افریقہ (اصل میڈیا ڈیسک) مالی کی اہم سیاسی پارٹیوں نے اقتدار کی منتقلی کے حوالے سے فوجی حکومت کی طرف سے تجویز کردہ پانچ سالہ منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔ اس مغربی افریقی ملک میں گزشتہ دو برسوں میں دو مرتبہ فوجی بغاوت ہو چکی ہے۔
مغربی افریقی ملک مالی کی تمام اہم سیاسی پارٹیوں نے فوجی حکومت کے پانچ سالہ منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے فوری طور پر سول حکومت کی بحالی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اس منصوبے میں فوج نے اقتدار سول حکومت کو سونپنے کے لیے ایک نظام الاوقات ترتیب دیا ہے، جیسے متنازعہ قرار دیا جا رہا ہے۔
اگست سن دو ہزار بیس کے بعد سے مالی کی فوج دو مرتبہ سول حکومتوں کا تختہ الٹ چکی ہے جبکہ الیکشن ملتوی کرتی آئی ہے۔ فوجی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس وقت ملکی حالات ایسے نہیں کہ فوری طور اقتدار سول حکومت کے سپرد کر دیا جائے۔
ملک میں استحکام کی خاطر فوجی حکومت کی طرف سے پیش کردہ پانچ سالہ مںصوبے میں کہا گیا ہے کہ اداروں کی مضبوطی اور انتظامی مسائل حل کرنے کے بعد شفاف الیکشن کرائیں جائیں گے۔
اس منصوبے کے تحت سن دو ہزار تئیس میں آئینی ریفرنڈم منعقد کیا جائے گا جبکہ سن دو ہزار پچیس میں الیکشن کا انعقاد کیا جائے گا۔ ملک کو جمہوریت کی طرف لے جانے کی خاطر بنائے گئے اس منصوبے میں کہا گیا ہے کہ سن دو ہزار چھبیس سے قبل صدارتی الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔
مالی کی فوج کا کہنا ہے کہ سیاسی اور اداراتی اصلاحات ناگزیر ہیں اور اس سے قبل ملک میں صدارتی الیکشن شفاف اور غیرجانبدار نہیں ہو سکتے۔
ملک کی سیاسی صورتحال کیسی ہے؟ مالی میں ملکی فوج اگست دن دو ہزار بیس سے اقتدار میں ہے۔ اس دوران فوج دو بغاوتیں کر چکی ہے جبکہ الیکشن بھی ملتوی کر چکی ہے۔ گزشتہ برس فوج نے کہا تھا کہ وہ فروری سن دو ہزار بائیس میں الیکشن کرائے گی لیکن اب یہ منصوبہ بھی بدل دیا گیا ہے۔
اس صورتحال میں مالی کی فوج کی طرف سے بنائی گئی حکومت کو علاقائی اور عالمی سطح پر سخت دباؤ کا سامنا ہے۔ اسی لیے اب فوج نے پانچ سالہ منصوبہ بنایا، جسے ہفتے کے دن مغربی افریقی ممالک کی علاقائی تنظیم ایکواس (ای سی ڈبلیو اے ایس) کو جمع کرایا گیا۔
میرا بیٹا، میرا باڈی گارڈ یوویری موسوینی ایک طویل عرصے سے یوگنڈا کے صدر ہیں۔ یہ تصویر اُن کے سب سے بڑے بیٹے موھوزی کاینیروجابا کی ہے، جو ملکی فوج میں ایک بڑے افسر ہیں اور اُس خصوصی یونٹ کے کمانڈر بھی، جو صدر کی حفاظت پر مامور ہے۔ موسوینی کی اہلیہ جینٹ تعلیم و تربیت اور کھیلوں کی وزیر کے طور پر کابینہ میں شامل ہیں۔ اُن کے ہم زُلف سَیم کُٹیسا وزیر خارجہ ہیں۔
ایکواس نے مالی کی فوجی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر الیکشن نہ کرائے گئے تو اس پر پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ نو جنوری کو گھانا کے دارالحکومت عکرہ میں مالی کی صورتحال پر ایکواس کی خصوصی کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے۔
