تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ انگلینڈ کے شہر ناٹنگھم میں ایک میچ ہو رہا تھا جس میں سفید رنگ کے سوالی ہاتھوں میں لکڑی کے لمبے لمبے کاسے پکڑے گیارہ سخیوں سے سوال کر رہے تھے کہ بابا ہمیں رنزوں کی شدید بھوک لگی ہوئی ہے سنا ہے آپ بہت دریا دل ہو آج دیکھتے ہیں آپ گیارہ میں سے کون بڑا سخی ہے جو ہماری بھوک مٹائے ؟ان کا سوال سن کر سب سبز پوش بادشاہ نما سخیوں کی دریا دلی نے جوش مارا سب سبز پوشوں کے دل سخاوت میں ایک دوسرے سے بڑھ کر کچھ کر دکھانے کے لئے بے چین ہو گئے ۔ہر کوئی اپنے تئیں یہ چاہ رہا تھا کے اک دوجے پر سبقت لے جائے۔
پھر کیا ہوا کے دیکھتے ہی دیکھتے ان سبز پوش دریا دلوں میں اک مقابلے کی فضا پیدا ہو گئی ۔کیونکہ جس قوم کے در پر ہم کاسہ لئے کھڑے رہتے تھے آج اگر وہ سوالی بن گئے ہیں تو ان کو اتنا دینا بنتا ہے جتنا ان کے وہم و گمان بھی نہ ہو اور ہوا بھی ایسا ہی ۔بالخصوص تین بادشاہوں نے تو حد ہی کر دی ۔عامر نامی بادشاہ نے پورے بہتر 72 رنز ان کے دست سوال پر رکھ کر دوسرے بادشاہ کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہا ہو مجھ سے بڑھ کر کون دریا دل ہو گا ؟ مگر ایک نوجوان دریا دل سخی نے چوہتر 74 رنز دے کر عامر بادشاہ پر برتری تو حاصل کر لی مگر ساتھ ساتھ دو سوالیوں کو میدان بدر کرنے کی جسارت بھی کر ڈالی اب گیارہ کے گیارہ سخی طنزیہ نظروں سے نوجوان بادشاہ ھسن کی طرف دیکھ رہے تھے کہ اسے سخاوت کے آداب بھی نہیں آتے بھلے ہی اس نے عامر سے زیادہ سوالیوں کو نوازا تھا مگر کسی سائل سے ایسا سلوک تو نہیں کرنا چاہیئے نہ کہ اسے میدان بدر کیا جائے؟
ان کے بعد ایشیا کے سب سے بڑے دریا دل سخی میدان نا ٹنگھم کے حاتم طائی شہنشاہ وہاب ریاض آگے بڑے انہوں نے ایک طائرانہ نگاہ دوسرے سخیوں پر ڈالی اور عملی طور پر وہ کر دکھایا کہ تمام کے تمام سخی اور سائل بھی انگشت بدداں رہ گئے ۔شہنشاہ وہاب ریاض نے پورے ایک سو دس 110رنز دے کر سب کو ورطہء حیرت میںڈال دیا اور پھر تمام سخاوت کنندہ اور سوال کنندہ ان کے معتقد ہو گئے اور بلا شرکت غیرے ان کو میدان کے حاتم طائی کے عہدہ براء ہوتے ہوئے پوری دنیا نے دیکھا ۔ تو جناب یہ کہانی تھی ان بہادروں کی کہ جنہوں نے انگریز کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا۔
Wahab Riaz
اس سے قبل جتنے بھی گیند بردار سبز پوش شہنشاہ گزرے ہیںان میں سے شائید ہی کوئی سخاوت کی اتنی لازوال مثال قائم کر سکا ہو ۔بلکہ سبز پوش گیند بردار شہنشاہ کنجوسی میں مشہور تھے لہذا تمام سفید فام اس دن سے شہنشاہ وہاب ریاض کے حلقہء ارادت میں داخل ہو چکے ہیں ۔
قارئین محترم آپ نے بھی یہ میچ بغور دیکھا جس میں پاکستانی فیلڈر اور بائولر اس طرح بے بس دکھائی دے رہے تھے جیسے کسی ناکردہ گناہ کی سزا بھگت رہے ہوں بڑے بڑے ناموں کے حامل یہ کھلاڑی کسی کلب کرکٹر سے بھی نچلی سٹیج کے کھلاڑی محسوس ہو رہے تھے ۔وہ تو اللہ بھلا کرے جیسن رائے کا جنہوں نے مہمان سمجھتے ہوئے ان کا لحاظ ملحوظ خاطر رکھا ورنہ ایسا لگ رہا تھا کہ آج یہ ہمارے نام نہاد شاہین دراصل شاہینوں کے لباس میں بریلر مرغ ہوں جس میں خود چلنے کی سکت نہیں ہوتی جو قصاب کے سامنے پر مارنا بھی ادب سے رو گردانی سمجھتا ہے ۔اور ہمارے فیلڈر تو گیند کو پکڑنا ایسے سمجھتے ہیں جیسے اگر اسکو چھو لیں گے تو وہ پتھر کے بن جائیں گے مقام حیرت ہے کہ تین میچز میں ایک بھی بار یہ بائولرز نما لوگ انگلستان کے دس کھلاڑیوں کو آئوٹ کرنے میں کامیاب نہیںہوسکے ۔ کاش ان لوگوں کو ملک و قوم کا تھوڑا سا بھی احساس ہو اور یہ جان لڑا کر کھیل سکیں ۔اب ذرا بلے بازوں کی حالت کو بغور دیکھیں کہ جب انگلش بائولر گیند کروانے کے لئے ان کی جانب آتا ہے تو ان کو ایسے لگ رہا ہوتا ہے جیسے گیند باز کے روپ میں عزرائیل ان کی جانب آرہا ہو ان کا جسم ساکت و جامد سا ہو جاتا ہے اور پھر آئوٹ ہو کر سکھ کا سانس لیتے ہوئے پویلین کی جانب لوٹتے ہوئے بڑے پرسکون انداز میں واپسی پرایسے مطمئین دکھائی دیتے ہیں جیسے موت کے منہ سے بچ گئے ہوں ۔مخالف بائولر کے سامنے مزاحمت کرنا یہ گناہء کبیرہ سمجھتے ہیں۔
Pak Team
حلانکہ یہ جانتے بھی تھے کہ اس سریز میں ہارنا ان کے لئے زندگی موت کا کھیل ہو اور تاریخ میں پہلی مرتبہ اب پاکستان کو کوالیفائینگ رائونڈ کھیل کر ورلڈ کپ میں جانا پڑے گا ۔یہ کھلاڑی صاحبان اپنے وجود پہ سجے سبز پرچم کو صرف ٹرائوزر اورشرٹ ہی سمجھ بیٹھے ہیں ان کی اسی بری کارکردگی سے جتنی شرمندگی محسوس ہو رہی ہے کاش یہ اسے سمجھ پاتے ۔کیونکہ دنیا بھر میں کسی نے یہ نہیں کہنا کہ اظہر علی ہارا ہے ،کسی کی زبان پر یہ نہیں آئے گا کہ شعیب ملک شکست کھا گیا ،کوئی یہ نہیں کہے گا کہ بابر اعظم ہار گیا ،کوئی یہ کہنے کی دلیری نہیں کرے گا کہ سرفراز، نواز،سمیع اسلم ،حسن علی ،وہاب ،یا یاسر شاہ نے ہزیمت اٹھائی بلکہ ساری دنیاکہہ رہی ہے کہ پاکستان تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار ہوا ماسوائے محمد عامر اور شرجیل خان کے کوئی بھی انگلش بائولرز کو یہ احساس نہ دلا سکا کہ اگر اپ کے بلے باز ورلڈ ریکارڈ بنا سکتے ہیں تو ہم بھی کسی سے کم نہیں ۔جس وقت کوئی ٹیم میدان میں کسی بھی ملک کی ٹیم سے نبرد آزما ہوتی ہے تو وہ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی طور پر ایک ملک کی نمائیندگی کر رہی ہوتی ہے کتنی شرم کی بات ہے کہ جو ملک ابھی چند ہی دن پہلے ٹیسٹ رینکنگ میں نمبر ون کا اعزاز حاصل کرتا ہے وہی چند دن بعد ایک روزہ رینکنگ میں نمبر نو کو بھی چھوڑ کر دس نمبری بن رہی ہو۔
دیکھنا یہ ہے کہ فرق کیا ہے ؟کیا صرف مصباح الحق،یونس خان ،اسد شفیق،اور سہیل خان کا نام ہی پاکستان تھا ارے بابا باقی تو سارے شیر جوان وہی ہیں جو ٹیسٹ ٹیم کے ساتھ بھی تھے تو پھر یہ کیوں اپنے آپ کو پاکستان نہیں سمجھتے ؟کیوں ملک و قوم کی عزت ان کی نظر سے محو ہوجاتی ہے ؟بائولر اگر میدان کے حاتم طائی بنے ہوئے تھے تو ریگولر بلے باز اتنے رحمدل کے روپ میں دکھائی دیئے کہ بیچاری گیند کو ان کے بلے سے کہیں چوٹ ہی نہ لگ جائے ۔جہاں عامر اور محمد نواز انگلش گیند بازوں کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہیں وہاں بلے باز کیوں لڑکھڑا گئے ؟کیوں خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گرتے چلے گئے اگر اسی طرح کی ٹیم نے وطن کی نمائیندگی کرنی ہے تو خدا کے لئے قوم وملک کی دولت ان پر برباد نہ کریں ۔کھیل یہ نہیں سکتے اور ہار پاکستان جاتا ہے ۔اس سبکی کا ذمہ دار کون ہے کوئی نہیں قبول کرے گا کسی میں اتنی اخلاقی جرات ہے ہی کہاں ۔شہر یار خان ،نجم سیٹھی ،انضمام الحق،مکی آرتھر یا پھر ساری ٹیم اگر ان لوگوں میں اخلاقی جرات ہے تو اپنا قصور مانتے ہوئے قوم سے معافی مانگیں اور اپنے وطن کی عزت کا خیال نہ کرنے والوں کو فوری فارغ کر دیں بالکل اسی طرح جس طرح ہم براہ راست ورلڈ کپ کھیلنے سے ان سب لوگوں کی وجہ سے فارغ ہو رہے ہیں۔
M.H Babar
تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر Mobile ;03344954919 Mail ;mhbabar4@gmail.com