یہ بات اٹل حقیقت ہے کہ اللہ کسی قوم کی حالت کو اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے آپ کو نہیں بدل لیتی، اور اسی طرح جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹلتی۔اور نہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مددگار ہو تا ہے۔ (سورۂ رعد۔١٣)
آپ کو قرآن کے حوالے سے اوپر بتا دیا گیا ہے کہ جب تک آپ خود نہیں بدلتے اللہ بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا، تو جب آج سولہ مارچ کی خُنکی بھری رات آ چکی ہے اور پانچ سال پہلے قائم ہونے والی اسمبلی بھی تحلیل ہو چکی ہے یوں آج آپ سب بھی اپنی حالت کو بدلنے کے لئے تیار ہو جائیں ۔ تیار ہونے کا اس لئے نہیں کہا جا رہا ہے کہ خدانخواستہ کسی جنگ کے لئے جانا ہو، تیار ہو جائیں اپنی قسمت کو بدلنے کے لئے، اپنے ملک کی قسمت کو بدلنے کے لئے، اچھی ، نڈر اور بے باک قیادت کا ساتھ دیں۔
جو آپ کی نظر میں اس قوم کی قسمت بدل سکتی ہو، ایسی قیادت منتخب کریں جو آپ کی پریشانیوں کا ازالہ کر سکے ورنہ آج جو پریشانیاں اور الجھنیں آپ سہہ رہے ہیں مستقبل میں اُس سے کہیں زیادہ آپ کو بھگتنا پڑیں گے۔ابھی ہمارے ملک سے محبت کرنے والے اور اس ملک کو دنیا کے برابر کھڑا کرنے والی قیادت کا فقدان نہیں ہے ، ایسی نظر چاہیئے جو انہیں ڈھونڈ سکیں۔ آزمائے ہوئوں کو آزمانہ اپنی قسمت کو اور اپنے ملک کو اندھیرے غار میں ڈھکیلنے کے مترادف ہوگا۔ اس لئے ہوش میں آیئے اور اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کیجئے۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہماری تحلیل ہونے والی قیادت کی اکثریت صد فیصد بے بصیرت، بے دماغ، ناتواں، عاجز ، بے اثر اور ناقابلِ اعتماد ہو چکی تھی جو بارہا یہ تو کہتی تھی کہ ہمیں عوام نے منتخب کیا ہے مگر یہ نہیں سمجھتی تھی کہ عوام نے منتخب ضرور کیا ہے مگر کیا انہیں یہ احساس نہیں ہو رہا تھا کہ آپ کی عوامی مشکلات میں اضافے کے ساتھ ہی آپ کو دی ہوئی عوامی تائید عوام نے ہی ختم کر دی ہے۔ پھر بھی اقتدار سے چپکے رہنا کہاں کی شرافت ہے۔
سب کو معلوم ہے بلکہ ہر روز میڈیا میں مختلف قسم کے پروگرام کے ذریعے یہ باور کرایا جاتا رہا تھا کہ ہماری موجودہ قیادت بے فیض ،بے وقعت اور منتشر ہے۔ ملت کو بالعموم اس سے کوئی فیض نہیں پہنچ رہا ہے۔ وہ صرف اپنی ذات اور اپنے اقربا کو فیض پہنچاتی رہتی ہے ، جس کے چرچے میڈیا پر زبان زدِ عام ہیں،وہ بھی دنیا میں ختم ہو جانے والا فیض، آخرت کا وہاں بھی کوئی تصور نہیں ہوگا۔
Pakistan Assembly
جیسا کہ اسمبلی کی آخری دنوں میں وزرا، وزرائے اعلیٰ ، اسپیکر اور دیگر کے لئے تا حیات مالی فوائد کا بل پاس کروایا گیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ بل پاس کرانے کے انہی پیسوں کو سرکاری ملازمین کے لئے استعمال کیا جاتا، پاکستان کے غریب مزدوروں کے لئے وقف کیا جاتا توآپ کی واہ واہ بھی ہوتی اور کچھ حد تک عوامی تائید بھی آپ کو میسرہوتی۔ خیر یہ تو سوچ و فکر کی بات ہوتی ہے ، آپ کی سوچ جہاں تک تھی وہاں تک کارِ خیر انجام دیا۔
منتشر ہونے کا معاملے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ آپ سب دیکھ اور سمجھ ہی رہے ہیں کہ مسلکوں ، فرقوں اور مختلف سیاسی پارٹیوں کی وفاداریوں میں بٹی ہوئی ملت کی قیادت بھی ویسی ہی نکلی، ملت اُمت کا معاملہ نہ عوام کی ترجیحات میں شامل ہیں اور نہ ہی قائدین کی اور اگر کہیں ہے بھی تو برائے نام، عملی طور پر جس کا کوئی واسطہ دکھائی نہیں دیتا۔ صرف آج ہی نہیں گزشتہ نصف صدی سے یہی ہو رہا ہے یعنی کہ عوامی ووٹ سے منتخب ہوکر ایوانِ اقتدار میں پہنچنے کے بعد لوٹوں کی طرح اس پارٹی سے اُس پارٹی میں منتقل ہونا ہی ان کا شیوہ رہا ہے۔ یعنی کہ انہیں جہاں اپنا مفاد یا اپنا بھلا نظر آیا اس کی طرف سَرَک گئے۔ یہ ہے سیاق و سباق اور یہی ہے اعترافِ حقیقت۔
