1989 میں جیـسیون ممالک (امریکا، برطانیہ کینیڈا،فرانس، اٹلی، جرمنی اور جاپان) نے مالیاتی جرائم اور منشیات کے منظم کاروبار کے خاتمے کے لئے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس( ایف اے ٹی ایف) کا قیام عمل میں لایا تھا۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس 13 تا18اکتوبر کو پیرس میںمنعقد ہوا ۔اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر کی قیادت میں ایک وفد نے کی جس میں ایڈیشنل سیکریٹری برائے وزارتِ خزانہ، نیکٹا، ایف آئی اے، ایف بی آر اور ایس ای سی پی کے نمائندے شامل ہیں۔ایف اے ٹی ایف کا حالیہ اجلاس چین کی سربراہی میں ہوا۔ یہ چین کی سربراہی میں ہونے والا پہلا اجلاس تھا، جس میں سعودی عرب رکن کی حیثیت سے شریک تھا جبکہ پاکستان اور ایران ایف اے ٹی ایف کے ایجنڈے پر سرفہرست رہے۔ اجلاس میں 205ممالک اور آئی ایم ایف ، یو این ، ورلڈ بنک سمیت عالمی تنظیموں کے800 نمائندوں نے شرکت کی۔جس میں ترکی ،روس،ڈنمارک ، ائرلینڈ،ناروے، سعودی ،سینگاپور، ایران کے امور کے علاوہ پاکستان کے مالیاتی نظام کے اہداف میں پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ ایف اے ٹی ایف اجلاس میں آئی ایم ایف ، ورلڈ بنک ، اقوام متحدہ ، او ای سی دی، او ایس سی ای، ایگمنٹ گروپ آف فنانشل انٹیلی جنس یونٹس ، کیرین، ای بی آر ڈی، ای سی بی ، یوروپول ، جی آئی ایف سی ایس، آئی اے آئی ایس ،9ایف اے ٹی ایف طرز کی علاقائی باڈیز اور دیگر تنظیموں سے بھی موصولہ رپورٹس کاجائزہ لیا گیا۔
ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے پاکستان کی کارکردگی میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو فروری 2020 تک گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے اپنے بیان میں مزید کہا کہ انسداد منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی مدد کو روکنے کے لیے پاکستان نے مزید کوششیں کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ایف اے ٹی ایف نے دہشت گردی کی مالی مدد کی روک تھام کے لیے پاکستان کی محدود کامیابی پر گہری تشویش کا بھی اظہار کیا۔ایف اے ٹی ایف کے مطابق پاکستان نے 27 میں سے پانچ ایکشن پلان پر کام کیا ہے جب کہ ایکشن پلان کے دیگر نکات پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان نے فروری 2020 تک اپنے ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد نہ کیا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔گزشتہ سال جون میں جب پاکستان کو ‘گرے لسٹ’ میں شامل کیا گیا تو اس وقت پاکستان میں نگران حکومت قائم تھی۔ قبل ازیں اے پی جی کے مطابق پاکستانی حکومت کو 40اہداف پر عمل درآمد کرنے کے لئے مہلت دی تھی ۔ایف اے ٹی ایف کے ریجنل گروپ، ایشیا پیسفک گروپ کی رپورٹ کے مطابق 40میں سے 9 ایسی تجاویز ہیں جن پر پاکستان نے مؤثر طریقے سے عملدرآمد کیا۔ ان میں انسداد منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالی معاونت روکنے کے لیے قومی سطح پر تعاون اور تنظیم سازی، منی لانڈرنگ آفینس، دہشتگردی کی مالی معاونت کو جرم قرار دینا، ریکارڈ قائم کرنا، بینکاری سے متعلق روابط، ایسی رقوم یا اکاؤنٹس کی ضبطگی، وائر کے ذریعے رقوم کی منتقلی، بین الاقوامی آلہ کار، مجرموں سے متعلق تحویلی معاہدے، ایسی تجاویز ہیں جن پر پاکستان نے مؤثر طریقے سے کام کیا ہے۔ 26 ایسی تجاویز ہیں جن پر جزوی طور پر کام کیا گیا ہے۔ماہرین کے مطابق جزوی عملدرآمد کا مطلب ہے کہ ان تجاویز کو سامنے رکھتے ہوئے قانون سازی ہو چکی ہے، جو کہ اہم ترین قدم ہے اور ثابت کرتا ہے کہ ریاست سنجیدہ ہے۔ اس لیے جزوی عملدرآمد ہونا بنیادی طور پر ایک مثبت پیش رفت ہے۔ ماہرین کے مطابق جزوی عملدرآمد ناکامی نہیں ہے۔
