یہ اشکوں سے شاداب دو چار صبحیں‘یہ آہوں سے معمور دوچار شامیں انہی چلمنوں سے مجھے دیکھنا ہے وہ جو کچھ کہ نظروں کی زد میں نہیں ہے مسئلہ کشمیر ایک داستاں نہیں ایک افسانہ یا کوئی کہانی کا حصہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسی درد ناک حقیقت اورآئینہ ایام ہے جسے اہل نظر و علم و دانش نہ جانے کیوں ایک ڈرائونا خواب سمجھے بیٹھے ہیں موجودہ حالات کے تناظر میں نہا یت ہی باریک بینی اور گہرائی سے سوچا اور سمجھا جائے تو اس بات کا ادراک ذہن کے بند خانے کھولتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ ان نامساعد حالات میں جب کہ بھارت میں ایک عا لمی دہشت گرد حکومتی ایوانوں میں براجمان ہے جبکہ پاکستان کی حالت زار بھی خاصی پتلی ہی دکھائی دیتی ہے ناجانے یہ کیسے ہوا کس کا خواب یا کس ہمدرد انسان کا یہ خیال تھا کہ جب کشمیر کو بحث و مباحثہ سے نکال کر سرد خانوں میں دھکیلا جا رہا تھا
ایک امید کی کرن اور ایک دیوانے کا خواب نا امیدیوں اور تاریکیوں کے کارزاروں سے نکل کر منظر عام پر مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے سپر طاقت برطانیہ کے اندر ملین مارچ کے طور پر سامنے آیا جس کے لیے نہا یت تگ و دو جا ری و ساری رہی جس کا مقصد تو بظاہر کشمیری قوم کے حق خودارادیت کومنوانا اور اس اہم مسئلہ کو مثبت سمت میں تقویت پہنچانا تھا لیکن نجا نے کب کیسے اور کیوں اس کے پس پردہ کئی سازشوں اور خفیہ عزائم کی تکمیل کا ایک طویل ہنگامہ سرعام دیکھنے کو ملا ابتدائی احوال میں اس ملین مارچ کو آل پارٹیز سے منصوب کرکے ایک کشمیری قوم کے متفقہ اور متحدہ قومی نصب العین کی شکل دی گئی
یہا ں پر پو ر ی ریاست کشمیر کی عوام کے ساتھ اظہا ر یکجہتی اور ان کی امیدوں کو پا ئیہ تکمیل تک پہنچا نے کے لیے دعووں کی با ز گشت بھی دکھائی دیتی رہی اسے برطانیہ کے اندر حالیہ ہونے والے سکا ٹ لینڈ ریفرنڈم کو ملحوظ خاطر رکھتے ہو ئے کشمیریوں کے لیے ریفرنڈم کے اقدامات کو بھی تعبیر کیاگیا باوجود اسکے کے نہ جا نے با لعموم بائیں یاتھ کی جماعتیں اور بالخصوص چند مٹھی بھر علیحدگی اور ترقی پسند اس با ت کا بھی واویلا کرتے رہے کہ اس ملین کے ما رچ میں حقیقت کو چھپایا جا رہا ہے اور جو حکمران اپنے دورے اقتدار میں اس معنی خیز مشق کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہے وہ بھلا اقتدار سے با ہر رہ کر کیسے مسئلہ کشمیر کی کامیابی اور تکمیل کی خاطر کوئی سیر حاصل اقدام اٹھا سکتے ہیں ؟ اس حوالہ سے مجھے بھی یونائیٹڈ کاشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے ایک پروگرام میں جانے کی سعادت حاصل ہوئی جہا ں بہت سی الہپامی گفتگو اس تحریک کے چئیرمین سردار شوکت علی کشمیری سے روبرو سننے کا موقع میسر ہوا ایسے محسوس ہوتا تھا کہ شاید علم غیب کی محفل سجی ہوئی ہے
