڈ کے شریفوں کی جھولی میں بغیر کسی قیمت کے ڈالامحترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف جب عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو ملک نعیم اعوان کی وفائوں کا اثر تھا کہ حزب اقتدار کی کثیر تعداد بھی ملک نعیم اعوان کا دم بھرنے لگی
اسی کا شاخسانہ تھا کہ وفا ئوں کی یہ قیمت ”جیکالز مڈ نائٹ ” جیسے کیسز کی شکل میںملک نعیم اعوان کو چکانا پڑی وفا اور اعوان دو لازم و ملزوم چیزیں ہیں جب علالت کے پنجوں نے اُسے اپنے حصار میں لیا تو ن لیگی قیادت بیمار پرسی تک کو نہ آئی عرصہ پہلے ایک دانشور دوست نے اپنے خطہ کے باسیوں کے بارے میں یہ ریمارکس دیئے تھے کہ ”مہاڑ کے لوگوں کی روزی بارش کی صورت آسمان سے اترتی ہے بارش برس گئی تو جل تھل ورنہ صبر شکر اُن کا اثا ثہ ہوتا ہے قناعت ،صبر اور برداشت کی آخری حدوں پر آباد زرخیز ذہنوں کے ساتھ یہ لوگ زندگی کے جس میدان میں داخل ہوتے ہیں انقلاب برپا کر دیتے ہیں مگر اس سوال کا جواب کسی سائنسدان کے پاس بھی نہیں خشک ،بنجر اور پتھروں کی سرزمین کے یہ باسی زرخیز ذہن جانے کہاں سے لاتے ہیں ؟
اُس روز جب ہم عازم سفر ہوئے تو کالے ناگ کی طرح بل کھاتی سڑک جو پہاڑی سلسلہ کو چیرتی جارہی تھی نعیم اعوان بہت یاد آیا جس نے اُن افراد کیلئے ان شاہراہوں کی تکمیل کو یقینی بنایا جن کے پیارے ”پربت ”میں موت کے منہ میں چلے جاتے تو اُنہیں اپنے پیاروں کی میتیں لیکر اپنے گراں تک پہنچنا بڑا دشوار ہوتا ، میرا کالم پڑھنے کے بعد پھولوں کی طرح اعوان قوم کی سانسوں میں مہکتے بستر علالت پر پڑے اس مسیحا کیلئے دعائے صحت کیلئے ہاتھ ضرور اُٹھایئے گا شاید جب آپ میں سے کوئی ہاتھ بارگاہ رب العزت میں اُٹھے تو وہ لمحہ شرف ِ قبولیت کا ہوبرسوں سے چپ کی بُکل مارے اس شخص کے الفاظ کو احباب ترس گئے ہیں جن میں میں بھی شامل ہوں دنیا کے سارے موسم اور ساری محفلوں سے وہ بیگانہ ہو گیا ہے اور خدا کرے وہ موسم ،وہ محفلیں اُس کیلئے دوبارہ لوٹ آئیں آمین ثم آمین