جبکہ جن چار تجاویز پر عملدرآمد نہیں کیا گیا وہ قانونی انتظامات، باہمی قانونی معاونت اور غیر مالیاتی کاروبار اور پیشوں سے متعلق قانون سازی، ان کی نگرانی اور ان کے کسٹمرز سے متعلق معلومات جیسی تجاویز شامل ہیں۔پاکستان نے اے ٹی ایف اے اجلاس میں 27اہداف پر اعتراضات کی جامع رپورٹ جمع کرائی جس کے بعد پاکستان کے بلیک لسٹ میں جانے کے امکانات ختم ہوئے۔تاہم فروری 2020تک تمام اہداف پر عمل درآمد یقینی بنانے کی مہلت دے دی گئی ہے۔پاکستان سے متعلق فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اور ریجنل گروپ ایشیا پیسفک گروپ نے پاکستانی اقدامات کی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ ایف اے ٹی ایف کے چارٹر کے مطابق کسی بھی ملک کا نام بلیک لسٹ میں نہ ڈالنے کے لیے کم از کم بھی تین ممالک کی حمایت لازمی ہے۔
چین، ترکی، ملائیشیا اورسعودی عرب نے پاکستان کی حمایت کی۔ جس کی وجہ سے پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی بھارتی مذموم سازش ناکام ہوئی اور پاکستان کو اہداف کی تکمیل کے لئے مہلت مل گئی۔وزارت خزانہ کے مطابق پاکستان نے ایف اے ٹی ایف رکن ممالک کے سوالات کے بھرپور جوابات دیئے ہیں۔جبکہ ایشیا پیسفک گروپ کے رکن ممالک پاکستان سے مطمئن ہیں۔ گی۔قبل ازیں اسی سال اگست میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی علاقائی تنظیم ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) نے تکنیکی خامیوں کی بنا پر پاکستان کی کارکردگی پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔ پاکستان ہر تین ماہ بعد اے پی جی کو اپنی کارکردگی سے متعلق رپورٹ دینے کا پابند ہے۔پاکستانی حکام نے عالمی حکام کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کے تمام اہداف پر عمل پیرا ہے۔ اینٹی منی لانڈرنگ کے قوانین بین الاقوامی معیار کے مطابق کیے گئے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے 90 فی صد اہداف پر پیش رفت ہوئی۔ پاکستان نے دہشت گردوں کی فنڈنگ کی بھرپور روک تھام کی۔ دہشتگردوں کی فنڈنگ روکنے کے باعث دہشتگردی کے واقعات کم ہوئے۔پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے اہداف کو پورا کرنے کے لئے ایک مربوط لائحہ عمل کو اختیار کیا ہے۔
منی لانڈرنگ پاکستان کا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا سنگین مسئلہ ہے۔ وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں اس امر کی نشان دہی کی تھی کہ امیر ممالک کے بنکوںمیں منی لانڈرنگ کا پیسہ جمع کیا جاتا ہے ۔ ترقی پزیر ممالک کے کرپٹ و جرائم پیشہ افراد تکینکی طریق کار اختیار کرکے بیرو ن ممالک عوام کی رقوم منتقل کرتے ہیں اور امیر ممالک اپنے بنکوں میں منی لانڈرنگ کی رقوم کو محفوظ بناتا ہے ۔ اگر عالمی قوانین کے تحت منی لانڈرنگ کو ترقی یافتہ ممالک حوصلہ شکنی کریں تو منی لانڈرنگ اور سنگین جرائم سے جمع کی جانے والی رقوم کسی بھی ناپسندیدہ کاموںیا دہشت گردی کی معاونت کے لئے استعمال نہیں ہوسکتی ۔ لیکن المیہ یہی ہے کہ ترقی یافتہ اور بیشتر ممالک نے اپنی مملکت کے مالیاتی نظام میں ایسے قوانین بنا رکھے ہیں جس کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر کی غیر قانونی رقوم کو تحفظ ملتا ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے سنگین جرائم کے فرو غ میں استعمال کیا جاتا ہے۔