ملین مارچ میں جو ہونے جا رہا ہے اس کا نقشہ پہلے ہی خواص کے سامنے واضح کیا جا رہا ہے ، اہل علم و دانش اور غیب کے علم پر یقین رکھنے وا لے ہی شاید اس کا صیح اعادہ کرسکیں دانش کدے کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہو نے کے ناطے میں یہ پختہ یقین رکھتا ہو ں کہ ہر خاص و عام کو علم غیب ، انکشافات یا وجدان کی کیفیات حاصل نہیں ہوتیں بلکہ یہ ایک مخصوص طبقہ کو ہی عطا کی جا تی ہیں اور اس محفل میں جو ٢٢ اکتوبر کو قبائلیوں کی کشمیر میں مداخلت اور حملے کی مذمت میں انعقاد پذیر کی گئی شرکائ کی قبل از وقت پیشن گوئی محض حسن اتفاق یا کوئی حقیقی علم غیب سے متعلقہ نہ تھا لیکن اتنا ضرور کہو ں گا کہ ہما ری نام نہا د کشمیری قیا دت کی سابقہ روایات ، ہٹ دھرمی اور وسیع تر تجربا ت یہ حالا ت ثا بت کرتے ہو ئے دکھائی دیتے تھے جو مستقبل کی تصویر پیش کر رہے تھے
درحقیقت یہ ان کشمیریوں کے درد تکالیف احساسات و تخیلات اور جذبا ت کی عکاسی تھی جو اپنے محبوب وطن سے فطری محبت کے تقاضے پو رے کر رہے تھے جنہیں نام نہا د کشمیری حکمرانو ں کے کا لے کرتوتوں اور سیاہ سفید کا بخوبی علم تھا وہی ہوا جو انکشاف قبل از وقت کیا گیا تھا قومی غیرت و حمیت اور مسئلہ کشمیر کی حساسیت کا جنا زہ سرعام نکالا گیا وہا ں شرکائ کے ذہن کے بند دریچے اس تاریخی ملین ما رچ میں شمولیت کے بعد کھلے اور انہوں نے اس با ت کا برملا اظہا ر بھی کیا کہ ایسا اہم اور وقت کے تقاضوں کو پو را کرنے کے لیے ملین ما رچ انعقاد پذیر نہ ہی کیا جاتا تو بہتر تھا کیا جھوٹ تھا اور کیا
سچ آنکھیں تو وہا ں ٹرفالگر سکائر کی پر رونق اور بدنظمی اور بد تہذیبی کا شکا ر اس محفل میں جا کر آشنا ہوا بلا شعبہ ایک کثیر تعداد میں عوام خاص و عام تما م سیاسی ، مذہبی اور سماجی تنظیموں کے قا ئدین دیکھنے کو ملے خاص طو ر پر امیدوار چئیرمین یو ر پین یو نین سجا د حیدر کریم ، تا حیا ت ممبر ہائوس آف لارڈ برطانیہ لارڈ نذیر احمد ، لارڈ قربان حسین ، ممبر آف پا رلیمینٹ فار بورٹن برطانیہ اینڈریو گریفتھس ، صدر متحدہ قومی مو ومنٹ آزادکشمیر طا ہر کھو کھر، امیر جما عت اسلامی آزادکشمیر عبد الرشید ترابی ، مرکزی رہنما آل پارٹیز حریت کانفرنس شمیم شال ، سردار رنجیت سنگھ، سردار منموہن سنگھ خالصہ ، چیئرمین کشمیر کونسل برسلز علی رضا سید ، خواجہ فاروق احمد ایم ایل اے آزادکشمیر ، چو ہدری محمد صدیق ، ڈا کٹر محمو د ریا ض سابق ایم یل اے اوورسیز، سابق لارڈ مئیر محمد اقبال کونسلر، سیکرٹری جنرل سائوتھ لیڈز کمیونٹی الا ئنس گو ہر الماس خان ، محمد رئوف سہگل صدر کشمیر ویلفئیر مسلم ایسوسی ایشن ، صدر آل جمو ں و کشمیر مسلم کانفرنس برطانیہ چو ہدری بشیر رٹوی، نائب صدر آل جمو ں و کشمیر مسلم کانفرنس برطانیہ سردار سہراب خاں، آفتاب احمد، را جہ اعجاز پی ٹی آئی، شفقت حسین پاکستان تحریک انصا ف، پیر الحاج عزیز الرحمن، زاہد حمید پاکستان پیپلز پارٹی ، ابرار حسین صدر جے کے ایل ایف لیڈز ، محمد رشید سیکرٹری فنانس جا معہ ابو ہریرہ، سردار امجد جے کے ایل ایف، حاجی محمد یعقوب ، انجم میر نمائندہ جیو لیڈز، خواجہ کبیر صحافی ، بیرسٹر شازیہ انجم، چو ہدری عبدالوحید آف گلا سگو، سید حسین شہید سرور، را جہ نجا بت حسین، را جہ اللہ دتہ بر یڈ فورڈ ، صوفی امین سابق کونسلر، جا وید چو ہدری کونسلر ، اصغر قریشی کو نسلر، سابق لا رڈ مئیر بر یڈ فورڈ نویدہ اکرام ، محترمہ بلقیس صابر ، سابق لارڈ مئیر ہائی ویکم محبوب حسین بھٹی ، چو ہدری دلپزیر سمیت سیاسی سماجی و مذہبی اور تمام مکا ت فکر نے بھرپو ر شرکت کی
Politics
ہزاروں انسانوں کے اس با مقصد ہجوم کو سیاست اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اس پر رونق پر تاثیر اور با مقصد ملین ما رچ کے سٹیج پر جب مرکزی چیئرمین بلا و ل بھٹو زرداری انکی ہمشیرہ آصفہ بھٹو زرداری ، شرمیلا فا روقی ، جہا نگیر بدر ، وزیراعظم آزادکشمیر چو ہدری عبد المجید سمیت دیگر پیپلز پارٹی کے جیا لے نمودارہو ئے اور فضائ میں کشمیر کی بجا ئے جیو ے بھٹو کے نعرے بلند کیے گئے تو جذ بہ حریت سے سرشار کشمیر ی ، پاکستانی اور ایشیائی عوام نے سخت ردعمل کا اظہا ر کیا بلا ول بھٹو مردہ باد نریندر مودی مردہ باد اور گالی گلوچ کی آوازیں بلند ہو نے لگی ایک با مقصد اور با اثر تقریب ہلڑ با زی اور بدنظمی کی وجہ سے تہس نہس ہوگئی کشمیر کے نام پر اپنا تن من دھن اور کشمیری عوام کے ساتھ فطری وابستگی رکھنے والے افراد وہا ں پر بے بس اور لا چا ر دکھائی دیے جس پروگرام کو سبو تاژ کروا نے کے لیے بھا رتی حکومت نے ایڑھی چو ٹی کا زور لگایا
جسے برطانیہ کے اندر حالیہ ہونے والے سکاٹش ریفرنڈم کی مانند کشمیری عوام کے حق میں ریفرنڈم کروانے کا پیش خیمہ قرار دیا گیا اس کا رنگ ڈھنگ اور چال ڈھال سب کچھ بدل گئی تھی یہو ں محسوس ہو نے لگا تھا کہ جیسے یہ ایک مہذب ملک اور معا شرے کے اندر نہیں بلکہ کسی میرپور یا راولپنڈی کے گرائونڈ میں جلسہ منعقد کیا گیا ہے جس میں اونچی اونچی آوازیں کسی جا رہی تھیں جس میں موجود معزز مہمانان گرامی پر بوتلو ں اور گندگی سے وار کیے جا رہے تھے اور جو چیز جس کے ہاتھ میں آتی وہ سٹیج کی طرف اچھال دیتا چند ہی لمحوں میں وہ سارا کشمیر کی آزادی اور استصواب رائے سے جڑا ہوا جذبہ ملیا میٹ ہو گیا محض نام نہا د کشمیری حکمران بیرسٹر سلطان محمود چو ہدری جس نے محض اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کی خا طر یہ اتنی بڑی مداری لگا کر مجمعہ اکٹھا کیا اس نے کشمیری عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجا ئے ان کو مزید نقصان پہنچا یا میڈیا پر پو ری اقوام عالم نے یہ تماشا دیکھا کہ یہ خود کو کشمیری اور پاکستانی عوام کہلوانے والی عوام کتنی معتبر اور شریف النفس ہے
بھا رتی حکومت اور مقتدر اداروں نے خو شی کا جشن ضرور منایا ہو گا کیونکہ ان کے عزائم کی تکمیل یہ بے راہ روی کا شکا ر ہجوم جسے میں قوم کہنا بھی توہین سمجھتا ہو ں نے کردی ۔ اقوام متحدہ ، برطانیہ اور دنیا بھر کے مہذب معا شروں میں یہ منفی پیغام پہنچا کہ یہ قوم دنیا کے کسی بھی کو نے میں چلی جا ئے تو اپنی جذبا تیت اور لا قا نو نیت کا لبا دہ نہیں چھوڑ سکتی ہے اور کیا یہ سب تماشا دیکھ کر اقوام متحدہ اور برطانوی حکومت ان شتر بے مہا ر جژبا ت رکھنے والو ں کی کوئی مدد کرے گی ؟ جن لو گو ں کا گذ شتہ طویل عرصہ آزادی اور اسکے بعد ایک مہذب اور ترقی یا فتہ معا شرے میں وقت گزارنے کے بعد بھی قبلہ درست نہیں ہوا ہے وہ چا ند پہ بھی چلے جائیں تو اپنی فطرت کی عکا سی کرتے رہیں گے مجموعی طور پر کشمیر ی قوم اور مسئلہ کشمیر کو اس بد نظمی اور ناکامی کا شکا ر نام نہاد ملین مارچ نے بے حد نقصان پہنچایا ہے
