یقیناً آپ روزانہ دیکھ رہے ہوں گے، اینکر پرسن زور شور سے بتا رہے ہیں کہ پانچ برس کے دور حکومت میں مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی کیسی رہی؟ صحت عامہ، فوری انصاف، تعلیم، معیشت اور امن و امان کے علاوہ کئی اہم معاملات پر پیپلزپارٹی حکومت سے موازنہ کیا جارہا ہے کہ کیا (ن) لیگ نے حکومت کی کارکردگی اپنی پیش رو پیپلز پارٹی کی حکومت سے بہتر رہی یا نہیں۔ دونوں حکومتوں کے موازنے کے بعد اس پر بھی دانشور، تجزیہ نگار اور سیاسی جماعتوں کے نمائندے زمین آسمان کے قلابے ملاتے نظر آئیں گے کہ کس جماعت کا دور حکومت (وفاقی و صوبائی) کامیاب رہا اور کون ناکام رہی۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ ہم قیام پاکستان سے لے کر عباسی دور حکومت تک تجزیہ کرلیں تو سمجھ میں آجاتا ہے کہ دو اور دو چار ہی ہوتے ہیں، پانچ نہیں۔۔۔ کیونکہ ہم پاکستانی زیادہ گہرائی میں جانے کے عادی نہیں اور شارٹ ٹرم میموری کا شکار ہیں، اس لیے کسی بھی حکومت کی ”شاندار” کارکردگی پر اجمالی نظر ڈالنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ کرنا تو ہم نے وہی ہے جو ہمیشہ سے کرتے آرہے ہیں، یعنی بغیر سوچے سمجھے اپنے ”نمائندوں” کا انتخاب۔ ویسے تو ہم ‘آزاد’ امیدواروں کو بھی ”کامیاب” کرادیتے ہیں۔
ماشاء اللہ اس بار ترقی بھی ہوگئی ہے کہ آزادی پسند ”تانگے” سے ‘جیپ’ میں بیٹھ چکے ہیں۔ ممکن ہے کہ اگلی بار کوئی ”خلائی مخلوق” خود آجائے، اب اگر عوام پاکستان کو کسی کی ملکیت سمجھیں، اس میں قصور عوام کا ہے۔ جی ہاں میں اس بار عوام کے حوالے سے سوچ رہا ہوں کہ انتخابات میں وہ کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام۔ عوام کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے میں سب سے پہلے بدرو نان بائی کی دُکان انصاف پکوان سینٹر گیا۔ بدور نان بائی کا انتخاب اس لیے کیا تاکہ اندازہ لگاسکوں کہ شادی (شادی? مرگ) کی تقریبات میں اضافہ ہوا ہے یا کمی۔ حیران کن نتائج سامنے آئے کہ جب بدور بھائی نے بتایا کہ اس بار انہوں نے اضافی کاریگر رکھے تھے۔ شادیوں کا بڑا زور رہا اور مختلف قسم کے کھانے پکانے کے نت نئے آرڈر ملے۔ خاص طور پر بریانی میں مسالہ تیز رکھنے کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سیاست دانوں کی بڑی تعداد کی دو،دو شادیوں کی فہرست دیکھنے کے بعد اطمینان ہوا کہ خانہ آبادی میں کسی نے کسی کے کسی دبائو کو برداشت نہیں کیا۔ کہا گیا کہ اولڈ از گولڈ۔ اب میرا رخ ‘عادل درزی’ کی جانب تھا۔ عادل بھائی اپنے نام کی طرح کپڑے سے پورا پورا عدل و انصاف کرتے ہیں۔
بہرحال عادل درزی نے بتایا کہ عوام نے تہواروں میں کئی کئی جوڑے بناکر ہماری کمائی میں اضافہ کیا اور عید کا ایک دن بڑھنے سے ہماری آمدنی میں اضافہ ہوا۔ یہ بھی بڑی خوش آئند بات تھی لیکن عادل درزی نے ‘اندر’ کی بات بھی بتائی کہ شیروانی سلوانے کے آرڈر بہت آئے۔ حالاںکہ کہا بھی تھا کہ پرانی شیروانی سے گزارا کرلیں ایک دن ہی کی تو بات ہوتی ہے، لیکن یہاں اصراف دیکھا گیا کہ موقع کسی بھی بات کا ہو، شیروانی ضرور سلوائی جائے۔ میں نے حسن ظن سے کام لیتے ہوئے عادل درزی کو کہا کہ میں ”باچا خانی پکاردہ” پر یقین رکھتا ہوں، شیروانی شادی کی ہویا وزارت کے لیے، سلوانا سب کا قانونی، اخلاقی و معاشرتی حق ہے۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ کپڑوں کی صنعت میں ترقی کا رجحان زیادہ ہوگا۔ اسی طرح کھالوں سے بنی مصنوعات کو عوام نے بہت پسند کیا۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو بڑا عجیب سا جواب ملا کہ جب کوئی غلط بات کرتا ہے تو اُسے فوراََ لات ماردیتے ہیں۔ میں اب یہ پوچھنے کی جرا?ت نہیں کرسکتا تھا کہ کیا لات مارنے کے لیے ”میسی” یا ”رونالڈو” کی طرح بیک کک مظاہرہ کیا جاتا تھا یا پھر دولتی۔۔۔
