قیام پاکستان کے ساتھ ہی مشکلات نے پاکستان کوآن گھیرا۔ ایک طرف مہاجرین کا مسئلہ تو ایک دوسری طرف وسائل کی کمی ۔ہندوستانی پر امید تھے کہ جلدہی پاکستان اور ہندوستان ایک ہو جائیں گے۔ لیکن قائداعظم محمد علی جناح، نوابزادہ لیاقت علی خان اور دوسرے محب وطن پاکستانیوں نے ان کے خواب کو خواب ہی رہنے دیا۔ جس وجہ سے انڈیانے برہم ہوکر پاکستان پر حملہ کرنے کی ٹھانی۔ 6 ستمبر 1965ء وہ تاریخی دن تھا۔ جب مکار، عیار اور بزدل بھارت نے فجر سے پہلے ہمارے پاک وطن پر چوری چھپے حملہ کر دیا۔ کفر کا ایک بدبودار سیلاب تھا۔ جو اسلحے سے لیس فوجیوں کی صورت میں لاہور بارڈر پر واقع گائوں ہڈیارہ پر قبضہ کرنے کے بعد بر کی کی طرف بڑھ رہا تھا۔
Major Raja Aziz Bhatti Thing
بھارت کے وزیراعظم لال شاستری اور چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل جے این چوہدری کا ارادہ تھا کہ مال روڈ لاہور پر انڈین آرمی سے سلامی لیں گے اور 6 ستمبر کی شام کو لاہورجم خانہ کلب میں کھانا کھائیں گے۔ بھارت سمجھتا تھا کہ وہ پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹادے گا۔ وہ بھول چکا تھا کہ جس ملک کی فوج میں میجر عزیز بھٹی جیسے جیالے سپاہی ہوں اس ملک کی طرف دیکھنے والی ہر میلی آنکھ اپنی بصیرت کھو سکتی ہے۔
بھارتی فوج اپنے بے پناہ اور جدید اسلحے کے زعم میں لاہور کی طرف بڑھتی چلی آرہی تھی۔ پاکستان پر حملہ کے وقت میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کررہے تھے۔ اس کمپنی کے دو پلاٹون بی۔آر۔ بی نہر کے دوسرے کنارے پر متعین تھے۔ میجر عزیز بھٹی نے نہرکے اگلے کنارے پر متعین پلاٹون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ان حالات میں جبکہ دشمن تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا اور اسے توپ خانے اور ٹینکوں کی پوری پوری امداد حاصل تھی۔ میجر عزیز بھٹی اور ان کے ساتھ موجود جوانوں نے آہنی عزم کے ساتھ لڑائی جاری رکھی اور اپنی پوزیشن پرڈٹے رہے۔ 9 اور 10 ستمبر کی درمیانی رات کو دشمن نے اس سارے سیکٹر میں بھر پور حملے کیلئے اپنی ایک پوری بٹالین جھونک دی۔ جنھوں نے اپنے چھوٹے ہتھیاروں، دیو قامت ٹینکوں اور اپنی کرائیڈل توپوں سے پاکستانی فوج پر آگ برسادی۔
Major Raja Aziz Bhatti
بڑکی سیکٹر میں میجر عزیز بھٹی تین دن اور تین راتوں سے مسلسل جاگ رہے تھے اور دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیواربنے ہوئے تھے۔ جب آپ کے اعلیٰ آفیسرز کو پتہ چلاکہ میجر عزیز بھٹی تین دن سے جاگ رہے ہیں تو انہوں نے میجر عزیز بھٹی کو اپنے مورچے میں بلوایا اور کہا: ”میجر بھٹی!ہمارے لئے تازہ کمک (امدادی فوج) آگئی ہے۔ اب آپ آرام کرو”میجر صاحب نے پرجوش لہجے میں جواب دیا۔ سر!”جب تک دشمن کا خاتمہ نہیں ہوجاتا میں آرام نہیں کروں گا”میجر عزیز بھٹی اوران کے جانباز سپاہی آہنی عزم کے ساتھ لڑائی جاری رکھے ہوئے تھے جبکہ دشمن ان کی جان کے درپے تھا۔
کہاں چند سو سپاہی اور کہاں ہزاروں کی تعداد میں دشمن، ایک طرف اسلحے کی قلت اور دوسری طرف اسلحے کی فراوانی۔ لیکن یہ کفر و اسلام کی جنگ تھی۔ یہ حق وباطل کی جنگ تھی۔ ایک طرف غرور، کمینگی، مکاری، عیاری اور بزدلی تھی جبکہ دوسری طرف شہادت کا جذبہ تھا اور شہادت ہر سچے مسلمان کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ ہر مسلمان چاہتا ہے کہ شہادت اس کا مقدربن جائے تاکہ وہ آخرت میں کامیاب ہوجا ئے۔ اسلئے اس جذبہ شہادت کی وجہ سے ایک ایک مسلمان بھی سینکڑوں پر بھاری ہوتا ہے۔
کفار کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ مسلمان آخری گولی اورآخری فرد تک لڑتاہے اور نتائج کی پروا نہیں کرتا بلکہ وہ نتیجہ صرف اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیتا ہے۔ اسلئے ہندوستان نے پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کا خواب دیکھ لیا تھا لیکن پا ک فوج کے بہادر جوانوں نے اس کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے یہ بتا دیا کہ پاکستان دنیا کے نقشے میں ایک آزاد مسلم ملک کی حثییت رکھتا ہے۔ اوراس کو فتح کرنا اتنا آسان کام نہیں۔ جبکہ لاہور پر قبضہ جماکر مال روڈ پر انڈین آرمی سے سلامی لینے کیلئے اسے انسانی شکل میں چٹانوں سے ٹکرانا ہو گا۔ ایک ایسی فوج سے ٹکرانا ہوگا جس کا ایک ایک سپاہی اپنی جان وطن پہ قربان کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہے۔جاری ہے۔