جس کے نتا ئج آنے وا لے وقت میں خا صے منفی ہو سکتے ہیں ۔ ہر با شعور ذہن میں یہ سوالا ت پنپتے ہو ئے سنائی دیتے ہیں کہ آل پارٹیز کی بنیا د پر کیے جا نے والے اس ملین ما رچ میں محض پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ ترین قیا دت اور اکثریتی طو ر پر کیو ں اکٹھا کیا گیا ؟ بلا ول بھٹو زرداری کو کس نے اس پروگرام میں آنے کی تجویز پیش کی ؟ کس شخص نے اس ماحول کو نقصا ن پہنچا نے کے لیے سازش تیا ر کی ؟ عوامی حلقے یہ چہ مگوئیاں بھی کر رہے ہیں کہ بیرسٹر سلطان محمود سیاسی اعتبا ر سے بالکل ناکام ہوچکے تھے محض خود کو سیاست میں زندہ رکھنے کے لیے انہو ں نے یہ پلان تیا ر کیا اور پاکستان پیپلز پارٹی آزادکشمیر کے اندرونی اختلافات کی بد ولت بھی اس ملین مارچ کو تیا ر کیا گیا ۔ کیا بیرسٹر سلطان محمو د مخلصانہ طو ر پر کشمیرکے لیے کچھ کرنا چا ہتے تھے
یا انکا مقصد حقیقی طو ر پر اپنی اعلیٰ قیا دت کی خو شنودی حاصل کرنا تھا جو ان کے ماضی کے کرتوتوں کی وجہ سے خاصی نالاں تھی ؟ اور اگر واقعہ اس کو بد نظمی کا شکا ر بنا نے میں بھا رتی لا بی یا خفیہ اداروں کا کوئی کردار ہے تو اس کے خلا ف بھی بیرسٹر سلطان محمود اور پاکستان پیپلز اپرٹی کی اعلیٰ قیا دت کوئی انکوائری ضرور تشکیل دے کیو نکہ یہ ایک عدل وانصاف اور قانون کا علم بلند کرنے والا ملک ہے جہا ں پر کسی پر بھی اٹھ کر بے بنیا د الزاما ت نہیں لگا ئے جا سکتے ہیں بلکہ اس کے لیے با قا عدہ دلا ئل اور ثبوتوں کو مد نظر رکھا جا تا ہے اس ملک میں عدل و انصا ف ہر عام سے عام شہری کے لیے بھی ایک جیسا ہے بھا رت یا پاکستان کی طرح یہا ں پر کسی عہدے یا مرتبے کا لحاظ نہیں رکھا جاتا اور بیرسٹر اگر سچے ہیں ان کی با تو ں میں ذرا سی بھی صداقت ہے تو انہیں عالمی سطح پر اس اہم ملین ما رچ کو فلا پ کرنے والی خفیہ قوتو ں کے خلا ف واقع ہی ایک شکایا ت ترتیب دیکر انکوائری لگوانی چا ہیے جس سے سب دودھ کا دودھ اور پا نی کا پا نی سامنے آجائےاوربھو لے بھٹکے لو گ اس حقیقت سے آشنا ہو جائیں جس کے جال میں پھنسا کر کشمیری قوم کو ہمیشہ ہی استعمال کیا گیا ہے
جس کی بدولت مظلوم اور معصوم کشمیری قوم کے جذبا ت سے ہر نام نہا د کشمیری لیڈر کھیلتا ہی چلا آیا ہے اور اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل کی خا طر اس بھولی بھالی قوم کو استعمال کرکے کہ چلتا بنا ہے تا کہ آئندہ کوئی نہام نہا د لیڈر بدیانتی اور بے ایمانی کا استعمال کرتے ہو ئے اس قوم کی ہمدردیا ں حاصل نہ کرے اور انہیں دوبارہ گمراہی اور پریشانی کی طرف نہ لیکر جا ئے کیونکہ ایک طوائف تو روزانہ اپنا جسم فروخت کر کے اپنی قیمت وصول کرتی ہے جبکہ یہ نام نہا د اور بے ایمان لیڈر روزانہ ہی اپنے ضمیر کا سودا سر عام کرتے ہیں ۔