کراچی، لاہور، پشاور، سوات، اسلام آباد، کوئٹہ سمیت کئی شہروں کی فوڈ اسٹریٹس بہت مشہور ہیں۔ مجھے تحقیقی کالم لکھنے کے لیے کئی شہروں کا دورہ کرنے کی خاطر اے ٹی ایم مشین کی ضرورت تھی، لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اے ٹی ایم مشین کی طبیعت ناساز تھی اور قرضے دینے والوں کی ”کمر” میں درد بہت رہنے لگا تھا، اس لیے اُن احباب کا انتخاب کیا جو میرے فون نمبر کے پیکیج کی وجہ سے میرے دائرہ اختیار میں تھے۔ میں اس سہولت کا فائدہ کئی بار اٹھاچکا ہوں۔ خصوصاً ‘یاری کال’ سب سے پسندیدہ آپشن ہے۔ اس لیے ملک بھر کے ٹیلی فونک دورے کی ایمرجنسی نافذ کردی اور کسی بھی ‘آرٹیکل’ کا سہارا لینے کے بجائے جرنلزم مارشل لا کا بھرپور استعمال کرنے کی خاطر فہرست میں موجود کئی افراد کو شارٹ لسٹ کیا، کیونکہ مجھے ویٹو پاور حاصل تھا، لہٰذا شارٹ لسٹ کو مزید غور وفکر کے بعد مختصر کیا۔ یہ انتہائی دشوار گزار مرحلہ تھا۔ قوم تک حقائق پہنچانے کے لیے ایک بھاری ذمے داری مجھ پر عائد تھی۔ میں نے تھوڑے توقف کے بعد ایک مرتبہ پھر لسٹ کی کاٹ چھانٹ کی اور اس بار تہیہ کرلیا کہ اب کوئی نام قلم زد نہیں کروں گا۔ ٹھنڈی سانس بھر کر جب میں نے کرم خوردہ فہرست دیکھی تو اس میں صرف ایک نام باقی رہ گیا تھا۔ یہ بڑے حوصلے اور ”فخر” کی بات تھی کہ طویل فہرست میں، میں نے جس پر اعتماد کا اظہار کیا وہ ”میں” تھا۔
میں نے غیر جانب دار ہوکر خود کو انٹرویو دینے کے لیے تیار کیا، مجھے انٹرویو فون پر دینا تھا، لیکن یقین کیجیے مجھے اس قدر غصہ آیا کہ جب میں نے فون ملایا تو میرا نمبر busy جارہا تھا۔ کئی کئی بار نمبر ملانے کے باوجود وہ مسلسل مصروف ملا۔ اب میرے غصے کی کوئی انتہا نہ تھی کہ لفافہ نہ لینے والا صحافی کتنی مشکلوں سے رابطے کی کوشش کررہا ہے، ایک منٹ کے لیے اگر بات کرلیں تو کیا فرق پڑجائے گا۔ مجھے احساس ہورہا تھا کہ کئی گھنٹوں کی محنت کے بعد جس شخصیت کا انتخاب کیا ہے، وہ ”رانگ نمبر” لگ رہا ہے۔ انسان تھوڑا ‘مشہور’ کیا ہوتا ہے کہ نزاکت آہی جاتی ہے۔
اب مجھے فون کاٹنے کو دوڑ رہا تھا۔ میں نے غصے میں اپنا ایک ‘ناکارہ’ فون لے کر چبانا شروع کردیا۔ یکدم مجھے احساس ہوا کہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔ میرا غصے میں چلّانا، فون چبانا اور ردعمل نہ ملنے پر کاٹ کھانے کو دوڑنا، غیر معمولی تھا۔ میں نے فوراً ہوم منسٹر کو آواز دی کہ ‘او نیک بخت، گوشت کہاں سے منگواتی ہو۔’ اُس نے کہا کمالے سے۔ یہ سننا تھا کہ میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ میں بھی سوچوں کہ میری ایسی حالت کیوں ہورہی ہے۔ میں نے ہوم منسٹر سے ادب سے عرض کیا، جانتی بھی ہو کہ ‘کمالے قصائی’ کا کام کیا ہے۔ اب اگر میں تمہیں کاٹ لوں تو انجکشن لگوانے عباسی و قطر ہسپتال بھی نہیں جا سکتے۔
عوام سے سروے کرنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن مشاہدے میں یہ ضرور آیا ہے کہ ‘میں تو بجلی ہوں’، ‘چلو بھر پانی’ کے سوالوں پر عوام کی زیادہ تعداد کاٹ کھانے کو دوڑتی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ ‘کمالے قصائی’ کی حشر سامانیوں کا شکار میں ہی نہیں بہت سے لوگ ہوگئے ہیں۔ مجھے اس قوم کے لیے نئے ‘عمرانی معاہدے’ کی بہت ضرورت محسوس ہوتی ہے، کیونکہ ہمارے عوام کچھ تبدیل ہی نہیں کرنا چاہتے۔ حالاںکہ وفاداری ہماری رگ رگ میں ہے، لیکن ہم خود سے وفادار نہیں۔ ہم فلم کے تھرلر، ایکشن اور آئٹم سونگ کو دیکھ کر زور سے سیٹی مارتے ہیں اور پھر گھر واپسی پرایک موٹر سائیکل پر تین افراد بیٹھ کر تبصرہ کرتے ہیں کہ یار بڑی فضول فلم تھی، وقت بھی ضائع کیا اور پیسہ بھی۔۔۔ دفع کرو اگلی بار ٹریلر دیکھ کر دھوکا نہیں کھائیں گے، پہلے پوری فلم پھر اس کا ٹریلر دیکھیں گے۔