ا یف اے ٹی ایف کے اہداف میں پاکستان کو اس امر کی یقینی دہانی کو یقینی بنانا تھا کہ وہ پاکستان میں کسی بھی دہشت گروپ کو دیگر ممالک کے لئے خطرات بننے سے روکے۔ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کا سب سے اہم مطالبہ پہلے ہی پورا کر چکا ہے ، آپریشن ضرب عضب و آپریشن ردالفساد سمیت کئی عسکری آپریشن ہیں ۔ جس میں اندرونی و بیرونی دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کے خلاف مربوط کاروائی کی گئی ۔ پوری ہم آہنگی و اپنی مدد زآپ کے تحت پاکستانی سیکورٹی فورسز نے اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان میں کسی بھی جگہ کسی ایسی تنظیم یا کالعدم جماعت کو کام نہ کرنے دیا جائے جو پاکستان سمیت کسی بھی مملکت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سیکورٹی فورسز و عوام کے تعاون کے سبب پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ ہوئے اور مملکت میں ہونے والے بڑے بڑے سانحات کم ہوتے چلے گئے ۔ جو علاقے مسلسل دہشت گردوں کے نشانوں پر تھے انہیں محفوظ بنایا گیا اور دہشت گردوں کو بڑی تعداد میں گرفتار کرکے قرار واقعی سزا بھی دی ۔
پاکستان نے سرحدی علاقوں میں بیرونی عناصر کی آمد کو روکنے کے لئے افغان سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا اور دسمبر2019تک پاک۔ افغان بارڈر کا کام مکمل ہوجائے گا ۔ پاک ۔افغان سرحد پر باڑ لگانے کے دوران دہشت گردو ں نے سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جس میں قیمتی جانوں نے شہادت حاصل کی ۔ اہلکاروں سے لے کر افسران تک دہشت گردوں کا نشانہ بنے لیکن پاکستان نے پاک۔ افغا ن سرحد پر باڑ لگانے کے کام کو جاری رکھا ۔ مشکل ترین علاقہ رجگال میں بھی پاکستانی سیکورٹی فورسز نے کمال مہارت سے ملک دشمن عناصر کو پسپا کرکے بلند پہاڑی مقام پر بھی پاک۔ افغان سرحد کو محفوظ بنایا ۔ 2600کلومیٹر طویل باڑ کو لگانے کے لئے سیکورٹی فورسز کی قربانیوں کی بدولت ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی ۔ ورنہ عوامی مقامات ، سیکورٹی و حکومتی دفاتر ، اہم شخصیات ، جلسے جلوس سمیت مذہبی بنیادوں پر مساجد ، امام بارگاہیں اور غیر مسلموں کی عبادت گاہیں آئے روز نشانہ بنتے تھے ، جس پر سیکورٹی فورسز نے قابو پایا ۔ نام نہاد علیحدگی پسندوں کو بھارت و کابل انتظامیہ کی درپردہ حمایت حاصل رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں امن کے قیام اور دہشت گرد تنظیموں اور کالعدم جماعتوں کی مذموم سرگرمیوں محدود ہوئی تو انہوں نے افغانستان سے اپنے نیٹ ورک کو آپریٹ کرنا شروع کیا ۔
تاہم بڑے سانحات میں نمایاں کمی کو پوری دنیا نے سراہا ۔ تاہم ملک دشمن عناصر نے پڑوسی ممالک کی سرزمین استعمال کرنے کی وجہ سے سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کو اب بھی نشانہ بناتے ہیں جس کا قلع قمع کرنے کی کوشش جاری ہے اور سیکورٹی فورسز کو کامیابیاں مل رہی ہیں تاہم امن کے اس مشن کو پورا کرنے کے لئے دہشت گردوں کی محدود کاروائیوں سے پاکستانی سیکورٹی فورسز اب بھی قربانی دے رہی ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے اس ہدف کو پاکستان نے پہلے ہی اپنی مملکت کی دفاع و سا لمیت کے لئے اپنایا اور دہشت گردوں گروہوں کے خطرات کی سنگینی کو سمجھا ۔ تاہم بھارت و کابل انتظامیہ نے پاکستان کے خلاف منظم سازش کے تحت منفی پروپیگنڈوں کا سلسلہ جاری رکھا اور ایف اے ٹی ایف کے قوانین و اصولوں کے برعکس پاکستان کے خلاف لابنگ کرتا رہا۔