مالی کی سیاسی جماعتوں نے اس پانچ سالہ منصوبے کو رد کیوں کیا؟ مالی کی دس اہم سیاسی جماعتوں نے فوج کے خلاف ایک اتحاد بنایا ہوا ہے۔ اس اتحاد کے مطابق فوج کی طرف سے تجویز کردہ یہ پانچ سالہ منصوبہ منتقلی اقتدار کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے جبکہ اس پر نہ تو بحث کی گئی اور نہ ہی یہ عوامی امنگوں کے مطابق ہے۔
اس سیاسی اتحاد نے کے مطابق یہ نظام الاوقات یک طرفہ اور غیر منطقی ہے۔ اس اتحاد کے ترجمان سیکو نیامے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ وہ توقع کرتے ہیں کی فوجی حکومت جلد ہی الیکشن کا انعقاد ممکن بنائے گی۔
حالات خراب کیسے ہوئے؟ اگست سن دو ہزار بیس میں کرنل اسیمی گوئٹا نے سابق صدر ابراہیم بوبکر کیتا کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ یہ فوجی بغاوت اس وقت کی گئی، جب عوام نے بدعنوانی اور پرتشدد اسلامی بغاوت پر حکومتی ردعمل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا۔
فرانس کی اس سابق نو آبادی میں جمہوری حکومت کی بحالی کی خاطر مالی کے ہمسایہ ممالک اور پیرس حکومت نے دباؤ دیا لیکن گوئٹا نے اقتدار سول حکومت کے حوالے کرنے کے بجائے مئی سن دو ہزار اکیس میں ایک اور بغاوت کر دی۔
یہ بغاوت تھی، اس عبوری سول حکومت کے خلاف جسے الیکشن کے انعقاد کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ فوج نے کہا کہ شمالی مالی میں سکیورٹی کے شدید خطرات ہیں، اس لیے الیکشن ملتوی کیے جا رہے ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ مالی کے ںصف سے زیادہ حصوں پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔ ان علاقوں میں متعدد مسلح گروہ فعال ہیں، جو ملک پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ اور داعش سے وابستہ گروہ بھی شامل ہیں۔
غیر ملکی افواج کا کردار مالی میں اسلامی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے غیر ملکی افواج بھی تعینات ہیں، جو مقامی فوسز کو بالخصوص داعش اور القاعدہ سے وابستہ گروہوں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔
تاہم موجودہ صورتحال میں مسلح افواج سے متعلق جرمن پارلیمانی کمشنر ایفا ہوگل نے کہا ہے کہ جرمن فوج کو مالی میں اپنے آپریشن پر نظر ثانی کرنا چاہیے اور اسے ختم کر دینا چاہیے۔
اس وقت مالی میں تیرہ سو پچاس جرمن فوجی تعینات ہیں، جو اقوام متحدہ کے مشن اور یورپی یونین کے تربیتی مشن کے تحت اپنی سرگرمیاں سر انجام دے رہے ہیں۔
سن دو ہزار تیرہ سے شمالی مالی میں تعینات فرانسیسی افواج بھی اب اپنا مشن ختم کر رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ فرانسیسی فوج نے جنگجوؤں کو پسپا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے تاہم کچھ مقامی حلقوں کا خیال ہے کہ غیر ملکی افواج کی مداخلت سے سکیورٹی کی صورتحال بگڑی ہے۔
عالمی سطح پر یہ تشویش پائی جا رہی ہے کہ اگر مغربی ممالک نے مالی میں اپنے تمام تر عسکری مشن ختم کر دیے تو وہاں بھی افغانستان کی طرح طاقت کا خلا پیدا ہو جائے گا، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنگجو ایک مرتبہ پھر فعال ہو جائیں گے۔