فلم پی کے کی جگو اور انتہا پسند ہندو

PK

PK

تحریر: سید انور محمود
بھارتی فلم پی کے جو پچاسی کڑوڑ روپے کی لاگت سے بنی تھی ابتک 600 کڑوڑ روپے کماچکی ہے جو ایک ریکارڈ ہے لیکن بھارتی انتہا پسند ہندو اس فلم کےخلاف مظاہرئے کررہے ہیں اور اسے پاکستان کی سازش قرار دئے رہے ہیں، اگر اُنکو اس فلم کی ہیرون مل جائے تو اُنکا ہیرون سے کہنا ہوگا کہ جگت جانی عرف جگوفلم پی کے میں جب آپ بیلجیم میں میں تھیں تو آپکو سرفراز یوسف نامی ایک پاکستانی لڑکے سے پیارہوگیا تھا، ہمیں اس بات پر قطعی اعتراض نہیں کہ آپکو پیار کیوں ہوگیا تھا، کڑوڑوں روپے کی فلم میں آپکو پیار کرنے کےلیے ہی رکھا گیا تھا جو ایک محبوبہ کا کردار ادا کرئے کسی کینسر کے مریض کے کردار کےلیے تو نہیں رکھا گیا تھا، لیکن ہمارا اعتراض یہ ہے کہ آپکو پورئے بیلجیم میں کوئی ہندو لڑکا نہیں ملاجو آپ ایک مسلمان لڑکے سے پیار کربیٹھیں اور وہ بھی پاکستانی مسلمان سے، نہیں جگو یہ تو شاید پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا کیا دھرا لگتا ہے، ہمیں تو یہ بھی شک ہے کہ اس فلم کو بنانے کےلیے پیسہ بھی آئی ایس آئی نے ہی لگایا ہے، اور اسکا ثبوت یہ ہے کہ اس فلم کے ڈائریکٹرراجکمار ہیرانی جسکا پرانا تعلق پاکستانی علاقے محراب پور، سندھ سے ہے ضرور اپنے کسی خاندانی بزرگ کے کہنے اور پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے فنڈ مہیا کرنے پر ایسی فلم بنائی جس میں ایک پاکستانی مسلمان کو اچھا انسان دکھایا اور ہمارئے ایک معزز پنڈت کو جھوٹا اور چور دکھایا اور ہمارئے مذہب کا مذاق بھی اڑایا گیا ہے۔ اس سے پہلے راجکمار ہیرانی نے ‘منا بھائی ایم بی بی ایس، لگے رہو منا بھائی اور تھری ایڈٹس’ جیسی فلمیں بنایں لیکن ان میں دور دور نہ تو کسی مسلمان ہیرو کا ذکر تھا اور نہ ہی کسی پاکستانی کا تو پھر فلم‘ پی کے’ کے ہیرو کوتم نے کیوں رونگ نمبر پر تلاش کیا، ہو نہ ہو یہ ایک پاکستانی سازش ہے۔

انتہا پسند ہندوں کےلیے جواب یہ ہے کہ تم نے جو سوال کیا ہے وہ نہ تو ہندو مذہب کی عقیدت میں کیا ہے اور نہ ہی بھارت کی محبت میں بلکہ یہ سب کھلی مسلم دشمنی اور خاصکر پاکستان دشمنی میں کہا ہے، کچھ عرصے سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے خلاف ‘لو جہاد’ کے نام پر اور پاکستان میں دہشتگردوں کی حمایت میں فسادیوں کو جہادی کہکراُنکی پاکستان میں کی گئی دہشت گردی کی جو حمایت کی جارہی ہے، فلم ‘پی کے’ کے خلاف مظاہرئے اُسی دشمنی کا ایک حصہ ہے۔ تمیں شاید یاد نہ رہا ہو یا ایک انتہا پسند ہندو کی طرح تم یہ بات قبول نہ کرنا چاہتے ہو کہ بھارتی فلم “او مائے گوڈ” میں جس انداز میں بھگوان کی بےعزتی کی گئی ہے اور مندروں کو بھگوان کا شاپنگ مال کہا گیا فلم ‘پی کے’ میں ایسا کچھ نہیں ہے مگر پورئے بھارت میں کسی نے بھی”او مائے گوڈ” کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا، آخر کیوں؟ شاید اس لئے کیونکہ اس فلم کے سو فیصد لوگ ایکٹر سمیت سب ہندو تھے، لیکن تماری اطلاع کےلیے بتادوں کہ فلم “پی کے” میں نناوئے فیصد ہندو ں نے اور صرف ایک نام نہاد مسلمان عامرخان نے اداکاری کی ہے تو سارا الزام عامر خان پر کیوں؟ اسلیے کہ اُسکا نام مسلمانوں جیسا ہے تو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بھارت میں جتنے خان یا مسلمان اداکار ہیں بدقسمتی سے کردار سے اُن میں سے ایک بھی مکمل مسلمان نہیں ہےاُنکو مسلمان کہنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ اسوقت بھارتی فلم انڈسٹری میں خان نامی جتنے بھی مسلمان اداکار ہیں ان تمام کی بیویاں ہندو ہیں، اُنکے گھروں میں مندر موجود ہیں اور بھگوان کی پوجا ہر روز ہوتی ہے۔

بھارتی انتہا پسند ہندوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے جہاں سرکاری طور پر کسی مہذب کی حمایت نہیں کی جاتی لیکن یہ مسلمان ہی ہیں جو مذہب کے نام پر بھارت کو کمزور کررہے ہیں اور اُنکا ساتھ پاکستان دیتا ہے، اب جیسا کہ سبکو معلوم ہے بھارت کے خان اداکاروں نے ہندوں عورتوں سے شادیاں کی ہوئی ہیں، یہ تو ہمارئے ہندو مہذہب کے خلاف ایک سازش ہے۔مسلمان لڑکے بھولی بھالی ہندو لڑکیوں کو اپنے عشق کے جال میں پھنساتے ہیں اور ان سے شادی کرکے بچے پیدا کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کی آبادی کو بڑھایا جائے اور ہندوستان میں مسلم حکومت قائم کی جاسکے۔باہر کے لوگ ہم پر چھارہے ہیں اورہم سے ہمارا ملک چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ اُن کا مقصدیہ بھی ہے کہ ہماری بہن بیٹیو ں کو جہاد کی ٹریننگ دے کرہمارے خلاف کیا جائے (یو ٹیوب پر یہ ویڈو موجود ہیں)۔ کشمیروں کو ہی لےلو، بھارت کی آزادی سے آجتک یہ مسلسل بھارت کے خلاف ہیں اور پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں، یہ بھارتی سیکولرازم کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے اور پاکستان اس سازش میں کشمیروں کا ساتھ دیتا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ فلم ‘پی کے’ میں جو کچھ دکھایا گیا ہے وہ بھارت کے خلاف اور پاکستان کی حمایت میں ہے جس سےنوجوان بھارتی مسلمانوں کو ہمت ملتی ہے۔

India

India

اس کا جواب یہ ہے کہ بھارت اپنی آزادی کے پہلے دن سے آجتک کبھی بھی ایک سیکولر ملک نہیں رہا، ہاں نام نہاد سیکولر ہونے کا پرچار ہمیشہ کرتا رہا۔بی جے پی تو کافی عرصہ بعد حکومت میں آئی ہے جبکہ پاکستان بننے کے فورا بعد کانگریس کی حکومت نے پاکستان کے حصے کی رقم روک لی، کچھ زمینی حصے جو پاکستان میں آنے تھے ان پر قبضہ کرلیا اور سب سے بڑھ کر کشمیر کے مسلے پر نہرو نے اقوام متحدہ کے زریعے دھوکہ بازی کی اور آج بھی کشمیری مسلمان آزادی کے لیے تڑپ رہے ہیں۔دسمبر 1992 میں جب انتہا پسند ہندوں نے بابری مسجد کو شہید کیا جب بھی مرکز اور صوبہ اترپردیش میں کانگریس ہی کی حکومت تھی۔ آزادی کے بعد سے ابتک ہندوستان میں زیادہ تر کانگریس ہی کی حکومت رہی ہے اورلاتعداد ہندو مسلم فسادات ہوچکے ہیں جس میں زیادہ تر مسلمانوں کاجانی اور معاشی نقصان ہوا ہے۔ کانگریس یا نہرو خاندان کی سیاست جواہر لال نہرو کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہوئی بلکہ ان کے مرنے کے بعد ان کی بیٹی اندرا گاندھی اور نواسا راجیو گاندھی ہندوستان کے وزیراعظم بنے اور آج بھی انہیں کا خاندان ہندوستان کی سیاست پر حاوی ہے ۔

اندرا گاندھی کی بہو سونیا گاندھی جسکو جمہوری بھارت میں صرف اس لیے ملک کا وزیراعظم نہیں بننے دیا گیا کہ وہ ہندو نہیں ہے، وہ چلی تھیں بھارتی فلم نگری کے ذریعے پاکستانیوں کے ذہنوں کو فتح کرنے، وہ مسلم ثقافت اور پاکستانی کلچر کو شکست دینے کے دعوے کررہی تھی۔ لیکن ہوا الٹا، بھارتی فلموں نے نوجوانوں کے ذہنوں میں تلاطم پیدا کردیا۔بھارت کے نوجوان جنسی بھیڑیئے بن چکے ہیں، گھر سے باہر نکلنے والی یا گھر کے اندر رہنے والی ہر ہندوستانی عورت اپنے ہم وطن درندے کی درندگی کے خطرے سے دوچار ہے۔ سونیا گاندھی جس اسلحے سے پاکستانیوں کو زیر کرنے چلی تھیں وہ اب خود انھیں زخمی کر رہا ہے۔ موہن داس کرم چندگاندھی کو ایک ہندو نے، اندرا گاندھی کو ایک سکھ نے اور راجیو گاندھی کو ایک تامل ٹائیگرز عورت نے قتل کیا جبکہ کسی بھارتی مسلمان نے کسی چھوٹے سے چھوٹے ہندو لیڈر کو نہیں مارا۔ اس کے باوجود بھی بھارتی مسلمانوں کو جان بوجھ کر انڈین فلموں میں تخریب کار اور دہشتگرد کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔اسی زہر آلود پروپیگنڈے نے نریندر مودی کے بھارتی وزیراعظم بننے کی راہ ہموار کی۔ بھارتی صوبہ گجرات میں فروری دو ہزار دو میں مسلم کش فسادات کے دوران سنگھ پریوارکا رہنما اور آج کابھارتی وزیاعظم نریندر مودی وزیر اعلی تھا، اس مسلم کش فسادات میں دوہزار سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھا۔

بھارتی فلم انڈسٹری کا گڑھ ممبئی ہے اور یہی شہر شیوسینا کا بھی قلعہ ہے۔ سیف علی خان اور شبانہ اعظمی جیسے مشہور اور خوشحال لوگ جب ممبئی میں گھر نہ لے سکتے ہوں، تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ صورت حال کتنی پیچیدہ ہوگی۔ شبانہ اعظمی جس نے شاید ہی کبھی کسی بھارتی فلم میں مسلمان کا کردارادا کیا ہو وہ اور سیف علی خان جس نے کرینہ کپور سے اس کے ہندو مذہب پر قائم رہتے ہوئے شادی کی جب ایک گھر نہ خرید سکیں کہ وہ نام کے مسلمان ہیں تواس سے ہندو تعصب کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ شاہ رخ خان نے گوری سے اس کا مذہب بدلے بغیر شادی کی۔ شاہ رخ خان کے تینوں بچوں کے نام نہ مسلمانوں کے سے ہیں اور نہ ہندوؤں کے سے۔ اس کے باوجود بھی اس نام کے مسلمان ہیرو کو دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس ماحول میں ‘پی کے’ جیسی فلم بن جاتی ہے، جس میں سب کچھ بھارت کا ہے لیکن صرف ایک پاکستانی مسلم نوجوان کے اچھے کردار کو برداشت نہیں کیا جاتا ہے، یہ ہے ذہن سازی اور یہ ہے سیکولر انڈیا۔اس سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کے بھارت کو فلم سے نہیں پاکستان اور مسلمانوں سے مسلہ ہے۔ بھارتی انتہا پسند ہندو بےفکر رہیں ابھی تک اُنکے ڈراموں یا فلموں کو پاکستانی مسلم نوجوان صرف تفریحی کی حد تک دیکھتے ہیں اور وہ یہ امید قطعی نہ کریں کہ کل کوئی پاکستانی نوجوان سرفراز یوسف لاہور سے جگت جانی عرف جگوکو فون کرکے اظہار محبت کرئے گا کیونکہ پاکستانی رونگ نمبر پر کم از کم بھارت فون نہیں کرینگے۔

Syed Anwer Mahmood

Syed Anwer Mahmood

تحریر: سید انور محمود