ایف اے ٹی ایف منی لانڈرنگ کو سنگین جرم سمجھتا ہے کیونکہ منی لانڈرنگ کی وجہ سے دہشت گردی کی مالی معاونت ہوتی ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت نے منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لئے اہم اقدامات کئے ۔ تاہم ترقی یافتہ و دیگر اہم ممالک کی جانب سے منی لانڈرنگ کے ذریعے جمع ہونے والی رقو م کی حوصلہ شکنی کے لئے عالمی برادری کو بین الاقوامی قانون بنانے کی ضرورت ہے۔ایف اے ٹی ایف کا سب سے بڑا مطالبہ دہشت گردی میں ملوث مبینہ 1267 افراد اور 1373 اقوام متحدہ کی جانب سے مبینہ دہشت گرد قرار دی گئیں شخصیات ان مالیاتی پابندیاں عائد کئے جانا ہے، اس کے علاوہ اُن اداروں اور افراد پر بھی جو اِن شخصیات کے لیے مالی امداد جمع کرنے سمیت رقم یا دیگر سامان منتقل کرتے ہیں ان کو ہدف بنا کر (جن کو جامع قسم کی قانونی حمایت حاصل ہو) ان کے خلاف اقدامات کرنے کے مطالبات ہیں، مزید یہ کہ ایسی شخصیات اور افراد کے منقولہ و غیر منقولہ اثاثے منجمد کیے جائیں اور انھیں کسی بھی قسم کے فنڈ یا مالیاتی خدمت حاصل کرنے سے محروم کیا جائے۔
پاکستان نے اُن تمام جماعتوں و کالعدم تنظیموں کے اکائونٹ منجمد کئے ان کی سرگرمیوں پر سخت پابندیاں عائد کرنا شروع کی ہوئی ہیں ۔ مشکوک ادارے حکومتی تحویل میں بھی لئے ہیں اور عالمی قوانین کے تحت اُن جماعتوں کے خلاف بھی کاروائی کی اور ان کے منقولہ و غیر منقولہ اثاثے بھی منجمد کئے ہیں جن کے خلاف الزام لگانے والے پڑوسی ممالک آج تک کوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکے۔لیکن پاکستان نے عالمی قوانین کا احترام کو مد نظر رکھا اور ایسی کالعدم تنظیموں کو کام سے روکا اور ان کے سربراہوں کو گرفتار بھی کیا۔ ان اراکین کے خلاف مقدمات بنائے اور اب پاکستا نی عدالتوں میں دائرمقدمات چل رہے ہیں۔ پاکستان نے اس حوالے سے بھارت ، افغانستان اور امریکا سمیت کسی بھی ملک کو کہا بھی ہے کہ اگر ان کے علم میں ایسے مقامات پاکستان میں موجود ہیں جو انتہا پسندوں کی تربیت گاہیں ہیں تو وہ نشان دہی کریں پاکستان خود کاروائی کرکے انہیں تباہ کرے گا ۔ اگر کسی تنظیم یا جماعت کے سربراہ یا رکن رہنما کے خلاف شواہد ہیں تو پاکستان سے شیئر کریں ، پاکستا ن شواہد کے درست ہونے پر کاروائی کرے گا ۔ تاہم بالائی الزامات عاید کرنے سے کسی مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکتا ۔ عدالتیں ثبوت طلب کرتی ہیں اگر شواید و ثبوت نہیں دیئے جائیں گے تو پاکستان کی عدالتیں کسی ملک کی خواہش پر کسی کو بھی پھانسی کے پھندے پرنہیں لٹکا سکتی۔بات جب ثبوت کی آتی ہے تو بے بنیاد الزامات لگانے والے کنی کترا جاتے ہیںاور پاکستان کے خلاف بے بنیاد منفی پروپیگنڈوں کو تیز کردیا جاتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت غیر قانونی دولت و بے نامی اثاثوں کے خلاف سرگرم ہے اور اسی وجہ سے سیاسی مخالفین کی تنقید کا دبائو بھی ہے ۔ تاہم اس حوالے سے پاکستان وائٹ کالر کرائم میں ملوث افراد کے خلاف موثر کاروائی کی کوشش کررہا ہے لیکن وائٹ کالر کرائم کے خلاف کاروائی کسی بھی ملک کے لئے آسان نہیں ہوتی ۔ ایف اے ٹی ایف کو بھی اس بات کا ادرک ہے کہ وائٹ کالر کرائم غیر قانونی بے نامی اثاثے صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کا بھی بڑا مسئلہ ہے۔ جسے مکمل طور پر ختم کرنے اور قابو پانے کے لئے عالمی برداری کو مشترکہ قانون سازی کرنا ہوگی ۔ پاکستان کے احتسابی اداروں کی کاروائیوں کو بھی تنقید کا سامنا ہے تاہم اس میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا نہیں جاسکتا کیونکہ ترقی یافتہ اور امیر ممالک نے ہی ایسے عناصر کو سہولت فراہم کی ہے ، جس کی وجہ سے اُن ممالک کی معاشی حالات بہتر اور ترقی پزیر ممالک کو شدید مالی دشواریوں کا سامنا ہے ۔ پاکستا ن منی لانڈرنگ کی دوسری صورت کرنسی کی اسمگلنگ کو روکنے کے لئے بھی قانون سازی کی ہے اور اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ دوران سفر عالمی قوانین کے مطابق ہی کرنسی کیش کی صورت میں جا سکے ۔ پاکستان نے ہر مسافر کے لئے ضروری بھی قرار دیا ہے کہ بیرون ملک سفر پر جانے سے قبل وہ اپنے ساتھ کیش کرنسی سے اداروں کو مطلع کرے گا اور مجوزہ فارم پُر کرے گا۔ اس طرح منی لانڈرنگ کے اس غیر قانونی عمل کی حوصلہ شکنی کے علاوہ کئی اہم گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں جن کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
پاکستانی ریاست نے وفاق، صوبو ں اور سیکورٹی اداروں پر مشتمل ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بھی بنائی ہوئی ہے۔ صوبائی سطح پر ان کمیٹیوں کے اجلاس بھی منعقد ہوئے ہیں ، وفاقی سطح پر اعلیٰ سطح کی کمیٹی پر کام کیا جارہا ہے جس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ تعاون کو مزید بڑھانے کے لئے حکومت نے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہوا ہے اور اس کے مثبت اثرات سے عوام اور اداروں کے درمیان خلیج بھی کم ہونے میں مدد ملے گی ۔ گذشتہ حکومت میں اس اہم کمیٹی پر بہتر انداز میں کام نہیں ہوا تھا تاہم موجودہ حکومت سے توقع ہے کہ وہ مملکت کو درپیش مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے عملی اقدامات کو یقینی بنانے کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی ۔ پاکستان میں ” گڈ ” او ر ” بیڈ ” کے مفروضے کو ختم کردیا گیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بلا امتیاز کاروائیاں کیں ہیں اور دہشت گردی کے خلاف قیمتی جانوں کی قربانیاں دینے کے علاوہ اُن افراد و اداروں کے خلاف بھی کاروائی کر رہی ہے جنہیں اقوام متحدہ دہشت گرد قرار دے چکی ہیں۔پاکستانی عدالتوں کے نظام میں اصلاحات لائی جا رہی ہیں ۔
فوجی عدالتوں نے تیز رفتاری سے دہشت گردوں کو سزائیں دیں اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا ۔ عدالتی اصلاحات کے تحت ماڈل کورٹ اور انسداد دہشت گردی عدالتوں نے تیزی سے مقدمات کو نمٹانا شروع کیا ہے جس سے جرائم پیشہ عناصر سمیت دہشت گردوں کے مقدمات جلد تکمیل پر پہنچ رہے ہیں۔پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اہداف کو حاصل کرنے کے لئے سنجیدگی سے عمل پیرا ہے۔ بھارت و کابل انتظامیہ کے پروپیگنڈے و لابنگ کو غیر موثر بنانے میں اہم کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان اس سے پہلے بھی2012اور 2015کو گرے لسٹ میں رہ چکا ہے اور موثر اقدامات کی بنا پر گرے لسٹ سے نکلا بھی ہے۔ تاہم بھارت نے پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کے لئے جس قسم کا وتیرہ اختیار کیا وہ قابل مذمت اور شرمناک ہے۔ پاکستان داخلی و بیرونی ملک عناصر کی سازشوں سے بخوبی آگاہ ہے اور ریاستی ادارے ملک و قوم کی زمینی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے ہوشیار و چاک وچوبند ہیں۔پاکستانی ریاستی ادارے مملکت کی حفاظت کے لئے ہر اُس سازش کو عوام کی مدد سے ناکام بنانے میں کامیا ب رہے ہیں جنہوں نے ریاست کے خلاف منفی سوچ و پروپیگنڈو ں کو اپنایا۔