اس وقت بعض ٹی وی پروگرامز ایسے بھی دکھائے جا رہے ہیں کہ جن میں نچلے طبقے کے لوگوں یعنی ظلم سے متاثرہ عوام کو جگانے، جگائے رکھنے اور ظلم کے خلاف سینہ سپر ہو نے والوں کو دکھاکر اصلاح حال کی انفرادی کوششوں اور عوام کی قائدانہ صلاحیتوں کو مہمیز کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ ویسے تو یہ سب کچھ بظاہر سب کو حیران کن اور چونکا دینے کے لئے کافی ہے تاہم ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ دنیا میں بدامنی سے امن اور ظلم سے انصاف کی طرف قدم بڑھانے کی مجاہدانہ کوششیں بہرحال جاری ہیں۔ دنیا کو تو ٹوکا ہے سو بار خطائوں پر ہم خود کو کبھی لیکن تاکید نہیں کرتے
ہماری عوام نے تو پانچ سال اور آج تک یہ سوچنے میں زندگی کے دن گنوا دیئے کہ ان کے مسائل کا حل پارلیمنٹ سے آئے گا کہ جنہیں انہوں نے خود منتخب کیا ہے یا پھر عدلیہ کی طرف سے آئے گا ۔ مگر دونوں محاذوں پر عوام کی نظریں جمی رہیں اور پانچ سال کا خبرناک و خطرناک وقت گزر گیا ۔ کیا اس عوام کی زندگی میں تمانیت کے دن آئیں گے بھی ، اب عوام یہ سوچنے میں چند مہینے گنوائیں گے اس کے بعد دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
ہماری قیادت کو دیکھئے آج نگراں سیٹ اپ کو لانے میں ہی اتفاق واتحاد کا مظاہرہ نہیں کر رہے ۔ تو باقی کاموں میں اتحاد کہاں ہوگی۔ اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے آج ایک چند مہینوں کا سیٹ اپ لانا ہے جو تمام افراد مل کر بھی لانے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔ کسی کو کسی نام پر اعتراض ہے تو کسی کو کسی نام پر تحفظات ۔تمام صوبوں میں ابھی تک کسمپرسی کا عالم ہے ۔ اگر ہماری تمام سیاسی جماعتیں اس کیئر ٹیکر حکومت کے لئے متحد نہیں تو کیا یہ جماعتیں کسی قومی ایجنڈے پر متفق ہو پائیں گی۔
Pakistan People
مطلب یہ ہوا کہ ہر بات اب عوام نے ہی سوچنا ہے ، اور اس کا حل بھی عوام کو ہی دینا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی نئی منتخب حکومت آتی ہے تو کیا وہ ملک کی اس بگڑتی ہوئی صورتحال کو ٹھیک کر سکے گی جو کہ اس وقت کا سب سے زیادہ حل طلب مسئلہ ہے۔ ہاں! امن و امان ہی تو ہے جو نئی حکومت کے لئے چیلنج سے کم نہیں ہوگا۔ اس کے بعد آتا ہے مہنگائی، بے روزگاری، اقربا پروری، اور دیگر مسائل جس کو حل کر کے نئی حکومت بھرپور عوامی تائید حاصل کر سکتی ہے۔
اس کے لئے لازم ہے کہ ان کے اندر بھی اتفاق پیدا ہو، ان کے اندر بھی یگانگت ہو، ملی جذبہ قائم ہو۔ یا پھر وہی ہوگا جو اس سے پہلے ہوتا چلا آیا ہے کہ پرانی حکومت گئی اور نئی حکومت آگئی اور نئی آنے والی حکومت کا بیان یہ ہوگا کہ یہ تمام مسائل تو ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔ اگر ورثے میں ملے مسائل کا حل نہیں نکلا تو پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلاجائے گااور ہر کوئی اپنی مدت بیان بازی اور ورثے کی بات کرکے پورا کرے گااور پھر نئی حکومت! مگر عوام مشکلات سے دوچار۔
اگر ہمیں صحیح قیادت کی تلاش ہے تو دولت کی اس نمائشی انتخابات کو حقیقی انتخابات میں بدلنا ہوگا۔ اور یہ کام محض نعرے لگانے اور دوسروں کو نصیحت کرنے سے ہرگز نہیں ہوگا۔ یہ کام ہمیں اور آپ کو خود فرداً فرداً اپنی ذات اور اپنے گھر سے کرنا ہوگا۔ معاشرے کی اصلاح محض جلسے اور بھیڑ جمع کرکے دھواں دھار تقریر یں کرنے سے نہیں ہوتی بلکہ جو کچھ ہم اسٹیج سے دوسروں سے کہتے ہیں اسے اپنی ذات اور اپنے گھر پر نافذ کرنے سے ہوگی۔ہمیں اگر اچھی قیادت چاہیئے تو ہمیںخود کو، اپنی اولاد کو اور اپنے زیر دستوں کو اور اپنے اس ناکارہ سسٹم کو اچھا بنانا ہوگا اس لئے کہ جو بھی قیادت کرے گا اسے بھی صالح اور ایماندار افراد کی کمک درکار ہوگی۔ تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی